پیغمبرؐ اِنسانیت خدا کی نظر میں

تحریر: قاری محمد عبداللہ سلیم ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
(دوسری وآخری قسط)
ہر مخلوق کے اندر خاص نوعی اور صنفی اوصاف و خصائل ہوتے ہیں جو اس کے مقصد تخلیق کے عین مناسب ہوتے ہیں۔ وہ خصوصی اوصاف جس فرد میں نمایاں اور کامل درجہ میں ہوں گے وہی فرد باکمال مانا جاتا ہے۔ مثلاً شیر میں شجاعت اور سفاکی اس کے خاص نوعی اوصاف ہیں۔ یہ خصلتیں جس شیر کے اندر جس درجہ کمال کے ساتھ ہوں گی اسی درجہ شیر باکمال ہوگا، کیونکہ اس سے خلقی مقاصد بدرجۂ باکمال پورے ہوں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بقاعدۂ اصولیین جب کوئی نام بولا جاتا ہے تو اس سے فردِ کامل ہی مراد ہوتا ہے؛ یعنی وہی فرد مراد لیا جاتا ہے جو اپنے نوعی اور صنفی کمالات کے ساتھ بدرجہ کمال متصف ہو، مثلاً شیر بولے تو اس سے کامل درجہ کی شجاعت و سفاکی سے متصف شیر ہی مراد ہوگا جو اس کا نوعی وصف خاص ۔۔۔ اس لئے کہ اگر شیر میں اور سب کچھ ہو لیکن شجاعت و سفاکی نہ ہو تو وہ اس کے حق میں عیب ہے۔
اسی طرح انسان کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کیلئے پیدا کیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ ’’میں نے انسانوں اور جنات کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے‘‘۔
اور عبادت کا خلاصہ لازمہ ہے بندگی اور عبدیت، اس لئے عبدیت ہی انسان کے حق میں کمال ہے، جس درجہ وصفِ عبدیت کسی انسان میں ہوگی اسی درجہ وہ باکمال ہوگا۔ اگر کامل ترین عبدیت انسان ہوگا۔ اس کے برعکس کسی فرد میں سب کچھ ہو مگر عبدیت نہ ہو تو وہ اس کے حق میں عیب شمار ہوگا۔ (چونکہ یہ ایک حقیقت ہے اس لئے دنیا میں خواہ کچھ بھی سمجھا جائے عالم آخرت میں جہاں حقائق اصل روپ کے اندر ہوں گی وہاں یہی اصول کار فرما ہوگا اور اسی بات کو پرکھا جائے گا کہ عبدیت کس درجہ کی ہے)۔
اور یہ بات بھی واجب التّسلیم ہے کہ کوئی فردِ انسانی عبدیت کا حق ادا نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ عبد و معبود کی حقیقت سے باخبر نہ ہو جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو انسان عبد کامل ہے وہ لازمی طور پر کامل درجہ کا عالم و عارف ہے۔
اور قاعدۂ اصولیین بتلایا جاچکا ہے کہ جب کوئی لفظ یا نام بولا جائے تو اس سے فردِ کامل ہی مراد ہوتا ہے، لہٰذا جب کسی انسان کیلئے لفظ ’’عبد‘‘ بولا جائے تو حقیقت کے اعتبار سے وہی فرد کامل مراد ہوگا جس میں عبدیت کاملہ مع اپنے لازمہ و خاصہ کے موجود ہو۔ اور یہ عبد ہونا اور اس کیلئے لفظ عبد کا بولا جانا ساری تعریفوں سے بڑھ کر تعریف ہوگی۔ جس سے یہ بات واضح ہے کہ انسان میں دوسری کوئی بھی بات خواہ کچھ بھی ہو اور کیسی بھی ہو تعریف کے قابل ہوسکتی ہے اور وہ اس کے حق میں خوبی اور اچھائی ہی ہوگی لیکن ’’عبد‘‘ ہونے کے مقابلہ میں کسی بات کو فوقیت و برتری حاصل نہ ہوگی۔
اسی تمہید و تفصیل کے بعد یہ سمجھنا آسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے قرآن پاک میں لفظ ’عبد‘ بولا ہے۔ فرمایا گیا: سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً (پاک ہے وہ ذات جو راتوں لے چلی اپنے بندے کو)۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ تمام اوصافِ انسانی میں عبدیت سب سے اعلیٰ وصف ہے، اس لئے تاریخ انسانی کے اس عظیم ترین واقعہ اور زبردست معجزے کے تذکرے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی وصف خاص یعنی عبدیت کے ساتھ ذکر فرمایا گیا جو تمام اوصافِ بشری و پیغمبری میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
اور چونکہ انسان بحیثیت مجموعی ساری کائنات سے افضل و برتر ہے اور ہر چیز اسی کیلئے مسخر ہے، تو انسانوں میں بھی جو فرد کامل ہوگا، اس کی بلا استثناد و بلا تاویل کائنات کی ہر جنس و نوع اور ہر صنف کے آحاد و افراد تک سے فضیلت مسلم ہوگی، اسی لئے آنحضرتؐ کیلئے یہ مضمون برحق ہے: لَوْلَاکَ لما خَلَقْتُ الافْلَاک (اے پیغمبر! اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات پیدا نہ کی جاتی)۔
اسی طرح یہ بھی برحق ہے کہ روضۂ مطہرہ کے جس حصۂ زمین سے آپ کا جسد اطہر مس کئے ہوئے ہے وہ عرش کرسی تک سے افضل ہے، یہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے بھی لفظ ’عبد‘قرآن پاک میں بولا گیا، مگر ایک تو صرف اس وجہ سے کہ بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے ان کی امت میں غلط نظریہ عام ہوگیا کہ آپ خدا کے بیٹے تھے، اس لئے ان کے واسطے بھی لفظ ’عبد‘ لایا گیا تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ جب وہ عبد ہیں تو معبود کے بیٹے کیسے ہوئے۔ اگر ایسا ہوتا تو معبودیت کی کچھ تو شان ہوتی۔
مگر پھر بھی اس نکتہ کی طرف سے ذہن غافل نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے لفظ عبد لایا گیا تو ان کے قول کی حکایت کے طور پر لایا گیا۔ ارشاد ہے:
قال انی عبداللہ (حضرت عیسیٰ نے کہاکہ میں اللہ کا بندہ ہوں)۔
لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اللہ تعالیٰ نے خود ’عبد‘ فرمایا اور وہ بھی اپنے لئے ضمیر لاکر اس کی طرف عبد کی اضافت فرما دی جس سے مزید قرب و خصوصیت اور اپنائیت نمایاں ہوتی ہے۔ اس کی لذت کو وہی شخص جانتا ہے جو عربیت سے واقف ہے۔
* جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ عبد کامل کیلئے علم و معرفت کاملہ لازم ہے، اس لئے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبدیت میں بے مثال ہیں۔ اسی طرح علم حقیقی اور معرفت رب میں آپ کا کوئی نظیر نہیں ہے، اسی لئے آپ کو قرآن پاک دیا گیا جو کلام ربانی ہونے کی حیثیت سے علمی معجزہ ہے اور یہ واضح ہے کہ جس طرح عملی معجزے کے معنی یہ ہیں کہ ایسا عمل ہو جس کے کرنے سے دوسرے عاجز ہوں، اسی طرح علمی معجزے کے معنی یہ ہیں کہ ایسے علوم و معارف کا اظہار ہو جس کے اظہار سے دوسرے عاجز ہوں۔ اسی لئے خود آپؐ نے اپنے لئے ارشاد فرمایا: ’’میں اولین و آخرین کا علم دیا گیا ہوں‘‘۔
اور جب یہ سب کچھ ہے تو آپ ہی کی نبوت کی ہے اس کے حقدار تھے کہ خاتم النّبیین بنائے جائیں اور وہ بھی اس طرح کہ وجودِ نبوت کے اعتبار سے سب پیغمبروں سے مقدم لیکن ظہور کے اعتبار سے سب سے موخر، اس لئے کہ نورِ نبوت کا تمام سلسلہ آپ ہی پر جاکر مختتم ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ روشنی خواہ ستاروں کی ہو یا چاند کی یہ سب بواسطۂ سورج ان کو عطا ہوتی ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ سورج کی روشنی مقدم ہے انجم و قمر کی روشنی ہے، لیکن رات جو دن سے پہلے آتی ہے اس میں ظہور پہلے چاند ستاروں کی روشنی کا ہوتا ہے اور اس کے بعد سورج ظاہر ہوتا ہے۔ اور پھر اسی وقت سب کی روشنیاں غیر موثر ہوجاتی ہیں۔
یہی مثال آپؐ کی نبوت کی ہے اور اس لئے آپؐ مرتبہ کے اعتبار سے بھی خاتم النّبیین ہیں کہ سارے پیغمبروں کی نبوت آپؐ ہی کا فیض ہے اور آپؐ زماناً بھی خاتم النّبیین ہیں کہ سب سے آخر میں آپؐ کا ظہور ہوا۔ اور آپؐ کے بعد کسی نبی کی بعثت نہ ہوگی۔ قرآن پاک میں آپؐ کو خاتم النّبیین اس معنی میں فرمایا گیا ہے: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن۔
* قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا: ’’اے پیغمبر! ہم نے آپ کو بھیجا ہے شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر‘‘۔
اس آیت میں آپؐ کے ایک ایسے منصب کی خبر دی گئی ہے جس میں آپؐ اولین و آخرین میں ممتاز ہوں گے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یوم آخرت کی عدالت عالیہ میں جب نوعِ انسانی اپنی زندگی کا حساب و کتاب دے گی تو انبیاء علیہم السلام ان قوموں کے بارے میں دعویدار ہوں گے جن کی طرف مبعوث کئے گئے کہ ہم نے تبلیغ دین کی لیکن انھوں نے جھٹلایا اور تمام ہی پیغمبر اپنی گواہی میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی پیش کریں گے اور آپؐ جو شہادت دیں گے اسی کے مطابق ساری امتوں کیلئے فیصلہ ہوجائے گا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر پیغمبر سے ثبوت مطلوب ہوگا لیکن آپؐ ایسے مقام پر ہوں گے کہ آپؐ سے ثبوت کا مطالبہ نہ ہوگا۔ اسی کو دوسری جگہ اس طرح فرمایا گیا:
’’پھر کیسے ہوگا جب ہم لائیں گے ہر امت کا شہید اور آپؐ کو ان سب پر شہید بناکر لائیں گے‘‘(نساء)۔
* اور یہی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات و مناقب ہیں جن کا لحاظ بارگاہِ خداوندی سے اس طرح کیا گیا کہ قرآن پاک میں ہر پیغمبر کو اس کے نام کے ساتھ خطاب کیا گیا، مثلاً یا اٰدم، یا ابراہیم، یا موسیٰ ، یا داؤد۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی جگہ نام لے کر مخاطب نہیں فرمایا گیا بلکہ یا ایہا النبی اور یا ایہا الرسول کے الفاظ سے خطاب کیا۔ حسب تصریح علماء اس سے عظمت کا اظہار مقصود ہے۔
ہاں قرآن پاک میں چار جگہ آپؐ کا نام نامی ضرور آیا ہے مگر وہ خطاب کے طور پر نہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ نام لانے ہی سے مقصد پورا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر بات پوری نہیں ہوتی، وہ چار جگہیں یہ ہیں:
1) ’’اور محمدؐ صرف ایک پیغمبر ہیں، آپ سے پہلے اور بھی پیغمبر گزر چکے ہیں(اس لئے آپ بھی ہمیشہ دنیا میں نہ رہیں گے)‘‘(آل عمران)۔
2) ’’نہیں ہیں محمد باپ تمہارے مردوں میں سے کسی کے، اور لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں‘‘(الاحزاب)۔
3) جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے اور ایمان لائے اس پر جو محمد پر نازل کیا گیا اور وہی حق بھی ہیں ان کے رب کی طرف سے‘‘(محمد)۔
4) ’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں نہایت سخت ہیں کفار پر اور بہت مہربان ہیں آپس میں‘‘ (فتح)۔

تبصرے بند ہیں۔