پھر کروڑوں ووٹر مشینوں کے رحم و کرم پر

حفیظ نعمانی

یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیار میں کیا کیا ہے؟ ہم تو اب تک یہ سمجھتے تھے کہ کمیشن کا کام الیکشن کرانا اس کی تیاری کرنا اور اگر کوئی تنازعہ ہو تو اس میں مداخلت کرکے اسے ختم کرانا ہے۔ یہ بات کہ الیکشن مشین کے ذریعہ ہو یا بیلٹ پیپر کے ذریعہ یہ ان کا حق ہے کہ جو پارٹیاں ووٹ مانگتی ہیں اور ان کا حق ہے جو ووٹ دیتے ہیں۔ مشینوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے قبضہ میں رہتی ہیں۔ مشینوں کی جو پارٹیاں اور ورکر مخالفت کررہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش کے الیکشن میں مشینوں کے ذریعہ بے ایمانی کی شکایت اتنی کی گئی کہ پارٹیوں کو فیصلہ کرنا پڑا کہ جیت اور ہار الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے۔

جس دن پھول پور اور گورکھ پور کی سیٹوں کا الیکشن ہورہا تھا ہم نے اپنے ایک بہت عزیز دوست جو سیاسی بھی ہیں اور کاروباری بھی ان سے معلوم کیا کہ تم الہ آباد کے معاملات میں بہت آگے آگے رہتے ہو یہ بتائو کہ پھول پور میں عتیق کتنا نقصان پہونچا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں تو عتیق سے زیادہ فکر مشین کی ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ اس لئے کہا کہ اترپردیش اسمبلی الیکشن میں ان لوگوں نے جیسی محنت کی تھی اور انہیں یقین تھا کہ بی جے پی کو ہرادیں گے لیکن ان کے بقول مشین نے کام دکھا دیا۔

مشین ایک بے جان پرزہ ہے اس سے الیکشن کمیشن کام لیتا ہے۔ وہ ساری مشینیں کمیشن کے پاس ہی رہتی ہیں حکمراں بی جے پی کے علاوہ ہر پارٹی کو شبہ ہے کہ ان مشینوں سے اگر چاہیں تو بے ایمانی کی جاسکتی ہے۔ یہ بات موجودہ چیف الیکشن کمشنر سے پہلے کی بات ہے کہ اس شکایت کو موضوع بنایا گیا کہ بٹن کوئی بھی دبائو کنول کے پھول کو ووٹ جاتا ہے۔ یہ ہوائی بات نہیں تھی الیکشن میں کئی جگہ ایسا ہوا اس پر شور بھی ہوا اور مشین بھی بدلی گئی۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسا ہوا اور کئی جگہ ہوا تو کیوں نہ سمجھا جائے کہ دیہات کے پولنگ پر جہاں کسان اور جاہل مرد اور بے شعور عورتیں ووٹ دے رہی ہوں اور ہر آدمی کو سرکار سمجھ رہی ہوں وہ کہاں سے یہ ہمت لائیں گی کہ چیخ پڑیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ اور انہیں کہاں اس کا شعور ہوگا کہ ہم نے کون بٹن دبایا اور کہاںٰ ووٹ گیا؟ یہ ایک معمولی بات ہے کہ اگر دوچار جگہ ایسا ہوا تو یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ یہ سو جگہ ہورہا ہے مگر پکڑ میں نہیں ہے۔

اس سلسلہ کی اہم بات یہ ہے کہ آخر کہیں سے یہ خبر کیوں نہیں آئی کہ بٹن کمل کا دبایا ہاتھی کو یا سائیکل کو ووٹ گیا۔ جہاں سے بھی شکایت ملی وہ یہی کہ کمل کو ووٹ ملا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اب تک دنیا میں جہاں جہاں اس مشین کا استعمال ہوتا تھا وہاں سے اسے نکال دیا گیا ہے ظاہر ہے کہ وجہ بے ایمانی کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے؟ دنیا کے بڑے ملک کے لوگ زیادہ تر بے ایمان نہیں ہیں۔ بے ایمانی ان ملکوں میں زیادہ ہے جہاں حکومت دشمنوں کی رہی ان میں ہندوستان بھی ہے۔ ہمارے ملک میں جتنی بے ایمانی ہے وہ شاید اس لئے ہے کہ انگریز حکمراں تھے اور ان کو نقصان پہونچانا ہم ثواب سمجھتے تھے۔ جیسے بغیر ٹکٹ سفر کرنا سیل ٹیکس یا انکم ٹیکس نہ دینا کم تولنا ڈنڈی مارنا موقع ملے تو کئی کئی ووٹ دینا۔

موجودہ چیف الیکشن کمشنر صاحب نے دستور بننے کے بعد پہلا 1952 ء کا الیکشن کہاں دیکھا ہوگا۔ ہم نے اسے دور سے دیکھا ہے اور ایک سال کے بعد میونسپل بورڈ کے الیکشن میں اپنے ایک عزیز کی طرف سے حصہ بھی لیا ہے۔ اس میں بیلٹ پیپر دو روپئے کے گلابی رنگ کے نوٹ کے برابر تھا اور پولنگ اسٹیشن پر ایک بینچ پر کئی کئی ڈبے رکھے تھے جن پر امیدواروں کے انتخابی نشان چپکادیئے گئے تھے۔ ووٹ دینے والے کو ایک بیلٹ پیپر دیا جاتا تھا کہ وہ پردہ میں رکھے ہوئے ڈبوں میں سے جسے ووٹ دینا ہو اس میں ڈال دے۔ شاطر کھلاڑیوں نے ووٹر کو پرچی دیتے وقت چپکے سے کہا کہ تم اندر جاکر اسے جیب میں رکھ لینا اور ہمارے پاس لے آنا اور ہم سے دو روپئے لے لینا۔ اس طرح جب 25  جمع ہوگئے تو اپنے کسی ورکر کو وہ دیئے اور کہہ دیا کہ اپنے ووٹ کے ساتھ یہ سب بھی ڈال دینا۔ سنا ہے کسی کسی امیدوار نے پانچ روپئے بھی قیمت رکھی تھی۔ جب یہ راز کھلا تو یہ ہوا کہ اب بیلٹ پیپر ایسا بنے گا جس پر سب نشان ہوں گے۔

1952ء سے اب تک بار بار ووٹ دینے کا طریقہ بدلا اور ہر بار بے ایمانی کرنے والوں نے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا۔ اب برسوں سے مشین نے قبضہ کرلیا ہے جس کی وجہ سے امیدوار یا چھوٹی پارٹیاں کچھ نہیں کرسکیں صرف حکومت گر چاہے تو الیکشن کمیشن کے ذریعہ مشین سے بے ایمانی کراسکتی ہے جس کا سب سے زیادہ شور یوپی کے انتخابات کے بعد ہوا اور حکمراں طبقہ اور حکمراں پارٹی کے علاوہ کوئی سیاسی یا غیرسیاسی آدمی ایسا نہیں تھا جو اس کے لئے قسم کھانے پر تیار نہ ہو کہ مشین کے ذریعہ بے ایمانی کی گئی ہے۔

گجرات کے بارے میں مودی جی اور امت شاہ کا دعویٰ تھا کہ وہ 150  سیٹوں پر جیتیں گے پھر جب الیکشن شباب پر آیا تو ان دونوں کو پائوں کے نیچے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی اور پھر جو کچھ ہوا اور وزیر اعظم جتنا نیچے اترتے نظر آئے اور اس کے بعد انہوں نے شکست سے بچنے کیلئے جو کچھ کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد گجرات میں ہاردِک پٹیل اور ان کے گروپ نے پھر مشین پر نشانہ لگایا اور کہا کہ پہلے سے ووٹ ڈال دیئے گئے تھے۔ یہ بات ہم نے نہ جانے کتنے لوگوں سے سنی۔ اور حقیقت کیا ہے یہ پروردگار جانے؟

موجودہ چیف کمشنر کو جو خود اس ضد پر اَڑے ہیں یا وزیراعظم کے دبائو سے اَڑے ہیں اس کا انتظام کرنا پڑے گا اور سیاسی پارٹیوں کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ کیرانہ اور نور پور کی طرح جن حلقوں میں حکومت کے مخالف ہوں گے وہاں مشینوں کو پیچش نہ ہوگی نہ گرمی میں انہیں پسینہ آئے گا اور نہ سردی میں ان کے دانت کٹکٹائیں گے جس سے ہر ووٹ بی جے پی کو جائے۔ پولنگ کے لئے 8 سے 5 تک 9 گھنٹے ملتے ہیں ان میں اگر مشین کے خراب ہونے اور دوسری مشین لگنے تک دو گھنٹے برباد ہوجائیں تو پولنگ 7 بجے تک ہو۔ ہر پولنگ پر اتنی مشینیں ہوں گی کہ ایک کے خراب ہوتے ہی دوسری کام کرنے لگے انجینئر کو بلانے اور انتظار کرانے سے ووٹروں کو تھکاکر بھگایا گیا تو پولنگ میں جو بھی ہوگا اس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے بیان میں صرف سیکورٹی کے انتظام کو موضوع بنایا ہے۔ جبکہ اصل شکایت یہ ہے کہ ہم ووٹ ہاتھی کو دیتے ہیں تو کمل کو وہ کیوں ملتا ہے؟ اس کے ذکر سے وہ ایسے بھاگ رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے دل میں بھی چور ہے ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم اسمبلی کے تینوں الیکشن میں یہ چاہیں گے کہ مشین پاک صاف نکل آئے اور لوک سبھا کے الیکشن میں مشینوں سے جتنا سونا ہیرے موتی نکل سکتے ہیں نکال لیں اس لئے کہ اس میں ان کو اپنی حکومت بنانا ہے اس کیلئے وہ ہر کھیل کھیلنے کی قیمت دیں گے مگر حکومت نہیں دیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔