پیاری ممہ

سہیل بشیر کار

 لفظ  ’ماں‘ کس قدر پیارا ہے، کس قدر اپنائیت سے بھر پور، ماں سب کی ایک جیسی ہوتی ہے، اپنے بچوں کے لئے انتہائی مخلص ،ہر پل ان کے لئے تڑپتی رہتی ہے، دنیا میں جو بھی رشتہ ہوتا ہے اس میں لے دے کا معاملہ ہوتا ہے لیکن دنیا کا واحد ایک ایسا رشتہ جہاں بےلوثی اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس رشتے میں انسان کو ہر پل بس محبت ملتی ہے چاہے آپ بدلے میں محبت دو یا نہیں۔ اور یہ  رشتہ ممتا کا ہے، ماں کا رشتہ ہے، خلوص کا پیکر ہوتی ہیں مائیں، ہر اولاد کی طرح میں بھی  سمجھتا ہوں کہ میری ماں جیسی اور کوئی نہیں ہوسکتی، اس کو صرف بچوں کی فکر رہتی تھی،  اگر کبھی میرا موڈ خراب ہو، تھکان ہو ، تو سب سے پہلے وہی بھانپ لیتی تھی، انسان کی طرف دیکھو، سب سے زیادہ حق ماں پر جتاتا ہے، ماں کی ناراضگی کی اس کو ذرا بھی پرواہ نہیں وہ جو جانتا ہے کہ ماں کبھی ناراض نہیں ہوتی، کسی شاعر نے کہا کہ

لبوں پہ اس کے بدعا نہیں ہوتی

بس اک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی

چالیس سال کی عمر بھی بڑی عجیب ہوتی ہے، جوں ہی انسان اس عمر میں قدم رکھتا ہے ترقیاں، منزلیں اس کو ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس عمر کو پار کرتے ہی اپنے چھوٹنا شروع ہو جاتے ہیں،ایک ایک کر کے اپنوں سے جدا ہونے لگتے ہیں۔  میرے اندر بھی کچھ وسوسے تھے، ایک ڈر تھا، اندیشے تھے اور نہ جانے کیوں کئی روز سے دل میں ممی کو لے کر برے برے خیالات آرہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے چھوڈ کر جائے گی، وہ بلکل ویسی ہی تھی، ہر ماں کی طرح، پہلے اپنے بچوں کی فکر پھر ہمارے بچوں کی فکر۔ صبح سویرے اٹھ کر گھر کے سارے کام سے فارغ ہو جانا اب بھی اس کا معمول تھا ،ہم جب اٹھتے سب کام مکمل ہوئے ہوتے۔

ممی کی پیدائش کا معلوم نہیں البتہ ایک بات طے ہے کہ اس دن خانپورہ میں ہولناک آگ لگی تھی، اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1955 کا سال تھا، ممی کو بچپن سے میں نے کاموں میں مصروف دیکھا، کبھی جھاڑو لگاتے ہوئے، کبھی کھانا پکاتے ہوئے، کبھی ترکاریوں کی کیاریوں کے ساتھ، تو کبھی بنیان بنتے ہوئے، بچپن میں ممی کو ٹوپی بناتے ہوئے دیکھا، تاکہ گھر کی آمدنی میں اضافہ ہو، علامہ اقبال لکھتے ہیں.

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہیں

تری خدمت کے قابل جب ہوا، تو چل بسی

میں بھی خوب خدمت کرنا چاہتا تھا لیکن میرا انداز جدا تھا۔  مجھے ممی کا بیکار رہنا کبھی اچھا نہیں لگتا، جب وہ کام کرتی رہتی مجھے خوشی ہوتی کہ ممی کی طبیعت ٹھیک ہے،خالی بیٹھنا اس کے مزاج کے خلاف تھا، صبح جب میں نماز پڑھنے کے لیے نکلتا تو سب سے پہلےچپکےسے کچن میں دیکھتا کہ rice cooker چل رہا ہے تو سکون ملتا کہ ممی کی طبیعت بہتر ہے، نماز کے بعد شہد کا پانی انکو پلانا میرا روٹین تھا، بلڈ پریشر کی گولی وہ میرے بغیر کسی کے ہاتھ سے نہیں کھاتی تھیں۔

مائیں پریشانیوں سے کبھی نہیں نکلتیں۔ پہلے اپنے بچوں کی فکر انہیں کھا جاتی ہے، اس کے بعد بچوں کے بچوں کی فکر۔ کشمیر کی مائیں ویسے بھی تو حالات کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہیں۔ وہ ہمیشہ اندیشوں میں رہتی ہیں کہ کیا خبر میرا بچہ صحیح سلامت گھر واپس لوٹے گا بھی۔ میرے دل میں بارہا یہ خیال آتا کہ کیا ممی کبھی اپنے بارے میں بھی سوچیں گی،  لیکن ہر بار یہ خیال بس خیال ہی رہا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس نے آخری بار کب اپنے بارے میں کچھ سوچا ہو۔  مارچ 2020 میں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون ہوا، پہلی بار میں نے گھر میں بہت وقت گزارا، نمازیں ہم ایک ساتھ جماعت ادا کرتے، ایک ساتھ کھانا کھاتے، سب کچھ اچھے سے چل رہا تھا لیکن 13 جولائی 2020 کی وہ خوفناک رات میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ جب ممہ کی طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوئی، ہم رات میں  انہیں ہسپتال لے گئے، بدقسمتی سے کرونا کے خوف کی وجہ سے کوئی بیمار کو ہاتھ نہیں لگا رہا تھا، مجھے یہ اندیشہ تھا کہ جب ڈاکٹر ممہ کو سرینگر shift کریں گے تو وہ اس کو برداشت نہ کر پائیں گی اور ہارٹ اٹیک  سے مر جائیں گی۔ وہی ہوا ڈاکٹر صاحب جو ڈیوٹی پر تھے انہوں نے کہا کہ مما کو  سرینگر لے جاؤ۔  ہم نے ایمبولینس لے لی، مجھے اب بھی یاد ہے کہ کرونا کا خوف اس قدر تھا کہ ایمبولینس کا ڈرائیور دروازہ کھولتا پھر دور ہی سے اشارہ کرتا کہ مریض کو گاڑی میں چڑھاؤ، پھر جب تیماردار دروازہ بند کرتا تو وہ ڈرائیور سیٹ پر آجاتا، ہم جب سنگرامہ سے آگے نکلے تو آکسیجن ختم ہوا۔  میں ڈرائیور کی کھڑکی کو کھڑکھڑاتا رہا لیکن کوئی جواب نہیں ملا، کسی طرح ہم smhs ہسپتال پہنچ گئے، پہلی بار مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں کچھ نہیں کر پارہا ہوں، ممہ کو ڈاکٹر نے چیک کرکے isolation ward میں داخل ہونے کو کہا،مجھے یاد ہے وہاں موجود ڈاکٹر نے ہمیں کہا کہ اتنے سویرے کیوں آئے۔  خیر ایک بیڈ ہم نے خود ہی خالی پایا اور اس پر ممہ کو رکھا، کاغذات مکمل کرنے کے بعد میں نے ممہ کو آکسیجن لگایا،  لیکن میں محسوس کر رہا تھا کہ آکسیجن کی سپلائی خراب ہے، اتنی دیر میں ممہ کو کینولا لگوانا تھا۔ تین گھنٹے سے زائد عرصہ تک میں نرس کو ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں ڈھونڈتا رہا، جو بھی ملتا اس کی منت کرتا لیکن کوئی نہیں آیا، ڈاکٹر سے ملا اس نے کہا کہ پیرامیڈکل سٹاف کے پاس پی پی کٹ نہیں، میں نے کہا کہ چند سو روپے میں آتا ہے میں ہی ارینج کرتا ہوں، میری ماں مر رہی ہے لیکن کوئی داد رسی نہیں ہوئی۔  آکسیجن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ ایس ایم ایچ ایس کے اکثر پوئنٹس خراب ہیں ان میں بہت ہی کم آکسیجن آرہا ہے، اب کہیں مریض شور مریض شور نہ اٹھائے لہذا وہ اسی خراب آکسیجن کا سہارا لئے ہوئے تھے۔ 14 جولائ 2020 دن کے دو بجے ممہ واش روم گئی، تب ہی ان کا کرونا ٹسٹ لیا گیا مجھے جو اندیشہ تھا وہی ہوا، ممہ کو دل کا دورہ پڑا۔  میں نے ڈاکٹر کو بلایا اس نے بیڈ کو triage میں لیا وہاں موجود انچارج نے کہا کہ یہاں کیوں لائے ہو یہاں کوئی بیڈ خالی نہیں، برآمدے میں وہ ہاتھ پاؤں مارتا رہا لیکن اب اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا ممہ اللہ کے ہاں چلی گئی تھی،اس کے بعد دور ہی سے ڈاکٹر نے کہا کہ گھر لاش نہ لے جائیں،  جب تک ٹسٹ کی رپورٹ نہ آئے، ہم دونوں بھائی ممہ کی لاش سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے، میں نے کئی جاننے والوں کو اطلاع کی،جب ہم دو بھائی ممی کی میت لیکر ہسپتال کے کا ریڈور میں تھے ایسے میں ایک عزیر ڈاکٹر  بار بار ممی کے ٹیسٹ کے لئے انتہائی کوشش کر رہا تھا۔ ایک بچی، جس کا نام بھی میں نہیں جانتا، نے ممی کے سارے کپڑے تبدیل کئے، کہا کہ کیا معلوم کہ یہ لوگ لاش دینگے بھی یا نہیں، لہذا میں ابھی سے تیاری کرتی ہوں، عرفان بہادر اور عرفان الہی  جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور بزرگ والدین ہیں میرے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ ہسپتال پہنچے،  ممی کی لاش کو لاش گھر پہنچھایا، اور رات تک ہمارے ساتھ رہے،رات میں معلوم ہوا کہ ممہ کا ٹسٹ نیگیٹو آیا ہے لہذا میت گھر لے جا سکتے ہیں, مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میت کے پاس تب تک سبھی احباب ہوتے ہیں لیکن دفن کرنے کے لیے اگر وہ پازیٹو آئے تو protocol,رکھنا پڑتا ہے، ممہ کو اللہ کے حضور جانا تھا وہ چلی گئی، لیکن اتنی جلدی ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ زندگی کی یہی حقیقت ہے، یہ اللہ کی مرضی ہے، جب چاہے اپنی امانت کو واپس لے جائے، ہم ہارون کی شادی کا سوچ رہے تھے ممہ کو اس شادی کا بہت شوق تھا، یہ آخری شادی تھی، ممہ اس میں سب کو بلانا چاہتی تھی لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔

ماں کے انتقال کے بعد انسان کو سمجھ آتا ہے کہ دکھنے میں بظاہر کمزور مخلوق نے کتنے سارے بار اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں، ماں کے ہوتے ہوئے انسان کس قدر بہت سی چیزوں سے بے خبر ہوتا ہے اور ماں کے جانے کے بعد اس کو احساس ہوتا ہے، یہی میرے ساتھ بھی ہوا، ممہ کی وجہ سے میں کس قدر فارغ رہتا۔ لیکن اس کا احساس اس کے جانے کے بعد ہی ہوا ۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ممہ کس کس کام کو سنبھال رہی تھی، حالانکہ وہ اندر ہی اندر بے حد کمزور ہوئی تھی، جوان بیٹی کا انتقال 9 سال پہلے جو ہوا تھا، وہ اس غم سے باہر کبھی آئی ہی نہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ہر چیز کو سنبھال رہی تھی. ممہ نے چالیس سے زائد سال اس گھر میں گزارے، رشتے بنانا، مزاج بنانا ماں کا خاصہ ہوتا ہے، میرا یہ اندیشہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا کہ آیا ممہ کے بعد یہ legacy ہم برقرار رکھ پائیں گے۔

ممہ کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ہر چیز سے باخبر رہتی اس نے پورے خاندان بلکہ کئی خاندانوں کو جوڑ کر رکھا تھا مسلم تو مسلم ہمارے غیر مسلم ہمسایہ بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے بارے میں کوئی خبر ہوتی ممہ اطلاع کرتی۔ خبریں، بی بی سی سیربین اور سرخیاں شاید ہی اس نے کسی دن چھوڑی ہوں۔  کس کا امتحان کب ہے انہیں معلوم ہوتا کب نتائج آئیں گے اور کس کا result ہے اور کس کو کتنے مارکس ملے ہیں،  ممہ کو یہ سب معلوم ہوتا۔ ہر ایک کی فکر تھی اس کو  کہ کیسےکوئی ایڈجسٹ ہو، خاندان میں اگر جس کی شادی نہ ہوئی ہو اس کی فکر، ہارون کو دن میں کئی بار فون کرنا، خاندان کے افراد کے ہاں جانا ان سے فون پر رابطہ برقرار رکھنا، میں آج سوچ رہا ہوں کہ ممہ یہ سب کیسے manage کر پاتی تھی،کرکٹ کے ساتھ ممہ کی زبردست دلچسپی تھی، پاکستان کے علاوہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں پسند تھیں۔

والدین بچوں کے لیے ہر حال میں نعمت ہوتے ہیں ان ہی کی بدولت انسان کے بہت سے کام آسان ہوتے ہیں، انسان بہت سارے مشکلات سے بچ جاتا ہے، وہ چپکے چپکے بچوں کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، مجھے 1996 کا ایک واقعہ یاد آیا۔ مئی 1996 میں میں بی ایس سی ایگریکلچر کرنے جونپور چلا گیا، کشمیر میں میں نے سردی کی وجہ سے فرن پہنا تھا، جب میں جموں پہنچا تو جھلسا دینے والی گرمی نے پریشان کیا، میری منزل ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور کا ایک گاؤں تھا، رات میں جب ہم وہاں پہنچے تو ہر طرف اندھیرا تھا لوگ چھت پر سو بلکہ اونگ رہے تھے، دوسرے دن معلوم ہوا کہ یہاں اکثر بجلی نہیں رہتی، قریب 50 ڈگری درجہ حرارت برداشت سے باہر تھا، کشمیر کے اکثر طلباء رات بھر جاگتے رہتے، گرمیوں کی وجہ سے انہیں نیند نہیں آتی لیکن میں آرام سے سو جاتا اور گرمی بھی تنگ نہ کرتی، حالانکہ ہندوستان میں پہلی بار گیا تھا، سب رشک سے مجھے دیکھتے کہ اس کو گرمی پریشان کیوں نہیں کرتی، گھر واپس آنے کے بعد کسی نے بتایا کہ جب تم وہاں چلے گئے مما اکثر گھر کے صحن میں دھوپ میں رہتی اور اللہ سے دعا کرتی کہ اے اللہ سہیل صاحب کے حصے کی گرمی مجھے دے دو اور بدلے میں اس کو آرام ملے،….. زندگی میں کئی مرحلے ایسے آئے جب مجھے لگا کہ اس مصیبت سے نکلنا مشکل ہے لیکن مما چپکے سے دعا کرتی اور ہر مرحلہ آرام سے گزرتا،… ممہ کی دعا کی بدولت  کئی مشکلات میری آسان ہوئیں۔

ہر انسان کے کچھ لوگ فیورٹ ہوتے ہیں، بندہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے ان ہی پسندیدہ لوگوں کے ساتھ رہے، وقت گزارے، زندگی کے مراحل سیکھے… لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوتا ہے کہ وہ فیورٹ لوگ ہی دنیا میں نہیں رہتے، میرا شوق تھا کہ میرے بچے نانی حاجہ اور ممی کی صحبت میں رہیں۔ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھیں….. لیکن بچوں کی بدقسمتی کہ وہ دونوں نہ رہے،مجھے سب سے زیادہ فکر اسی بات کی ہے کہ میرے بچوں کو رشتوں کا احترام اب کون سکھائے گا،…. آج ممہ کو ہم سے گئے ہوئے ایک سال ہوا لیکن کئی بار میں ممہ کو بلانے کے لئے اس کے کمرے میں جاتا ہوں، کبھی خیال آتا ہے کہ ممہ کو مکان کی مرمت دکھاؤں وہ خوش ہوگی، کبھی فون چیک کرتا ہوں کہ کئی ممہ کا فون تو چیک کرتا ہوں کہ کئی ممہ کا فون تو نہیں آیا ہے۔ پھر یاد آتا ہے وہ تو چلی گئی بس دل میں خیال آتا ہے کہ کاش گزشتہ سال ایک سپنا ہوتا جب میں آنکھ کھولتا تو ممہ ہوتی وہ خوبصورت مسکراہٹ…….. لیکن

میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا

تو مرا سرما یہِ جذبات تھی

پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی

تیرے ہونے سے جو میری بات تھی

تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی

زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی

تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی

تیرے ہونے سے جو کائنات تھی

چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی

باعثِ تسکین تیری ذات تھی

ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟

کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا

(فاروق بھٹی)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔