پیغمبرؐ اِنسانیت خدا کی نظر میں

تحریر: قاری محمد عبداللہ سلیم ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
خدا کے مقبول بندوں میں ایک شانِ محبوبیت ہوتی ہے، خواہ وہ پیغمبر ہوں یا اولیاء اللہ؛ البتہ اولیاء اللہ میں یہ شان صدقہ ہوتی ہے پیغمبروں کے ساتھ قربت و نسبت کا۔ اور دنیا میں یہ محبوبیت پر تو ہوتی ہے خداوند تعالیٰ کے نزدیک ان کے محبوب و برگزیدہ ہونے کا، جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’جب خداوند تعالیٰ کسی بندے کو اپنا مقبول بناتے ہیں تو ملاء اعلیٰ کے قلوب میں اسی بندے کی محبت اِلقا فرمادیتے ہیں اور پھر وہ آسمانوں میں بسنے والوں کے دلوں میں الہامِ محبت کرتے ہیں اور وہاں سے پھر زمین والوں کے دماغوں میں اسی کی محبت اتار دی جاتی ہے‘‘۔
ہر پیغمبر بہ نفس نفیس اسی محبوبیت کا حامل ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
’’اور میں نے ڈال دی تجھ پر محبت اپنی طرف سے اور تاکہ تیری پرورش میری نگرانی میں ہو اور بنایا میں نے تجھ کو خاص اپنے واسطے‘‘ (سورہ طٰہٰ) ۔
اسی محبوبیتِ موسوی کا یہ کرشمہ تھا کہ جس کو نیست و نابود کر دینے کی خاطر ہزاروں اور لاکھوں اسرائیلی بچے فرعونی ظلم و ستم کا شکار ہوکر بے گناہ مارے جارہے تھے۔ اس کو ہی جب فرعونی گھرانہ نے تابوت میں دیکھا تو دل محبت سے تڑپ گئے اور بے اختیار ہو ہو کر اس کی پرورش و پرداخت کا بندوبست کرنے لگے اور آخر کار بلیوں سے ہی دودھ کی رکھوالی کرائی گئی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمام پیغمبروں میں منفرد خصوصیت جس سے ان کی محبوبیت عظیمہ کا بھی پتا چلتا ہے، قرآن کریم نے یہ بتلائی:
’’بلا شبہ مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے اللہ کے رسول اور اسی کا کلمہ ہیں کہ جس کا القاء مریم کی طرف اللہ نے کیا اور روح ہے اس کی طرف سے‘‘ (سورہ نساء)۔
بلا شبہ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبرؑ کی یہ اتنی بڑی خصوصیت ہے کہ جس نے ان کو سارے پیغمبروں سے منفرد و ممتاز کر دیا اور اسی لئے نا تربیت یا فتہ دماغوں نے ٹھوکر کھائی اور ان کو خدا کا بیٹا تصور کرلیا اور یہ سمجھا کہ روح کی نسبت خدا نے اپنی طرف کی ہے اس لئے جزئیت ثابت ہوگئی۔اس لئے حضرت مسیح خدائی میں بھی شریک ہوئے (نعوذ باللہ) منہ؛ حالانکہ لفظ ’’منہ‘‘ سے جزئیت ہر گز ثابت نہیں ہوتی، ورنہ بقول ایک بزرگ کے آیت قرآنی وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّافِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہ میں بھی آسمانوں اور زمینوں کے درمیان ہر چیز کیلئے جزئیت خداوندی ماننی ہوگی اور ظاہر ہے کہ نہ اس کو مانتا ہے اور نہ مان سکتا ہے، ۔۔۔ معلوم نہیں ’’رُوْحُ اللّٰہ‘‘ یا ’’رُوْحٌ مِّنَ اللّٰہ‘‘ میں خدا کے ساتھ نسبت کی حقیقت صرف یہ کیوں نہ سمجھی گئی، جیسے ’بیت اللہ‘ اور ’کتاب اللہ‘ میں ہے۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے ’’کلمتہ‘‘ فرمانا بقول امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کی پیدائش صرف خدا وند تعالیٰ کے ارشاد ’’کن‘‘ سے ہوئی جبکہ تمام انسانوں کی پیدائش میں اس کلمہ کے علاوہ نطفہ کی بھی کار فرمائی ہوتی ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں قرآن پاک میں یہ فرمایا گیا: ’’اور ہم نے اس (داؤدؑ ) کو لباس (زِرہ) کی صنعت کی تمہارے لئے تعلیم دی تاکہ جنگ میں وہ لباس تمہاری حفاظت کرسکے‘‘۔
اس آیت میں حضرت داؤد علیہ السلام کو زرہ سازی کی صنعت سکھانے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا؛ یعنی براہِ راست ہم نے یہ صنعت سکھلائی۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ فن زرہ سازی میں اللہ تعالیٰ معلم ہوئے حضرت داؤد علیہ السلام کے۔ ظاہر ہے کہ یہ حضرت داؤد علیہ السلام کی بڑی زبردست خصوصیت ہے، جس سے آپؑ کی عظیم الشان محبوبیت بھی نمایاں ہوتی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک دعا کا قرآن پاک میں تذکرہ ہے: رَبِّ ہَبْ لِیْ مَلَکاً لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ’’پروردگار! مجھ کو ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو بھی میسر نہ ہو‘‘ ۔
اور پھر اس دعا کی قبولیت کی خبر بایں طور دی گئی کہ ہم نے سلیمانؑ کیلئے ہوائیں اور جنات مسخر کر دیئے۔ بلا شبہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبردست مقبولیت و محبوبیت کی علامت ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کیلئے قرآن حکیم میں صراحۃً موجود ہے کہ ان کی تخلیق ہم نے اپنے ہاتھوں سے کی ، اور یہ بات ان کی خصوصی عظمت و محبوبیت کی بیّن دلیل ہے۔
لیکن ان برگزیدہ ہستیوں کی محبوبیت کے ان آثار و شواہد کے بعد اب یہ ارشاد خداوندی ملاحظہ ہو:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ ’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔
یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی شانِ محبوبیت کی خبر دی گئی ہے کہ جس سے بڑی شانِ محبوبیت دوسری نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ وہ شان ہے جس کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بجا طور پر ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بھی فرمایا گیا اور ’’محبوب رب العالمین‘‘ بھی باور کیا گیا۔
اگر کسی جگہ یوں فرما دیا جاتا کہ اے پیغمبر! آپ ہمارے محبوب ہیں، تو اس میں وہ بات اور وہ خوبی نہیں ہوسکتی تھی جو اس آیت میں ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ تو محبوب خدا ہیں ہی، ہم تو آپ کے صدقہ میں آپ کے ہر پیروکار کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں۔ بھلا دیکھئے تو آپؐ کی شان محبوبیت کہ آپ کے طفیل سیکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ اربوں کھربوں اور وہ بھی قیامت تک آنے والے اِطاعت شعار اُمتی محبوبِ خدا بن گئے ۔۔۔ کتنی بڑی شان ہے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا کے نزدیک۔
* قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کیلئے ارشاد ہے: وَرَفَعْنَاہُ مَکَاناً علِیًّا ’’اور ہم نے اس کو بلند جگہ پر اٹھالیا‘‘۔
یہاں خواہ مرتبہ کی رفعت مراد ہو کہ نبوت و پیغمبری کی راہ سے بلند رتبہ عطا ہوا یا اسرائیلی روایات کے مطابق رفع آسمانی مقصود ہو۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے ارشاد فرمایا گیا: ’’اے عیسیٰ! تم کو (وقت مقررہ پر ہی) وفات دینے والا ہوں اور (اسی وجہ سے دشمنوں سے حفاظت کی یہ صورت ہوگی کہ) اپنی طرف تم کو اٹھانے والا ہوں اور تم کو پاک کرنے والا ہوں کافروں (کی تہمت) سے‘‘ (آل عمران) ۔
اس آیت میں دو باتوں کا تذکرہ ہے۔ ایک رفع آسمانی اور دوسرے کافروں کی تہمتوں سے پاک رکھنا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں نہایت ہی بلندیِ رتبہ کی دلیل ہیں؛ لیکن ایک رفعت مکانی اور رفعت آسمانی ان دو جلیل القدر پیغمبروں کی ہے اور ایک رفعت ذکری سید الانبیاءؐ کی ہے جس کی نہ کوئی نظیر ہے نہ مثال۔ فرمایا گیا: وََرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ’’اور ہم نے بلند کر دیا تیری خاطر تیرا ذکر‘‘۔
اور یہ اس طرح ہوا کہ ہر اہم موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کو شامل فرمادیا؛ چنانچہ جس کلمہ کے بغیر کوئی شخص دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا اس میں بھی اللہ کے نام کے ساتھ پیغمبر کا نام ہے: ’’لا اِلٰہ اِلااللہ محمد رسول اللہ‘‘۔ اگر آپؐ کا نام نہیں لیا جائے گا تو کلمہ ہی پورا نہ ہوگا اور اس کلمہ کے دوسرے جزو کو چھوڑ کر محض پہلے کلمہ پر اعتقاداً قناعت کرلینے والا اس کو کتنی بار بھی رٹتا رہے وہ کسی بھی طرح نہ رحمت کا مستحق ہوگا اور نہ مغفرت کا۔ اسی طرح مسجدوں میں پانچ وقت اذان و اقامت کہی جاتی ہے، ساری دنیا ان کو سنتی ہے اور روزِ قیامت زمین و فضا کی ہر چیز اس اذانِ پنجگانہ کی موذن کے حق میں شہادت دے گی(اور یہی وجہ ہے کہ از روئے حدیث اذان کے وقت شیطان بھاگتا ہے کیونکہ وہ ایسے کام میں خود کو انسان کا گواہ بنانے کیلئے تیار نہیں جس میں اس کا زبردست اخروی فائدہ ہوتا ہو) تو اسی اذان میں جہاں ’اَشْہُدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘ ہے وہیں ’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ‘بھی ہے۔ ایسے ہی نماز جو اسلام میں سب سے اہم عبادت ہے اور ثبوت ہے، اس میں بھی بوقت ’التحیات‘(تشہد) اللہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جاتا ہے اور اس کے بعد ’درود شریف‘ بھی پڑھی جاتی ہے۔
مسلمان اپنی ہر ضرورت کیلئے اپنے خدا سے دعائیں کرنے کا پابند ہے؛ لیکن دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ تعلیماتِ اسلامی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اوّل و آخر درود شریف پڑھی جائے۔
جبکہ درود شریف کی بھی یہ زبردست خصوصیت ہے کہ قرآن پاک میں اسی کی ہدایت کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبرؐ پر، اے ایمان والو! تم بھی درود و سلام بھیجو آپؐ پر‘‘۔
معلوم ہوا کہ جس کام کو خود اللہ اور اس کے مقرب فرشتے کر رہے ہیں اسی کام کے کرنے کی ہدایت مومن بندوں کو دے کر گویا اپنے کام میں شریک کرنے کی زبردست سعادت بخش دی اور یہ صدقہ ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، اس سے بھی آپؐ کے رتبۂ بلند کا پتا چلتا ہے۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کیلئے الفاظ یہ ہیں: وَ رَافِعُکَ اِلَیّ ’’ہم اٹھانے والے ہیں تم کو اپنی طرف‘‘۔
اس سے اتنا تو معلوم ہوا کہ خدا نے اپنے پاس اٹھا لینے کی خبر دی ہے جو بلا شبہ عظمت عیسوی کی کھلی دلیل ہے؛ لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ کتنا قرب و نزدیکی سے نوازا جائے گا، لیکن سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بسلسلۂ معراج جو فرمایا گیا اس کے انداز پر بھی غور کیا جائے۔
’’اسی کو سکھلایا ہے سخت قوتوں والے نے، زور آور نے، پھر سیدھا بیٹھا اور وہ تھا اونچے کنارے پر آسمان کے، پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمان کے برابر یا اس سے بھی نزدیک، پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا‘‘ (سورہ نجم)۔
ان آیاتِ معراج سے وابستہ قرار دینے والی تفسیروں کے مطابق انتہائی رفعت اور بے انتہا قرب کی تصریح کے ساتھ محبانہ جملہ ارشاد فرمایا گیا: فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی۔ پس اللہ دے اور بندہ لے کا مضمون تھا۔ بھلا کیا موازنہ ہے اس رفعت و قرب کا کسی اور قرب و رفعت سے۔
* محب صادق مولائے کائنات نے محبوب صادق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف بایں الفاظ فرمائی ہے:
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٌ ’’بلا شبہ آپ اخلاق کے بلند معیار پر ہیں‘‘(سورۃ القلم)۔
یہ بات سوائے آپؐ کے کسی بندہ بشر کیلئے نہیں فرمائی گئی، اس لئے ا س میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اخلاقی اعتبار سے آپؐ خدا کے نزدیک نہایت بلند رتبہ ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ آپؐ نے اپنے بارے میں خود فرمایا: ’’میں اس لئے بھیجا گیا تاکہ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘۔
جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ محض اتفاقی طور پر ہی با اخلاق نہیں تھے بلکہ اصولِ اخلاق کی وضع و تکمیل کیلئے آپؐ کی ذات گرامی ہی معیار بنی۔ اور چونکہ از روئے حدیث آپؐ کی عادات قرآنی ہدایات کے عین مَین مطابق تھیں۔ اس لئے آج قرآن پاک ہی آئینہ ہے اخلاقِ محمدیؐ کا۔۔۔ لیکن اس ربانی شہادت کے باوجود کچھ لوگ آپؐ کے قرآنی اخلاق کو بلند رتبہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اور یہ لوگ مسیحی ہونے کے مدعی ہیں، اسی لئے مقابلہ میں انجیل کی یہ اخلاقی تعلیم پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی ایک رخسار پر طمانچہ مارے تو دوسرا رخسار پیش کر دیا جائے۔ اب چونکہ انجیل خدا کے نزدیک منسوخ ہے، اس لئے ہم بھی اس مقابلہ کا جواب دیتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ انجیل کی اس اخلاقی ہدایت کا کیا اس قرآنی ہدایت سے مقابلہ ہوسکتا ہے، فرمایا گیا:
’’برائی کا بدلہ اسی کے برابر برائی سے ہے، لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ پر ہے‘‘۔
ظالم اور جفا کار کو نادم و شرمندہ کرنے کیلئے یقیناًایک اخلاقی بات ہے لیکن ظلم و زیادتی کو معاف کرتے ہوئے پھر اس خطا کار کی اصلاح و تربیت کی طرف متوجہ ہونا، یہ کتنا بڑا اخلاقی کارنامہ ہے۔ اس سے تو کوئی بھی چشم پوشی نہیں کرسکتا، ہاں انصاف جو برابری کے حقوق کی پاسداری کا ضامن ہوتا ہے اس کے پیش نظر مساوی درجہ میں بدلہ لینے کی قانونی اجازت بھی دے دی گئی، مگر تعریف و مدح عفو و اصلاح کی ہی فرمائی گئی، جو ظاہر ہے قانون نہیں ہوسکتا بلکہ درجۂ فضیلت ہی قرار پاسکتا ہے۔ سو ایسا ہی کیا گیا، لیکن انجیل کی ہدایت کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ قانون ہے یا درجۂ فضیلت۔ اگر قانون ہے تو ہرگز اس کے مناسب نہیں ہے۔ اگر فضیلت ہے تو مذکورہ اسلامی فضیلت سے فروتر ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔