شراب و منشیات: سماجی ناسور!

محمد آصف ا قبال

 اسلام نے فرد کی اصلاح ہی کی فکر نہیں کی بلکہ معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی اسلامی خطوط پر تشکیل کی بات بھی کہی ہے۔ اس لحاظ سے امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں اِن تین نکات  پر انفرادی واجتماعی ہر دو سطح پر جاری رکھیں اِس سے صرف نظر کہ وہ کسی جماعت سے وابستہ ہیں یا نہیں ۔ سب سے پہلے فرد خود اپنی ذات کے لیے فکرمندہو۔ اُس کے اندر یہ احساس جاگزیں ہو نا چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں اپنے شب و روز کے معاملات کو پروان چڑھائے گا۔ ساتھ ہی وہ جس مقام،علاقہ،محلہ،بستی، قصبہ یا شہر میں سکونت پذیر ہو وہاں بھی اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ تبدیلی جو وہ خود اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے،اہل خانہ سے لے کر تمام شناسا و غیر شناسا حضرات کے درمیان بھی دیکھنے کا خواہش مند ہے۔

یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان جس قسم کی تبدیلی کی خواہش اپنے دل میں پالتا ہے کسی نہ کسی سطح پر اس کے قیام میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی خواہش بھی اس میں موجود ہوتی ہے۔ یعنی وہ اُن کاموں کے لیے نہ صرف انفرادی طور پر کچھ نہ کچھ وقت، صلاحتیں اور وسائل استعمال کرتا ہے بلکہ اجتماعی سعی و جہد کا جذبہ اور خواہش بھی اس میں پروان چڑھتی ہے۔ ساتھ ہی خواہش کا ہجم طے کرتے وقت لازماً یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ سعی و جہد کس درجہ میں کی جائے؟

یہ سعی و جہد فرد واحد خود اپنی سطح پر انجام دے یا اُس میں مزید صلاحیتیں درکار ہیں ؟اگر کوئی تبدیلی وقتی ہے تو ممکن ہے فرد واحد کی ذاتی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو جائیں ۔ برخلاف اس کے اگر تبدیلی مستقل بنیادوں پر مطلوب ہے تو فرد واحد کی صلاحیتیں ناکافی ہوں گی۔ ایسے موقع پر انفرادی سرگرمیاں اجتماعی سرگرمیوں میں منتقل ہو جانی چاہیں ۔ اس موقع پر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ چونکہ عموماً اجتماعیت کو کسی نہ کسی جماعت،سوسائٹی یاتنظیم کے درجہ بند ڈھانچہ میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لہذا اُن تمام کوششوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو بنا تنظیمی ڈھانچہ کے ساتھ، مختلف مقامات اور اوقات میں مختلف سطحوں پر انجام دی جارہی ہوتیہیں ۔ برخلاف اس کے ہر وہ سرگرمی جس میں ایک گروہ اجتماعی اصولوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اپنی پالیسی اورپروگرام کوروبہ عمل لاتا ہے،اجتماعی سرگرمی میں شمار کیاجانا چاہیے۔

یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب کبھی بھی کسی نظریہ یا مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریاست کی تشکیل ہوگی۔ اس وقت اس کے قیام میں ان تمام چھوٹی و بڑی سرگرمیاں ہی اس کی پشت پے ہوں گی جن کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ مجموعی سرگرمی و انجام کی شکل میں سامنے آئے گا۔ لہذا یہاں اُس خیال کی تردید بھی ضروری ہے کہ چند مخصوص جماعتیں یا اس سے وابستہ افراد ریاست کی تشکیل کا بڑا کام انجام دے لیں گے۔ اس غلط خیال ہی کی بنا پر بعض اوقات مخصوص جماعتوں سے وابستہ افراد اُن غیر منظم سرگرمیوں کو نظر انداز کرتے ہیں جو مختلف اوقات اور مختلف مقامات پر چھوٹے و بڑے گروہوں کی جانب سے انجام دی جا رہی ہوتی ہیں ۔ برخلاف اس کے ضروری ہے کہ ایک مخصوص دائرے میں انجام دی جانے والی تمام سرگرمیوں کو ایک بڑے دائرے میں منتقل،منظم اور باہم مربوط کیا جائے۔

اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ کسی بھی جماعت کے افراد صرف اپنی صلاحیتوں پر ہی بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں  بلکہ ان تمام منظم و غیر منظم گروہوں کے درمیان اشتراک باہمی کا لائحہ عمل بھی تیار کریں جو اس میدان کار میں نمایاں سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں ۔ کیونکہ یہ دائرہ جس قدر وسیع اور باہم مربوط ہوگا اسی قدر اُس نظریہ کے فروغ کی راہیں وسیع سے وسیع تر ہوتی جائیں گی۔

 ہندوستان کی ایک بڑی اسلامی جماعت نے اپنے دستور میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ ہم اقامت دین کے علمبر دار ہیں ۔ اقامت دین کے معنی ہیں کہ کسی بھی تفریق و تقسیم کے بغیر پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یک سو ہوکر کی جائے۔ نیز انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اِس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا ارتقاء ہو،معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل ہواور یہ سب کچھ دین کے مطابق ہو۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ اقامت دین کی تفہیم صرف اُسی ایک جماعت کی پالیسی اورپروگرام کی حد تک نہیں ہونی چاہیے بلکہ اُس سے وابستہ تمام ذیلی تنظیموں ، اداروں ،انجمنوں اورسوسائٹیوں کے لیے بھی یہی تفہیم ہونی چاہیے۔ وہیں یہ طریقہ کار جماعت اُن تمام تنظیموں ، اداروں ،انجمنوں اورسوسائٹیوں کے لیے بھی ہونا چاہیے جو اقامت دین کی خاطر سرگرم عمل ہیں ۔

سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالی فرماتا ہے :”اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا، اور جسے(اے محمدؐ)اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑاور موسیٰ  ؑ اورعیسیٰ ؑ کو ددے چکے ہیں ، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اوراس میں متفرق نہ ہو جائو۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اوروہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے، جو اس کی طرف رجوع کرے”(الشوریٰ:۱۳)۔ یہاں یہ بات اللہ تعالیٰ نے واضح کر دی ہے کہ دین کو قائم کرنے کی ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق انہی انسانوں کو ملتی ہے جو صدق دل سے طالب ہدایت ہوں اور اللہ کی طرف رجوع کریں ۔ برخلاف اس کے افراد اور تنظیمیں ، انفرادی واجتماعی سطح پر مختلف سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے نظر تو آئیں گے لیکن چونکہ وہ صدق دل سے اللہ کی ہدایات کی روشنی میں مسائل کے حل میں سرگرم عمل نہیں ہیں ، لہذا وہ نتائج بھی اخذ نہیں ہوپائیں گے جو حقیقتاً مطلوب ہیں ۔

  گرچہ مضمون کا عنوان’شراب ومنشیات:سماجی ناسور’ہے لیکن ممکن ہے قاری کو ابتدا یہ بے ربط محسوس ہو۔ اس کے باوجود یہ گفتگو خصوصاً اِس لیے کی گئی ہے کہ جن سماجی برائیوں کے ازالہ کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مختلف جہتوں سے سعی و جہد جاری ہے اُن میں شراب نوشی و منشیات اہم ترین سماجی برائی ہے۔ جسے اصطلاح میں امّ الخبائث کہا گیا ہے،یعنی برائیوں کی ماں ۔ لہذا مقاصد کے حصول کے لیے جہاں ایک جانب بڑا محاذ بنانے کی ضرورت ہے جس میں مختلف سطحوں پر جاری کوششوں کو ایک بڑے دائرے میں لایا جائے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ شراب و منشیات کے خاتمہ کی کوششیں مسلم و غیر مسلم افراد، تنظیموں  اورحکومتی و غیر حکومتی اداروں کے ذریعہ جا ری کوششوں کو مربوط کیا جائے یا جہاں اس کے امکانات ہیں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس کے برخلافبرائی کے خاتمہ کی اِن کوششوں کا وہ اعلیٰ و عرفہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا جو مطلوب ہے۔ لہذا ابتدا ہی میں اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امّ الخبائث کے خاتمہ کی کوششیں مخصوص پس منظر،مقصد اور نصب العین کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سعی و جہد بھی فرد کے ارتقاء  اورمعاشرے کی تعمیر میں معاون ہوگی نیز ‘ریاست کی تشکیل ‘میں بھی یہ سرگرمیاں مزید کارگربن جائیں گی،انشااللہ۔

 آپ جانتے ہیں کہ اسلام کسی بھی تبدیلی کو بتدریج چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے بنیادی عقائد کی تبلیغ کی تو اس میں سب سے پہلے شرک سے نجات اور رسالت و آخرت پر ایمان لانے کے لیے کہاگیا۔ بعد میں مرحلہ درمرحلہ معاشرتی خرابیوں کا ازالہ کی منظم و منصوبہ بند کوششیں کی گئیں ۔ اسی طرح شراب کے نقصانات بھی مختلف مراحل میں نہ صرف لوگوں پر واضح کیے بلکہ اس سے نجات کے لیے مختلف مراحل میں ان کی فکری و عملی تربیت بھی کی گئی۔

موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ حکومتی و غیر حکومتی سطح پر بھی اُسی طریقہ تدریج کو اختیار کیا جائے۔ امید ہے اس کے بہتر نتائج اخذ ہوں گے۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ ان کوششوں کے درمیان ربط ہو نیز ایک دوسرے کا تعاون لینے اور دینے کی پالیسی اختیار کی جائے۔ جو لوگ اس سماجی برائی کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہوں انہیں اِسی پس منظر میں سعی و جہد کرنی چاہیے۔۔ ۔ ۔ ۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔