پی ڈی پی اوربی جے پی اتحاد

ایم شفیع میر

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل ہوتی ہیںں سیاست میں ذاتی مفادات ہوتے ہیں جن کے مطا بق کبھی کبھی دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی ہیں اور کبھی کبھی دشمنیاں دوستی میں ڈھل جاتی ہیںں اس کی ایکزندہ مثال ریاست جموں و کشمیر میں پی ڈی پی بھاچپا اتحاد ہےں  دونوں پارٹیوں نے انتخابات کے دوران ایک دوسرے کے خلاف بول کر سادہ لوح عوام سے ووٹ حاصل کیا۔ پی ڈی پی نے ریاست کی خصوصی پوزیشن 370کے حق میں نعرۂ بے ایمانہ بلند کر کے ایک ایسی ہوا بنا دی کہ لوگ ووٹ دینے کیلئے مجبور ہوگئے، یہاں لوگوں کا پی ڈی پی کو ووٹ دینا اس لئے مجبوری بن گیا تھا کیونکہ صوبہ کشمیر کے تقریباً تمام لوگوں کی یہی تمنا تھی کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی بھی قسم کا کھلواڑ نہ کیا جائے۔ وہیں صوبہ جموں کے صرف ڈھائی اضلاع کے رہنے والے لوگ370کے خلاف تھےں  انہی ڈھائی اضلاع کے عوام کی خواہش کے مطابق بی جے پی نے +44مشن کے نام سے 370کو مستقل طور ختم کرنے کی مہم چلا کر عوام سے ووٹ حاصل کیا۔دونوں ہی پارٹیاں اس گمراہ کن کھیل میں کس حد تک کامیاب ہوئیںں

حیران کن بات ہے کہ دو مختلف ہی نہیں بلکہ دو متضاد قوتیں جنھوں نے انتخابات کے دوران ایک دوسرے کیخلاف ہلا بول کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو گمراہ کر کے ووٹ حاصل کیا اور بعد از انتخابات سرکار بنانے کیلئے سوچ وچار کا ایک بہت بڑا ڈرامہ بھی رچا یا۔ سب سے زیادہ نشستوں پرکامیابی حاصل کر نے والی پی ڈی پی جماعت نے کسی بھی جماعت کیساتھ اتحاد نہیں کیا، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مفت حمایت کو بھی نکاراں  ایک لمبی مدت کے بعد پی ڈی پی جماعت نے عوامی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اُسی جماعت کے ساتھہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا انتخاب مہم میں جس کے خلاف بول کر انھوں نے عوام سے ووٹ حاصل کیا تھاں یہاں مفادا ت کی اس سیاست کا راز صاف طور سے افشا ہو جا تا ہے کہ حقیقی معنوں میں پی ڈی پی کا بھاجپا کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اپنا نکاح ِسیاست نہ کرنا عوام کو بیوقوف بنانے تک محدود تھا کیونکہ اتحاد تو انتخابات سے قبل ہی ہو چکا تھا۔

   بظاہر تو انتخابات کے زمانے میں دونوں پارٹیوں کی زبردست دشمنی تھی لیکن دوستی کا راز  ’’ایجنڈا آف الائنس ‘‘کے تحت اتحادکی صورت میں سامنے آیااور پھر دونوں پارٹیوں کی طرف سے یہ طے پایا گیا کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن یعنی 370پر کسی بھی قسم کی بات نہیں ہوگیں لیکن ریاست حکومت کے تین برس بیت جانے کے باجود ریاست تعمیر و ترقی طور مفلس تو دکھائی دے ہی رہی ہے لیکن بغیر اس حساس مسئلے کے اچھالنے کے دونوں جماعت کے لیڈران کی اور کار کردگی ہے ہی کیا؟؟یہاں تک کہ بھاچپا کے سپوت ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ کاریاست کی خصوصی پوزیشن 370کی منسوخی پر دوٹوک الفاظ میں کچھ بھی کہہ دینا اور پھر پی ڈی پی قیادت کا خاموشی سے اس بیان کا احترام کرنا دوغلی سیاست نہیں تو اور کیا ہے ؟؟ قوم کے ساتھ کھلواڑ نہیں اور کیا ہے؟

یہاں یہ حقیقت سامنے آ ہی جاتی ہے کہ ’’ایجنڈا آف الائنس‘‘ تو مفتی کے ساتھ ہی درگور ہوا تھاں ریاست کی وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے خیالات میں تضاد ہونا ریاست کے لئے اچھی بات نہیںں جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ سیاست میں دوستی نہیں ہوتی مفادات ہوتے ہیں اور اس میں دونوں پارٹیوں کے لیڈران کو کوئی شکایت نہیں ہے۔اس وقت دونوں پارٹیوں کے لیڈران قریبی ا تحا دی ہیں اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیںں  کسی زمانے میں یہی حال نیشنل کانفرنس اور کانگریسیوں کے چوہدریوں کا بھی تھا۔وہ ایک دوسرے کے خلاف زبردستی دشمنی رکھتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انھیں اقتدار و مفادات کی خاطر ایک ہی حکومت کا حصہ بننا پڑا۔تو پی ڈی پی ریاست جموں و کشمیر کی وہ جماعت تھی جس نے ماضی میں بھاچپا کو فرقہ پرست، مسلم دشمن اور نہ جانے کن کن خطابات سے نوازا تھا لیکن مفادات دوستی کی وجہ بنی اور کل کے دشمن آج کے دوست ہوئےں انتخابات کے دوران مفتی سعید مرحوم نے جس پارٹی کو ریاست کے خرمن امن میں آگ لگانے کا سب سے زیادہ ملزم نامزد کیا تھا اُن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا نام سرِ فہرست تھا لیکن اقتدار کی مجبوریاں ملاخظہ کیجئے کہ اسی جماعت نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہاتھ ملا کر حکومت میں چیف منسٹر کا عہدہ پا کر اپنی کرسی کو محفوظ بنایا دیا۔اب اس وقت اس کرسی پر اُن کی صاحبزادی اتحادی چٹنی کے مزے لے رہی ہے۔مفادات کی سیاست میں اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ دلی کے چوہدریوں کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتا ہےں

 یہ سچ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تو ضرور چل رہی ہیں لیکن ان میں تعاون اور یک جہتی کا ماحول صرف مفاد ات کی بنیاد پر ہےں   باقی حساس معاملات پر دونوں پارٹیاں اپنی اپنی راہوں پر گامزن ہیںں بس کبھی کبھار اپنی سیاسی بساط کو برقرار رکھنے کیلئے اور اپنے اُن ووٹران کا دل لبھانے کیلئے بھاجپا کا کوئی لیڈر ریاست کی خصوصی پوزیشن 370کیخلاف اپنا بیان داغ دیتا ہے اور پی ڈی پی کا کوئی لیڈر حق لب کشائی کر کے اپنا فرض پوراکر لیتا ہے گوکہ دونوں پارٹیوں کا اقتدار کی خاطر چوہے بلی والا یہ انوکھیل ابھی چل رہا ہے لیکن زمینی سطح پر اِ س کے تماش بین عوام پوری طرح سے یہ جان چکے ہیں کہ یہ کھیل صرف اقتدار کا ہےں بھلے ہی دونوں پارٹیاں اس کھیل میں خود کو کامیاب کھلاڑی سمجھ بیٹھے ہیں لیکن نئے حالات میں یہ کھیل بالکل اُلٹ ہو گا۔

  ریاستی عوام ابھی تک ششدر ہے کہ مرحوم مفتی سعید کو کیا ہوا تھا کہ انھوں نے اتنا بڑ افیصلہ کر ڈالا اوراپنے ووٹران کو تپتے صحرا میں تنہا چھوڑ کر ماضی کے دشمن اور خاص کر ریاست کے خرمن امن میں آگ کے شعلوں کو ہوا دینے والی جماعت بھاجپا کو اپنا اتحادی دوست بنا لیا لیکن بہت سی کہانیاں ہیں جو آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہی ہیںں ڈیل کے قصے بھی زبان زدہ خا ص و عام ہیں جن کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔بس انتظار کیجئے اور مفادی سیاست کے نتائج دیکھئے۔

  لیکن عوام کیلئے دکھ کی بات یہ ہے کہ ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں جو ریاست جموں و کشمیر کی عوام کو اُن کا حق دلانے کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے کے دعوے کرتے نظر آرہی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کی جنگ لڑتی نظر رآتی ہیںں  اسی سیاسی پختگی اور سیاسی بالغ نظری کے فقدان کے باعث ریاست میں ظلم و بربریت کا ماحول بنا ہوا ہے۔ ملک میں یہ واحد ریاست ہوگی ہے جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے جہاں جوپارٹی چاہے جھوٹے دعوئوں کی بنیاد پرسادہ لوح عوام سے ووٹ حاصل کرے، اقتدار میں آئے اور پھر اِسی عوام کو کبھی افسپا،پاوا شل اور نا جانے کیا کیا تحفے میں دیکر ایک ایک کو موت کے گھاٹ اُتارے، کون ہے پوچھنے والا؟؟ جہاں نہ قانون ہے نہ انصاف۔جہاں انصاف کے ٹھیکیدار بھی سیاسی چوہدریوں کے اشاروں پرناچتے ہوںں سینے میں ایک درد ِدل رکھنے والے عام انسان کی حیثیت سے راقم اپنے سیاسی قائدین کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے ریاست کے کشیدہ حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔ انا اور ضد سے اپنے ہی ہاتھوں سیاسی بحران کی پھیلتی ہوئی اس آگ کو پیار خلوص اور ایثار کے پانی سے بجھانا ہو گا۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور اپنی سلطنت کے غرور میں اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل کر راکھ نہ ہوجائیں اور پھر توبہ کا وقت نصیب نہ ہو۔آخر میں ریاست کے سیاسی قائدین کے لئے چند اشعار پیشِخدمت ہیں۔

پیچ در پیچ سوالات میں اُلجھے ہوئے ہیں

ہم عجب صورت حالات میں اُلجھے ہوئے ہیں

ختم ہونے کا نہیں معرکہ ء عشق و ہوس

مسئلے سارے مفادات میں اُلجھے ہوئے ہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔