آزاد خیال طبقہ کی مسلم نوازی کی حقیقت

نہال صغیر
اس وقت دنیا ہی نہیں ہندوستان میں بھی مسلمان ہر چہار جانب سے اپنے دین و ایمان اور جان و مال پر حملہ کا شکار ہیں ۔ایسا ہی ایک حملہ آج کل اسلامی شعائر اور تہذیب و ثقافت پر ان لوگوں کی جانب سے کیا جارہا ہے جو ماضی قریب میں فساد زدہ مسلمانوں کی زبانی اشک سوئی کے بہانے ان کی ہمدردی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ایسے میں دو نام میرے ذہن میں آرہے ہیں اس میں ایک ہیں جاوید آنند جو ٹیستا سیتلواد کے شوہر ہیں ۔یہ صاحب ایک انگریزی جریدہ کمیونل کمبیٹ نکالتے ہیں ۔دوسرا ایک نام ہے فیروز میٹھی بور والا کا ،یہ جناب بھارت بچاؤ آندولن کے بینر تلے مسلم سماجی کارکنان اور مذہبی شخصیات کو ساتھ لیکر چمکے اور اب یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہی آواز اٹھارہے ہیں ۔انہیں ہندوستان کی اس افرا تفری والے ماحول میں سب سے زیادہ مسلم خواتین ہی مظلوم نظر آتی ہیں ۔جب حاجی علی میں خواتین کے داخلہ کی تحریک کو ترپتی دیسائی مہمیز دینے مصروف تھی جس کے پیچھے کچھ اور قوتیں تھیں ان میں فیروز میٹھی بور والا کا نام بھی شامل تھا ۔اسی وقت فیروز نے آزاد میدان کے باہر کیفیٹیریا علاقے میں مجھ سے کہا تھا کہ حاجی علی کے بعد مساجد میں خواتین کے داخلہ کی تحریک چلانی ہے ۔میں نے اسی وقت انتباہ دیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور عوام کے اور بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کیا جانا ضروری ہے ۔مساجد میں خواتین کا داخلہ یا حاجی علی میں یہ خواتین کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک تہذیبی اور مذہبی معاملہ ہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں میں خواتین کے تئیں وہ احساسات نہیں پائے جاتے جو دوسری قوموں یا مذاہب میں رائج ہیں ۔اسلام نے سبھی کے ساتھ انصاف کرنے کی بات کی ہے ۔اس کا اثر نظر بھی آتا ہے ۔لیکن ایسے نام نہاد سماجی خدمت گار کے پاس لگتا ہے کہ یا تو کوئی کام نہیں ہے یا پھر انہیں اسلام مخالف اور مسلم دشمن قوتوں نے اپنے ایجنٹ کے طور پر مقرر کیا ہے ۔اس سے قبل بھی جب پورا میڈیا ذاکر نائک کے خلاف مہم چلا رہا تھا تب بھی یہ لوگ بی جے پی اور سنگھ کے ایجنٹ بن کر ذاکر نائک کے خلاف پریس کانفرنس میں ان پر الزامات طے کررہے تھے ۔
انڈین مسلم فار ڈیموکریسی تنظیم کے نام سے یہ لگتا ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کی کوئی مثبت شبیہ پیش کرنے میں منہمک ہیں ۔لیکن ان کی حرکتیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ یہ لوگ چند مفروضوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنا اور اسلام کی اپنی نظریہ کے تحت تشریح کرکے اسے مسخ کرنے کی کوشش کرنے میں مگن ہیں ۔انہی مفروضوں میں ایک ہے تین طلاق کا مسئلہ ۔تین طلاق کے مسئلے کو اس طرح یہ لوگ اٹھاتے ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس اور کوئی دوسرا کام نہیں ہے ۔وہ صرف چار چار نکاح کرنے اور تین بار طلاق بول کر عورتوں کا استحصال کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے ۔ان جاہلوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ احمقو! پہلے رپورٹ دیکھو کہ کس قوم یا مذاہب یا تہذیب کے علمبرداروں میں طلاق اور اس کے بغیر ہی علیحدگی کے سبب خواتین ہی نہیں مرد کی زندگی بھی جہنم بن جاتی ہے ۔لیکن مرد آزاد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی جنسی آسودگی با ہر نکل کر پوری کرتے ہیں جبکہ عورتیں اتنی آزاد نہیں ہوتیں اس لئے انہیں یہ مواقع حاصل نہیں ہوتے یا بہت ہی کم ہے۔خود حکومت ہند کی سروے رپورٹ کے مطابق ہندوؤں میں بغیر طلاق کے علیحدگی کی شرح مسلمانوں کے مقابلے کئی گنا ہے ۔یعنی دونوں کی زندگی میں الجھن پریشانی کے سوا کچھ نہیں ۔اس کے برعکس مسلمانوں میں اسلامی قانون کے مطابق طلاق حلال لیکن ناپسندیدہ عمل کو اس لئے منظوری دی گئی ہے کہ زوجین میں جب کسی طور مصالحت کی کوئی صورت نہ ہو تو اپنی زندگی کو جہنم بنانے اور جلا کر یا کسی سازش کے تحت ایک دوسرے کا قتل کرنے کے بجائے قانونی طور پر علیحدہ ہو جائیں اور دونوں اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کریں ۔
جاوید آنند اور ان کے ساتھیوں کو ایک خلش یہ بھی ہے کہ مسلمان اسلامی حکومت کی وکالت کرتے ہیں لیکن وہ سعودی عربیہ میں مندر یا گرودوارہ کے خلاف ہیں ۔انہیں آج تک یہ بات معلوم نہیں یا انہوں نے معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اگر مسلمان اسلامی حکومت کی وکالت کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے ؟شاید ان کے ذہن میں یہ بات محفوظ نہیں کہ ہندوستان میں زنا بالجبر ،چوری ڈکیتی اور بد عنوانی سے پریشان حال لوگ اور لیڈران جس میں سخت گیر ہندو تنظیمیں بھی شامل ہیں وہ ایسے حالات میں مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے لئے اسلامی قانون نافذ کیا جائے ۔آخر ایسا کیوں ہے ؟ انہیں ان لوگوں سے ضرور پوچھنا چاہئے جو مسلمان نہیں ہیں اور وہ اسلامی قوانین کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ رائج قانون اور نظام ان جرائم کو قابو میں کرنے اور معاشرے میں امن و سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام ہے یہی سبب ہے کہ جو مسلمان نہیں ہیں انہیں بھی سعودی عرب جہاں اسلامی تعزیری قوانین نافذ ہیں اور جہاں جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے ۔اسی میں عوام کو نجات نظر آتی ہے ۔کچھ ماہ قبل سعودی عرب سے دو ایسی خبریں آئی تھیں جس نے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا ۔یہ دونوں خبریں سعودی شاہی خاندان کے دو افراد کو سزا ملی ایک کو سزائے موت دوسرے کو چند کوڑے مارنے کی سزا ۔ایسا موجودہ دنیا میں نظر نہیں آتا جب خاص طبقہ یا اشرافیہ کو بھی قانون کے تحت یکساں تعزیر سے گذرنا پڑا ہو ۔ہم اسی لئے اسلامی قانون کی وکالت کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہمیں کہتا ہے قرآن کبھی پڑھو تو جانو گے کہ وہ ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ’’اور جب تم بات کہو تو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو ‘‘(الانعام 152 )دوسری جگہ قرآن کہتا ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین پر یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ،اللہ تم سے زیادہ ان کاخیر خواہ ہے ۔لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ‘‘(النساء 135 )یہ دو آیات قرآنی جس میں ہمیں حق و انصاف کا علمبردار بن کر رہنے کی تلقین کی گئی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ہم اسلامی حکومت کیوں چاہتے ہیں ۔کیا دوسرا طریق حکومت بھی ہے جس میں ایسا کوئی احکام ہے ۔کہا جائے گا کہ جمہوریت !لیکن جمہوری حکومت میں ہی ہم پچھلے ستر برسوں سے ہیں ۔ہر طرف ظلم جبر اور بے چینی کا دور دورہ ہے ۔عدلیہ کا یہ حال ہے کہ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں ۔معمولی معمولی مقدمات میں دس بیس سال تک صرف تاریخ ہی ملتی رہتی ۔کیا سعودی عرب میں بھی ایسا ہے کیا جہاں برسوں اسی طرح انصاف کے انتظار میں عوام دھکہ کھارہے ہوں ؟کیا وہاں اور یہاں کی جیلوں کا بھی کوئی تقابل ہے ۔نام ہے جمہوریت کا اور بدترین آمریت سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہے ۔عوام کراہ رہے ہیں لیکن ہمیں جمہوریت کی نیلم پری کا افیم کھلا کر بے ہوش رکھا جاتا ہے کہ دیکھو یہاں کتنی آزادی ہے ۔کچھ بھی بول سکتے ہو ۔صرف بول سکتے ہو لیکن ابھی کے نوٹ بندی میں یہ بات سامنے آئی کہ ہم اپنے پیسے اپنی ضرورت کے مطابق نہیں نکال سکتے ۔ہم نے فیروز میٹھی بور والا کو فیس بک کے ذریعہ اسلامی حکومت میں ذمیوں کے حقوق پر مبنی کئی کتابیں بھیجی تھیں لیکن انہیں پڑھنے کی ہی فرصت کیوں ملے گی یہ لوگ کارل مارکس اور فرائیڈ کو پڑھیں گے لیکن نہ تو قرآن کو پورا پڑھنے کی کوشش کریں گے اور نہ ہی اسلامی قوانین کو کہ اس میں کیا بھلائیاں ہیں ۔یہ آر ایس ایس کے گرگے ہیں جس طرح انہیں بیس آیات پر اعتراض ہے اسی طرح اسے بھی اعتراض ہے ۔ان کا کارل مارکس اور اس کے نظریہ کا پجاری روس کتنا ظالم ہے اس کا ثبوت حلب اور الیپو میں نظر آگیا اور اگر آج سے سو سال پیچھے جائیں گے تو مرکزی ایشیا کی مسلم جمہوریاؤں کے ساتھ روس نے جو کیا اور وہاں جو قتل و غارتگری مچائی وہ بھی نظر آجائے گا ۔مسلم امہ کیلئے روس ایک ناسور ہے ۔یہ کچھ پڑھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تو بات کچھ سمجھ میں آتی لیکن کسی نے خوب کہا ہے اور ایسے ہی افراد کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ لوگ عورتوں کی آزادی کے نام پر عورتوں تک پہنچنے کا راستہ تلاشتے ہیں ‘‘۔ان بدکاروں کے سامنے اور کیا ہے ۔لیکن میری سمجھ میں ایک بات اور آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ بدکار اور ایک ایسے ماحول کے پروردہ ہیں جہاں امن چین سکون سب عنقا ہیں ۔ان کی خواتین باغی اور گمراہ ہیں اور اس سبب ان کا معاشرہ دسیوں طرح کی خرابیوں اور افرا تفری کا شکار ہے لہٰذا انہوں نے سوچا کہ مسلم معاشرہ سکون سے کیوں رہے ۔یہی ان کی خلش کی اصل وجہ ہے کہ ہم تو ننگے ہیں تم بھی ننگے رہو تم کیوں با لباس ہو کر مہذب نظر آتے ہو ؟
اسلام کے چند بزرگوں کا نام تو یہ لوگ صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لئے لیتے ہیں ۔حالیہ پریس کانفرنس میں ان لوگوں نے خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور نظام الدین اولیاءؒ کا نام لے کر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔انہیں پتہ نہیں کہ اسلام کی تعلیمات سے یہ اولیاء اللہ ہمارے لئے محترم ہیں نہ کہ ان بزرگوں نے ہمیں کوئی نیا اسلام عطا کیا ۔انہوں نے بھی اسی اسلام کی تبلیغ کی جو عرب سے آیا تھا ۔یہ نام تو یہ لوگ صرف بھرم پھیلانے کے لئے لیتے ہیں کہ ان کی خباثت پردے میں رہے ۔ان دہریوں کو جنہیں اسلام کے الف کا بھی پتہ نہیں وہ ہمیں قرآنی احکام سمجھانے آئے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے ان کے باطل نظریہ کا تیا پانچا کردیا ہے ۔اب یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو بھی کمیونزم کی طرح بنادیں ۔مسلمان اپنے عائلی قوانین ،اسلام میں دیئے گئے عورتوں کے حقوق اور دیگر قوانین سے پوری طرح مطمئن ہیں ۔محض چند ایک گمراہ یا کسی طور کہیں ستائی گئی خواتین کی وجہ سے اسلام کے اصولوں کو نہیں بدلا جاسکتا ۔جو کام ہمارے یہاں چند تاریخوں میں ہو جاتا ہے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلم زوجین بھی برسوں عدلیہ کے چکر کاٹیں اور اپنی زندگی کو جہنم بنائیں ۔آخر ہم کتنی بار بتائیں کہ مروجہ عدالتی نظام میں طلاق کا مقدمہ بھی تیس تیس سال تک چلتا ہے ۔زیادہ جانکاری کسی کو چاہئے تو فیملی کورٹ میں جا کر حالات دیکھ لے۔ہم تو اسی اسلامی قانون میں خوش ہیں تم کو پسند ہو کہ نا ہو۔جس کو اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی چاہئے تو اس کو اسلام میں یا مسلمانوں کے درمیان مسلم شناخت کی حیثیت سے رہنے کو مجبور کس نے کیا ہے ۔اسے جس قوم کی صحبت پسند ہے وہ وہاں چلا جائے ۔اسی قوم کا حصہ بن کر رہے ۔ہم نے اس سے تھوڑی نا کہا ہے کہ وہ یہیں ہمارے ساتھ رہے ۔ہمیں تو ویسے بھی حکم ہے کہ دین میں زبردستی نہیں۔
آخر میں مسلم قائدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریکوں میں دوسروں کی شمولیت میں احتیاط برتیں ۔خاص طور سے مسلم نام والے دہریے یا کمیونسٹوں سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔یہ لوگ دو دھاری تلوار ہیں۔یہ آپ کے ساتھ مل کر اپنی شناخت بناتے ہیں اور پھر آپ کے ہی دین اور عقیدہ پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔فیروز میٹھی بور والا کے ساتھ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اس شخص نے مسلم تنظیموں اور شخصیات کے ساتھ مل کر اپنی پہچان بنائی ۔شروع شروع میں مقامی مسائل پر مسلم قائدین کے ساتھ آیا اور اس کے بعد شہرت کی بلندی پر جانے کا سب سے آسان فارمولہ مسئلہ فلسطین کو ہائی جیک کیا ۔اس نے یہاں دو روزہ کانفرنس بھی منعقد کی۔ اس کے کانفرنس میں محمود عباس کے خیمہ کے لوگ تو نظر آئے لیکن اس میں حماس کے لوگ کہیں نہیں دیکھے گئے جو کہ فلسطین کی تحریک کی بنیاد ہیں جس کے سبب انتخاب میں عوام نے انہیں اکثریت دی تھی ۔لیکن جس طرح الجزائر میں اسلامی تحریک کو انتخاب میں جیت درج کروانے پر اسے نا منظور کردیا ۔اسی طرح حماس کو بھی بڑی قوتوں نے نا منظور کردیا ۔انہی قوتوں کے ساتھ فیروز میٹھی بور والا بھی نظر آیا ۔یعنی یہاں آر ایس ایس کے ساتھ اور بین الاقوامی طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ۔بظاہر تو یہ لوگ اندرون ملک آر ایس ایس اور بیرون ملک امریکی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں لیکن عملاًحمایت ہی ان کا وطیرہ ہے۔ مسلمان اپنی تحریکوں میں غیر مسلم پسماندہ طبقات کے قائدین کو ساتھ لیں یہ لوگ مفید بھی ہوں گے اور ساتھ بھی نبھا ئیں گے ان کے ساتھ سے آپ کی تحریک اثر پذیر بھی ہوگی ۔دوسرے یہ کبھی اسلامی عقائد پر حملہ آور نہیں ہوتے بلکہ اس کا احترام کرتے ہیں ۔اس کا شاہد میں خود بھی ہوں ۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔