پیغمبر اسلام ﷺ كی آخری وصيت

ترجمانی: محمد شاہد خان

نبي اكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا. (سورۃ المائدہ۔ آیت نمبر ۳)

آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا اور تم پراپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا

اس آیت کریمہ کے سنتے ہی حضرت ابوبکر رضي الله تعالی عنه رونے لگے۔ لوگوں نے پوچھاکہ اے ابوبکر یہ آیت کریمہ بھی تو قرآن کی دوسری آیتوں کی طرح ہے، بھلا اس میں رونےوالی کون سی بات ہے؟ حضرت ابوبکرصدیقؓ  نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور پاک ﷺ کی موت کی خبر ہے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ٹھیک نو دن قبل  یہ آخری آیت کریمہ نازل ہوئی:

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (سورۃ البقرہ۔ آیت نمبر 281)

اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ تعالی کی طرف لوٹائے جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائےگا۔

اس آیت کریمہ کے نزول کے ساتھ ہی ذات اقدس  پر درد اور تکلیف کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ اس کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کی زیارت کی خواہش کا اظہار فرمایا اور ان کی قبروں پر جا کر یہ الفاظ ارشاد فرمائے:

"اے احد کے شہداء! تم پر سلامتی ہو، تم اپنے رب کے پاس جانے میں سبقت لے گئے، تمہارے پیچھے ہم لوگ بھی آرہے ہیں، عنقریب میں بھی تم لوگوں سے ملنے والا ہوں۔”

زیارت سے واپسی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشک رواں تھے۔

وفات سے تین دن قبل جب تکلیف کی شدت بڑھ گئی اس وقت آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت میمونہ کے گھر میں تشریف رکھتے تھے آپ نے ازواج مطہرات کو اکٹھاکیا اور انھیں مخاطب کرتے ہوے فرمایا کیا تم لوگوں کو یہ منظور ہے میں اپنی بیماری کے ایام عائشہ کے گھر میں گزاروں؟ ازواج مطہرات نے کہا ضرور، کیوں نہیں، ہماری طرف سے آپ کو پوری اجازت ہے۔

اس کے بعد آں حضورﷺ نے کھڑا ہونا چاہا، لیکن آپ میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی۔ چنانچہ حضرت علی اور حضرت فضل ابن عباس نے آپ کو سہارادے کرحضرت میمونہ کےگھر سے حضرت عائشہ کے حجرے تک پہونچایا۔ صحابہ کرام سرکاردوعالم ﷺکی اس طرح کی حالت کا پہلی بار مشاہدہ کررہے تھے۔  ہرکوئی گھبراہٹ کے عالم میں بار بار یہی پوچھ رہا تھا  کہ آخر سرکار کو کیا ہوگیا ہے؟ آخر آپ کی حالت ایسی کیوں ہے؟ ادھر مسجد نبوی میں لوگوں کا ازدحام بڑھتا جارہا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کی جبین مبارک سے پسینہ بہت زیادہ بہنے لگا تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے زندگی میں کسی کو اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا وہ کہتی ہیں: میں پیارے نبی کا ہاتھ پکڑ کر خود انھی کے ہاتھ سے ان کا پسینہ پوچھ رہی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ افضل اور مبارک تھا جس وقت میں پسینہ پوچھ رہی تھی، اس وقت میں نے رسول اللہﷺ کو یہ الفاظ دہراتے ہوئے سنا آپ فرمارہے تھے:

 "موت ہوش و ہواس کو  اڑا دیتی ہے۔ موت کی تکلیف بے سدھ کردیتی ہے۔”

مسجد نبوی میں اللہ کے رسول کی ناسازی طبع کو لے کر چہ می گوئیاں شروع ہوچکی تھیں۔ نبی اکرمﷺ نے لوگوں کی بے چینی محسوس کرتے ہی دریافت فرمایا: یہ سب کیا ہورہا ہے؟ جواب دیا گیا: اے رسول اللہﷺ! لوگ آپ کے بارے میں فکرمند ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے ان کے پاس لے چلو۔ لیکن جب آپؐ نے خود سے چلنا چاہا تو نہ چل سکے اور "ایک بار پھر  غشی طاری ہوگئی۔ پھر ذات اطہر پر سات ڈول پانی ڈالا گیا، تب جاکر آپؐ کو ہوش آیا”۔ پھر آپؐ منبر پر چڑھے اور اپنی زندگی کا آخری خطبہ دیتے ہوے فرمایا:

اے لوگو! کیا تم میری زندگی کو لے کرپریشان ہو؟

لوگوں نے جواب دیا: ہاں یا رسول اللہ

پھر آپؐ نے فرمایا:

اے لوگو! ہماری تمہاری ملاقات کی جا یہ دنیا نہیں ہے، بلکہ اب ہماری تمہاری ملاقات حوض کوثر پر ہوگی اور گویا میں اسے یہاں سے دیکھ رہا ہوں۔ خدا کی قسم تمہارے بارے میں مجھے فقروفاقہ سے ڈر نہیں لگتا، بلکہ تمہاری دنیا طلبی سے ڈرتا ہوں۔ کہیں تم لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح دنیا طلبی میں مقابلہ آرائی نہ کرو اور پھر تم بھی اسی طرح ہلاک کردیے جاؤ جس طرح تم سے پہلے کے لوگ ہلاک کر دیے گئے۔

پھرآپؐ نے فرمایا: اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اور یہ بات آپ مسلسل فرماتے رہے۔

پھرآپ نے فرمایا عورتوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

پھر آپؐ نے فرمایا:

"اللہ نے انسان کو اختیار دیا وہ چاہے تو دنیا کو اختیار کر ے اور چاہے تو اپنے رب کو اختیار کرے، تو اس نے اپنے رب کو اختیار کیا”۔

آپؐ کا یہ آخری جملہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن سیدنا ابوبکرصدیقؓ اس جملہ کا مطلب سمجھ گئے۔ انھیں معلوم تھا کہ اس جملہ سے آپؐ خود اپنی ذات مراد لے رہے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ یہاں تک کہ ان کی آواز رندھ گئی اور رسول اللہ ﷺ کو درمیان میں روکتے ہوئے فرمانے لگے کہ ہمارے ماں باپ، بیوی بچے اور ہماری مال ودولت سب کچھ آپ پر قربان اور وہ مسلسل یہی بات دہرائے جارہے تھے۔ لوگ مجسم حیرت بنے ہوئے تھے اور حضرت ابوبکرؓ کو تعجب خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خود حضرت ابوبکرؓ کا دفاع کرتے ہوے ارشاد فرمایا:

اے لوگو! ابوبکر کو چھوڑ دو۔ کیونکہ ہم نے ہر کسی کے احسان کا بدلہ چکا دیا، چاہے وہ کم رہا ہو یا زیادہ سوائے ابوبکر کے۔ میں ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکا اور اب ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، وہی ان کے احسانوں کا بدلہ دے گا۔

سنو مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں سوائے ابوبکر کے دروازے کے اسے کبھی نہ بند کیا جائے۔

منبر سے اترتے ہوئے وفات سے قبل آپؐ کی زبان مبارک پر مسلمانوں کے لیے جو آخری دعائیہ کلمات جاری تھے وہ یہ تھے:

اللہ تمہیں پناہ دے، تمہاری حفاظت فرمائے، تمہاری مدد فرمائے، تمہیں ثابت قدمی عطا کرے اور تمہاری نصرت فرمائے۔

اے لوگو! قیامت تک آنے والی میری امت کے ہر پیروکار کو میرا سلام پہونچانا۔

پھر دوبارہ آپ اپنے گھر کی طرف لے جائے گئے اس وقت وہاں حجرے میں  عبدالرحمن ابن ابی بکر داخل ہوئے اس وقت ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ مسواک کی طرف مسلسل دیکھ رہے تھے۔ لیکن بیماری سے اس قدر نڈھال تھے کہ ان سے مسواک بھی نہیں مانگی جارہی تھی۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے نظر رسول کی چاہت کو بھانپ لیا اور عبدالرحمن ابن ابی بکر کے ہاتھوں سے مسواک لے کر آپ کے منھ میں رکھ دیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر مسواک کرنے کی بھی طاقت نہ تھی اس لیے حضرت عائشہؓ مسواک کو اپنے منھ میں لے کر اسے نرم اور تر کرکے اللہ کے رسول کے منھ میں رکھ دیتی تھیں۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کے معدے میں جو آخری چیز داخل ہوئی وہ میرا لعاب تھی اور خدائے پاک پروردگار کے کرم سے وفات سے قبل ہمارا اور رسول اللہ صلی علیہ کا لعاب بھی ایک ہوگیا۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں  پھر فاطمہ آئیں اور آتے ہی رونے لگیں اس وقت پیارے نبی کھڑے نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ وہ جب بھی آتی تھیں تو رسول اللہ کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا کرتے تھے اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا کرتے تھے۔

اللہ کے رسولﷺ نے حضرت فاطمہ  سے فرمایا: میرے قریب آجاؤ   پھر آپؐ نے ان کے کان میں دھیرے سے کچھ کہا جس کی وجہ سے وہ اور زیادہ رونے لگیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں دوبارہ آہستہ سے کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں۔

رسول اللہ کی وفات کے بعد جب ان سے اس بابت دریافت کیا گیا تو کہنے لگیں کہ پہلی دفعہ اللہ کے رسول نے مجھ سے کہا:  اے فاطمہ آج کی رات میری زندگی کی آخری رات ہے۔ تو یہ سن کر میں رونے لگی تھی پھر جب آپ نے مجھے روتے ہوے دیکھا تو فرمایا: اے فاطمہ میرے اہل وعیال میں سب سے پہلے میری ملاقات تم ہی سے ہوگی۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد آپؐ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! میرے قریب آجاؤ  اور اس کے بعد آپؐ  میرے سینے پر اپنا سر رکھ کر لیٹ گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمانے لگے (بل الرفیق الاعلی، بل الرفیق الاعلی ) مجھے رفیق اعلی کے پاس جانا ہے، مجھے رفیق اعلی کے پاس جانا ہے۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں میں سمجھ گئی کہ آپ نے اپنا  اختیار استعمال کیا ہے۔

پھر آپ ﷺ کے حضور حضرت جبریلؑ پیش ہوئے اور عرض پرداز ہوئے: اے رسول اللہ موت کا فرشتہ دروازے پر حاضر ہے اور آپ سے اجازت کا طلب گار ہے، آپ سے قبل یہ اختیار کسی کو نہیں دیا گیا۔

آپ ؐ نے حضرت جبریل سے فرمایا: آپ انھیں اجازت دے دیجیے۔

اس کے بعد موت کا فرشتہ اندر داخل ہوا اور فرمایا:

السلام عليك يا رسول الله

اللہ تعالی نے مجھے آپ کے پاس دواختیارات دے کر بھیجے ہیں،آپ چاہیں تو دنیا میں بقا حاصل کرلیں اور چاہیں تو اپنے رب کا قرب حاصل کرلیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا نہیں مجھے رفیق اعلی کے پاس ہی جانا ہے۔

پھر موت کا فرشتہ آپ کے سرہانے کھڑا ہوا اور بولا:

اے پاک روح، اے محمد ابن عبداللہ کی روح تو اپنے رب کے پاس چل تجھے اس کی خوشنودی حاصل ہے تیرا رب تجھ سے خوش ہے وہ تجھ سے ناراض ہرگز نہیں ہے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس کے بعد آپ کے ہاتھ لڑھک گئے اور میرے سینے پر آپ کا سر بھاری محسوس ہونے لگا اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ آپ کی وفات ہوچکی ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں؟

بدحواسی کے عالم میں میں  اپنے کمرے سے بھاگی اور مسجد نبوی کی طرف اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر چیخنے لگی۔

رسول اللہ کی وفات ہوگئی، رسول اللہ کی وفات ہوگئی۔

میری یہ بات سن کر مسجد نبوی میں کہرام مچ گیا اور پورا ماحول آہ وبکاء میں ڈوب گیا۔

اورجو منظر تھا وہ ایساتھا کہ  حضرت علی ابن ابی طالب اپنی جگہ بالکل بے حس وبے جان پڑے ہوے تھے، حضرت عثمان بن عفان  بچوں کی طرح کبھی دایاں ہاتھ ٹٹولتے تو کبھی بایاں۔

حضرت عمر ابن خطاب  نے میان سے اپنی تلوار نکال لی اور کہنے لگے جو کوئی بھی یہ کہے گا کہ رسول اللہ کی موت ہوگئی ہے میں اس کی گردن اڑا دوں گا، وہ ابھی اپنے رب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے ہیں جس طرح حضرت موسی اپنے رب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تھے ملاقات کے بعد وہ واپس آجائیں گے لیکن اگر کسی نے یہ کہنے کی جرأت کی کہ وہ مرگئے ہیں تو میں اس کی جان لے لوں گا۔

لیکن ان سب میں جو شخص ثابت قدم تھا وہ حضرت ابوبکر صدیق تھے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ کے پاس آئے اور ان کا سر اپنی گود میں رکھا اوروہ رسول اللہ کو، اے میرے دوست، اے اللہ کے بنی، اے خدا کے محبوب کہہ کر پکار رہے تھے۔

 پھر آپ نے حضور پاک کو بوسہ دیا اور  فرمایا:

آپ جب باحیات  تھے تب بھی اچھے تھے اور مرنے کے بعد بھی اچھے ہیں۔

پھر وہاں سے یہ کہتے ہوے نکلے جو شخص  محمد کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اب محمد کی وفات ہوچکی ہے لیکن جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ کی ذات زندہ وجاوید ہے اسے کبھی موت نہیں آسکتی۔

یہ سنتے ہی حضرت عمر کے ہاتھوں سے تلوار چھوٹ کر زمین پر گرپڑی اور انھیں بھی یقین ہوگیا کہ رسول اللہ کی وفات ہوچکی ہے۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں وہاں سے نکلا اور ایک ایسی سنسان جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلے میں خوب جی بھرکر روسکوں۔

پھر اس کے بعد آپ ؐ کی تدفین عمل میں آئی۔

اس وقت حضرت فاطمہ قبر رسول پر کھڑے ہوکر  یہ کہہ رہی تھیں کیا تمہیں اچھا لگ رہا ہے کہ تم نبی کے چہرے پر خاک ڈالو، پھر اس کے بعد وہ لوگوں کو نبی کی وفات کی خبر سنا رہی تھیں اور یہ کہہ رہی تھیں:

اے ابا جان! اللہ تعالی آپ کی دعا قبول فرمائے اور جنت الفردوس آپ کا آخری ٹھکانہ ہو۔

===

آپؐ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپؐ رحمت للعالمین بناکر بھیجے گئے اور اپنی آخری سانسوں تک امت کے حق میں دعائے خیر کرتے رہے، اے اللہ ہمیں قیامت کے روز اپنے نبی کی شفاعت عطا فرما اور اس امت کے احوال درست فرما اور ہمیں ذلت سے نکال سربلندی عطا فرما اور اپنے دین کو غالب فرما۔

تبصرے بند ہیں۔