غالب کو نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے

گذشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی کے پچاسویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقد ہونے والے چہار روز ہ پروگرام کے آخری دن غالب اور غالب کے معاصرین کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کے دو اجلاس میں دو درجن مقالے پڑھے گئے۔پہلے اجلاس کی صدارتی تقریر میں پروفیسر قاضی افضال حسین نے کہا کہ ایک طرف فارسی زدہ شاعری اور دوسری طرف ہندی کے قریب غالب کی شاعری کو نئے انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ غالب کے یہاں ہر طرح کے تصورات کو جذب کرنے کی صلاحیت تھی۔ اس موقع پر پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ ہر ادب اپنا ادبی مزاج بدلتا رہا ہے۔ہمیں اپنے زمانے کے ساتھ غالب کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اٹھارہویں صدی میں میر،انیسویں صدی میں غالب اور بیسویں صدی کے علامہ اقبال بڑے شاعر تھے تینوں کے دور کے تقاضے الگ تھے ہمیں اپنے ماضی کے ادب کو حال کے تقاضے پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔غالب کا کلام ہمارے دور کے تقاضے کو پورا کرتا اور غالب ہماری جمالیاتی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔سیمینار میں پہلا مقالہ شاداب تبسم نے دستنبو پر پڑھا۔ حمیرہ تسنیم نے غالب اور غالب کے معاصرین کے عنوان سے اپنے مقالے میں دکن کے شعرا کا ذکر کیا۔نجمہ رحمانی نے اپنے مقالے عہد غالب کے شعری ماحول میں کہا کہ غالب کے زمانے کی تہذیبی فضا نئے دور سے گزر رہی تھی دلی کالج اپنے آپ میں ایک ثقافتی مرکز بن گیا تھا جس میں مشرق و مغرب کی قدریں دیکھنے کو ملی تھیں۔ علی جاوید نے اپنے مقالے میں کہا کہ غالب ہر طرح کے تعصب سے بالاتر تھے۔سیمینار کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں تین ہندی کے ادیبوں نے غالب اور غالب کے زمانے کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ مدن رائے نے فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات پر اپنے مقالے میں کہا کہ وہاں اردو کی ہزاروں کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ہندی اور اردو کو ایک الگ زبان کے طور پر دیکھا گیا۔یہاں شاعری بھی ہوئی پرنٹنگ پریس بھی قائم ہوا۔گرامر پر بھی زور دیا گیا۔گلکرسٹ نے للولال جی سدا سکھ لال،انشاء اللہ انشا اور میر امن کا تقرر کیا۔

بالمکند نے کہا کہ غالب ہندی پٹی میں بھی مقبول ہیں۔ ایک طرف ان کی مشکل شاعری ہے جسے فارسی اور اردو والے سمجھتے ہیں تو دوسری طرف جو پڑھے لکھے نہیں غالب ان میں بھی مقبول ہیں۔ غالب نے انسان کو نئے روپ میں متعارف کرایا ہے۔ غالب انسان کو اس کی قدر بتاتا ہے اور یہی چیز غالب کو آج کے زمانے کا شاعر بنا دیتی ہے۔وویک شکلا نے غالب کی دلی کے عنوان سے اپنے مقالے میں کہا کہ مغل دور میں ہندو مسلم اتحاد تھا جین مندروں کی تعمیر ہو رہی تھی مندر کے ساتھ ساتھ چرچ بھی بننے لگے تھے اس دور کا سب سے اہم واقعہ آغا محمد باقر کا دلی اردو اخبار تھا انھیں انگریزوں نے قتل کردیا تھا ۔نصیر احمد خاں نے غالب کی اسلوبیات پر اپنے پرچے میں کہا کہ غالب واحد شاعر ہے کہ فارسی کو اردو لہجہ میں پیش کیا۔انھوں نے فارسی سے مستعار الفاظ کو اردو میں متعارف کرایا۔سیمینار مین جی آر کنول نے کہا کہ ہندستانی زبانوں کے فروغ کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

دوسرے اجلاس کی صدارت وہاج الدین علوی نے کی انھوں نے کہا کہ غالب کی شہرت پچیس سال کی عمر کے کلام سے ہے۔ غالب کو اخذ کرکے اپنا بنانے کا کمال حاصل تھا۔پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ بیدل نے کئی نئی تراکیب وضع کی تھیں جو لغات میں نہیں ملتیں۔بیدل غالب کے استاد معنوی ہیں غالب بیدل کے سحر سے تا عمر نکل نہیں سکے۔پروفیسر قاضی جمال حسین نے اپنے مقالے غالب اور شیفتہ میں کہا کہ غالب شیفتہ کی پسند کے بغیر کوئی غزل دیوان میں شامل نہ کرتے تھے شیفتہ کو سادہ بیانی سے چمکایا ان کا بڑا کام تذکرہ گلشن بے خار ہے حنا آفرین نے غالب اور میر مہدی پر اپنے مقالے میں کہا کہ میر مہدی مجروح غالب کے شاگرد تھے لیکن غالب ان کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کرتے تھے۔پہلے اجلاس کی نظامت سہیل انجم اور دوسرے اجلاس کی نظامت ابو بکر عباد نے کی۔ غالب کو نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے
غالب اکیڈمی کے سیمینار میں پروفیسر شمیم حنفی کا اظہار خیال

گذشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی کے پچاسویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقد ہونے والے چہار روز ہ پروگرام کے آخری دن غالب اور غالب کے معاصرین کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کے دو اجلاس میں دو درجن مقالے پڑھے گئے۔پہلے اجلاس کی صدارتی تقریر میں پروفیسر قاضی افضال حسین نے کہا کہ ایک طرف فارسی زدہ شاعری اور دوسری طرف ہندی کے قریب غالب کی شاعری کو نئے انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ غالب کے یہاں ہر طرح کے تصورات کو جذب کرنے کی صلاحیت تھی۔ اس موقع پر پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ ہر ادب اپنا ادبی مزاج بدلتا رہا ہے۔ہمیں اپنے زمانے کے ساتھ غالب کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اٹھارہویں صدی میں میر،انیسویں صدی میں غالب اور بیسویں صدی کے علامہ اقبال بڑے شاعر تھے تینوں کے دور کے تقاضے الگ تھے ہمیں اپنے ماضی کے ادب کو حال کے تقاضے پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔غالب کا کلام ہمارے دور کے تقاضے کو پورا کرتا اور غالب ہماری جمالیاتی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔سیمینار میں پہلا مقالہ شاداب تبسم نے دستنبو پر پڑھا۔ حمیرہ تسنیم نے غالب اور غالب کے معاصرین کے عنوان سے اپنے مقالے میں دکن کے شعرا کا ذکر کیا۔نجمہ رحمانی نے اپنے مقالے عہد غالب کے شعری ماحول میں کہا کہ غالب کے زمانے کی تہذیبی فضا نئے دور سے گزر رہی تھی دلی کالج اپنے آپ میں ایک ثقافتی مرکز بن گیا تھا جس میں مشرق و مغرب کی قدریں دیکھنے کو ملی تھیں۔ علی جاوید نے اپنے مقالے میں کہا کہ غالب ہر طرح کے تعصب سے بالاتر تھے۔سیمینار کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں تین ہندی کے ادیبوں نے غالب اور غالب کے زمانے کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ مدن رائے نے فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات پر اپنے مقالے میں کہا کہ وہاں اردو کی ہزاروں کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ہندی اور اردو کو ایک الگ زبان کے طور پر دیکھا گیا۔یہاں شاعری بھی ہوئی پرنٹنگ پریس بھی قائم ہوا۔گرامر پر بھی زور دیا گیا۔گلکرسٹ نے للولال جی سدا سکھ لال،انشاء اللہ انشا اور میر امن کا تقرر کیا۔

بالمکند نے کہا کہ غالب ہندی پٹی میں بھی مقبول ہیں۔ ایک طرف ان کی مشکل شاعری ہے جسے فارسی اور اردو والے سمجھتے ہیں تو دوسری طرف جو پڑھے لکھے نہیں غالب ان میں بھی مقبول ہیں۔ غالب نے انسان کو نئے روپ میں متعارف کرایا ہے۔ غالب انسان کو اس کی قدر بتاتا ہے اور یہی چیز غالب کو آج کے زمانے کا شاعر بنا دیتی ہے۔وویک شکلا نے غالب کی دلی کے عنوان سے اپنے مقالے میں کہا کہ مغل دور میں ہندو مسلم اتحاد تھا جین مندروں کی تعمیر ہو رہی تھی مندر کے ساتھ ساتھ چرچ بھی بننے لگے تھے اس دور کا سب سے اہم واقعہ آغا محمد باقر کا دلی اردو اخبار تھا انھیں انگریزوں نے قتل کردیا تھا ۔نصیر احمد خاں نے غالب کی اسلوبیات پر اپنے پرچے میں کہا کہ غالب واحد شاعر ہے کہ فارسی کو اردو لہجہ میں پیش کیا۔انھوں نے فارسی سے مستعار الفاظ کو اردو میں متعارف کرایا۔سیمینار مین جی آر کنول نے کہا کہ ہندستانی زبانوں کے فروغ کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

دوسرے اجلاس کی صدارت وہاج الدین علوی نے کی انھوں نے کہا کہ غالب کی شہرت پچیس سال کی عمر کے کلام سے ہے۔ غالب کو اخذ کرکے اپنا بنانے کا کمال حاصل تھا۔پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ بیدل نے کئی نئی تراکیب وضع کی تھیں جو لغات میں نہیں ملتیں۔بیدل غالب کے استاد معنوی ہیں غالب بیدل کے سحر سے تا عمر نکل نہیں سکے۔پروفیسر قاضی جمال حسین نے اپنے مقالے غالب اور شیفتہ میں کہا کہ غالب شیفتہ کی پسند کے بغیر کوئی غزل دیوان میں شامل نہ کرتے تھے شیفتہ کو سادہ بیانی سے چمکایا ان کا بڑا کام تذکرہ گلشن بے خار ہے حنا آفرین نے غالب اور میر مہدی پر اپنے مقالے میں کہا کہ میر مہدی مجروح غالب کے شاگرد تھے لیکن غالب ان کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کرتے تھے۔پہلے اجلاس کی نظامت سہیل انجم اور دوسرے اجلاس کی نظامت ابو بکر عباد نے کی۔

تبصرے بند ہیں۔