پیرس: پُرانے انقلابیوں، مصوّروں اور شاعروں کا شہر

صفدر امام قادری

اقبال نے ’مسجدِ قرطبہ‘ میں فرانس کے انقلاب کے سبب مغرب کی زندگی میں جو تبدیلیاں آئیں، انھیں رہ نما اصول کے طور پر باعثِ ترغیب قرار دیا ہے۔ آخر فرانس میں وہ کون سی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اسے یورپ میں فکری قیادت حاصل ہے؟ آج کے فرانس کو اس نہج سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بدلتی ہوئی زندگی اور دنیا میں آج فرانس اور بالخصوص پیرس کہاں نظر آتے ہیں ؟

اٹھارویں صدی سے ایسا سلسلہ چل پڑا تھا کہ دنیا میں نئے تصوّرات کی تجربہ گاہ اگر کوئی ہے تو وہ پیرس ہے۔ امریکہ ہو یا جرمنی، برطانیہ ہو یا ڈنمارک، جہاں جہاں زندگی اور کائنات کے سلسلے سے کوئی نئی اور قابلِ توجہ بات کہنے والا سامنے آیا اور اگر اُسے اپنے ملک کی حکومت یا لوگوں نے پسند نہیں کیا تو اُس کے لیے پیرس ایک ایسا شہر ہوتا تھا جہاں وہ آکر اپنی بات یا اپنے کام کو عوام کے سامنے پیش کرسکتا تھا۔ اسی لیے رفتہ رفتہ فلسفیوں، شاعروں، ادیبوں اور مصوّروں کی سب سے پسندیدہ جگہ کے طور پر پیرس کی پہچان ہونے لگی۔

یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ پیرس سے زیادہ شاید ہی کسی دوسرے شہر نے اپنے فن کاروں کی ایسی قدردانی کی ہو۔ آج رِستراں کلچر سے پیرس بھرا پڑا ہے، اس کی تاریخ میں جائیے تو یہ فن کاروں اور دانش وروں کے اڈّے تھے جہاں وہ عمومی مسائل سے ذرا الگ ہوکر تخیّل کی سطح پر نئی دنیا اور نئی زندگی کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ یہ تہذیب اب بھیڑ کی شکل میں پورے شہر کی دائمی پہچان ہے۔ہر چند اب بنیادی افتاد مَے نوشانہ ہے مگر شرافت، تہذیب اور سلیقے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہمارے ہندستانیوں کی اوباش شراب نوشی کا یہاں شائبہ تک نہیں۔

پیرس میں اُترتے ہی ایرپورٹ سے ہی فرانسیسی سلیقہ شعاری کا اندازہ ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ حُسن اور اس پہ حُسنِ ظن۔ مسافروں کی سہولت کے لیے جدید وسائل کا بہترین استعمال۔ یورپ کی سب سے سخت گرمی کا دور ہے؛ تیس ڈگری حرارت میں ہم ہندستانیوں کو پسینے آرہے ہیں تو فرانس کے لوگ اور دوسرے ٹھنڈے ممالک سے آنے والوں کی پریشانیوں کا اندازہ مشکل نہیں۔ لوکل ٹرین میں ہاتھ کے پنکھے یا بیٹری کے پاکٹ سائز پنکھے اکثر لوگوں کے پاس ہیں۔ موسم بالعموم معتدل ہوتا ہے اور زیادہ مدّت سردیاں ہوتی ہیں، اس لیے میٹرو ٹرین میں اے۔سی۔ کا انتظام نہیں۔ دلّی والوں کے لیے شاید یہ حیرت انگیز خبر ہو۔ اسی طرح اکثر و بیش تر ہوٹل یا ادارے بغیر اے۔سی۔ کے ہوتے ہیں۔ پیرس یونی ورسٹی اور دوسرے تعلیمی اداروں کے کلاس روم اور دفتر اے۔سی۔ کیا پنکھے سے بھی بے نیاز نظر آئے۔

فرانس میں سادگی سے جینے کا ایک خاص طَور ہے اور یہ وہاں کی ہر شَے میں موجود ہے۔ ہندستان کی بادشاہت اور جاگیردارانہ تہذیب میں دکھاوے کے عناصر بہت نظر آتے ہیں۔ فرانس میں دیڑھ سو اور دو سو سال کی بہت ساری عظیم الشان عمارتیں اس کے عہدِ قدیم اور نظامِ کہنہ کی یادگار کے طور پر ہیں مگر انھیں بھی اضافی طور پر بارونق بنا کر پیش کرنے کا رواج نظر نہیں آتا۔ عمارتوں کو صاف ستھرا رکھنا، انھیں دیکھنے آنے والوں کو سہولت حاصل ہو؛ یہ تصوّر یہاں نظر آتا ہے۔ ہمارے یہاں لال قلعہ اور تاج محل کے رکھ رکھاو پر تو توجّہ ہی نہیں ؛ عام عمارتوں کو سیاحت کے نقطۂ نظر سے کیسے کوئی بارونق بنائے۔

عجائب گھر اور میوزیم کیسے بنائے جاتے ہیں، اس کا اندازہ پیرس کے میوزیموں کو دیکھے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصوّروں کے لیے تو یہ عجائب گھر جنّت الفردوس کے مانند ہیں جہاں مشہور سے لے کر گُم نام مصوّروں کی ہزاروں تصاویر اُن کے مزاج، انداز اور موضوعات کے اعتبار سے سجا کے رکھے گئے ہیں۔ اتنے باسلیقہ میوزیم شاید روے زمین پر کسی نے بنائے نہیں۔ اپنے فن کاروں کے تخلیقی شہکاروں کو ایسی تعظیم اگر ہندستان میں ملنے لگے تو آج بھی انھیں کہیں باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔

پیرس اگرچہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ہے مگر اس کی آبادی اب بھی ۲۵؍لاکھ کے آس پاس ہے اور ’’آرک آف ٹریمف‘‘ یا ایفل ٹاور پر چڑھ کر تقریباً پوری آبادی نظر آجاتی ہے۔ بالعموم باغ سے سات منزلہ عمارتیں ہیں اور گلیوں سے شاہراہوں تک یہی عالم ہے۔ بیس پچیس سے زیادہ ہائی رائز عمارتیں نہیں۔ عمارتیں انداز اور رنگ و روغن میں اس قدر مشابہ ہیں جیسے محسوس ہو کہ ایک ہی گھر کے الگ الگ حصّے ہیں۔ زیادہ چمک دمک نہیں۔ سادگی اور سہولت بنیادی اصول معلوم ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے دروازے اور کھڑکیاں جن کے ساتھ لازمی طور پر مختصر بالکنیاں ہیں۔

سیلانیوں کی بھیڑ کے علاوہ کہیں کوئی بھیڑ نظر نہیں آتی۔ ’’آرک آف ٹریمف‘‘ اور ایفل ٹاور کے آس پاس پچیس تیس ہزار سیّاح ضرور ہوتے ہیں مگر انتظامات اتنے چُست درست ہیں کہ کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہندستانی پولیس یا انتظامی اہل کاروں کی طرح کہیں کسی نے بدتمیزی سے یا تلخ بولی کے ساتھ کبھی گفتگو نہیں کی۔ حفاظت کے لیے سیکڑوں عملے بھی بہ طورِ خوف یہاں نہیں لگائے گئے ہیں۔ پیغام یہ ہے کہ ایک ذمّہ دار شہری کے طور پر آپ آئیں، یادگاروں کو دیکھیں اور آگے بڑھ جائیں۔ فرانسیسیوں کی یہ نرم خوئی قابلِ داد ہے۔

پیڑوں کی پوجا تو ہندستانی قوم کی شناخت ہے مگر پیرس کے ہر راستے کو متوازی طور پر پیڑوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔قومی شاہراہوں سے لے کر گلیوں تک۔ کون ایسا احاطہ ہوگا جہاں گھنے اور سایہ دار پیڑ نہیں۔ آرک پر چڑھ کر جب پورے پیرس کا نظارہ کیجیے تو جتنے مکان نظر آتے ہیں، اُن سے زیادہ ہرے بھرے پیڑ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی ہریالی شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے شہر میں نظر آئے۔ لاکھوں کی تعداد میں قائم یہ پیڑ پیرس کے مزاج میں ایک خاص انداز کا وقار اور سالمیت پیدا کرتے ہیں۔ ان پیڑوں نے اب کی بار زیادہ گرم موسم میں سیلانیوں کو گھومنے پھرنے میں اپنی نرم چھائوں سے بڑی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ کاش ہندستان کے چھوٹے بڑے شہر کنکریٹ کے جنگل قائم کرنے کے دوران پیرس کی یہ ادا بھی سیکھتے جاتے تو وہاں کے شہری ان کے خصوصی شکرگزار ہوتے۔

فرانسیسیوں کی اپنی زبان اور تہذیب سے محبت کے قصّے تو سنے تھے مگر پیرس کی خاک چھانتے ہوئے اُن کے ایمان اور اعتماد پر رشک آنے لگا۔ عوامی اجتماعات کی ہر جگہ پر صرف فرانسیسی زبان میں ہی نوٹس لگے ہوئے ملیں گے۔ دکانوں کے نام، سڑکوں کے تختے، ریلوے کے اسٹیشن ہر جگہ صرف اور صرف فرنچ ملے گا۔ دکان داروں سے انگریزی بولیے، وہ صاف صاف کہہ دیں گے کہ انھیں صرف فرنچ آتی ہے۔ ہمارا بھی کچھ انگریزی اور کچھ اشاروں کی زبان سے ہی کام چل رہا ہے۔ اپنی مادری زبان کی حفاظت کا یہ انداز ہمیں پسند آیا۔ کاش ہندستان میں بھی انگریزی پرستی کے ماحول میں ہم اپنی مادری زبان کی حفاظت کے لیے پابندِ عہد ہوتے۔

حسنِ فرانس اور حسینانِ پیرس کے جلوے پر تو سارا عالَم رقص کناں ہے مگر دوسرے قصّوں کے ساتھ اُسے اگلی صحبت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ [جاری]

تبصرے بند ہیں۔