چاپلوسی : ایک سماجی ناسور

مقبول احمد سلفی

تملق و چاپلوسی صالح معاشرہ کے لئے کینسر ہے۔  چاپلوسی میں  ایک چاپلوس کی انفرادی منفعت ہوتی ہے جبکہ پورے سماج کے لئے نقصان ہی  نقصان ہوتاہے۔

چاپلوسی کے اسباب ومقاصد سے اس کا منفی پہلو واضح ہونے کے ساتھ اس کا علاج بھی مل جاتا ہے۔

(1) کبھی کبھار آرام پسندی آدمی کو چاپلوس بنادیتی ہے وہ بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا چاہتا ہے جبکہ ہمیں اسلام نے کسب معاش کے لئے جدوجہد پہ ابھارا ہے۔  حدیث رسول ﷺ ہے :

ما أَكَلَ أَحَدٌ طعامًا قطُّ ، خيرًا من أن يأكلَ من عملِ يدِه ، وإنَّ نبيَّ اللهِ داودَ عليهِ السلامُ كان يأكلُ من عملِ يدِه( صحيح البخاري:2072)

ترجمہ: کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔

یہ حدیث ہمیں معاش کے لئے محنت کرنے پہ ابھارتی ہے جو بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا پسند کرتے ہیں وہ حرام کاری میں مبتلا ہیں اسے توبہ کے ساتھ ساتھ رزق حلال کمانے کی ضرورت ہے ۔

(2) چاپلوسی کی ایک دوسری وجہ جھوٹی شہرت حاصل کرنا تاکہ لوگوں میں اس کی قدرومنزلت بڑھے اور جس کی چاپلوسی کرتا ہے اس کی نظر میں معتبرگردانا جائے۔  واضح رہے اس کے بڑے خطرات ہیں ان میں جھوٹی تعریف یا  کسی کے سامنے تعریف کرنا بھی ہے جو اسلام کی نظر میں معیوب ہی نہیں شدید قسم کا منکر ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :

إذا رأيتُم المدَّاحينَ ، فاحْثُوا في وجوهِهم التُّرابَ.(صحيح مسلم:3002)

ترجمہ: جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو۔

یہ حال ان لوگوں کا ہے جو سامنے صحیح تعریف کرتے ہیں تو جو جھوٹی تعریف کرے ان کا کیا حال ہوگا؟

ایک بار نبی ﷺ نے بنی عامر کے وفد کو اپنے لئے سید استعمال کرنے پہ ٹوک دیا اور فرمایا: ولا يَسْتَجْريَنَّكم الشيطانُ(صحيح أبي داود:4806) یعنی شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لئے زیبا نہ ہو۔

اس کے علاوہ اس میں منافقت اور دنیا طلبی بھی ہے جو ایمان کے لئے بہت خطرناک ہے۔

(3) کچھ لوگ ماحول سے ماثر ہوکر اس بیماری میں مبتلاہوجاتے ہیں۔  اس لئے اچھے ماحول میں رہنا، اچھا ساتھی بنانا اور ہمیشہ اللہ کی بندگی کرتے رہنا انسان کو ہمیشہ ذلت ورسوائی سے بچائے گا۔

(4) بسااوقات دوسروں سے بدلہ لینے یا نقصان پہنچانے یا دوسروں کی چغلخوری  انسان کو چاپلوسی کے راستے پہ لگادیتی ہے۔  مومن بندہ کبھی بھی کسی مومن کو تکلیف نہیں دیتا۔  اور وہ مسلمان ہی نہیں جو دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے۔  نبی ﷺ کا فرمان ہے :

المسلمُ من سلِم المسلمون من لسانِه ويدِه(صحيح البخاري:6484)

ترجمہ : مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے یعنی جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ رہیں وہ مسلمان ہی نہیں۔

جو غیبت و چغلی کرتا ہے وہ بھی دوسرے بھائی کو تکلیف دیتا ہے اس کا بھی اسلام سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے لہذا مسلمان کو اپنی زبان اور ہاتھ کو غلط استعمال سے بچائے۔  اس غلط استعمال سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوسکتی ہے۔

(5) اپنی عیب پوشی کی خاطر بھی چاپلوسی کی جاتی ہے۔  اس قسم کا علاج یہ ہے کہ اگر رب کا گنہگار ہے تو رب سے معافی مانگ لے اور سچی توبہ کرلے۔  اورانسان اگر انسان کا گنہگار ہے تو پھراس سے معافی طلب کرلے۔  یہ بڑا سخت مرحلہ ہوتا ہے۔  رب سے معافی مانگی آسان ہے مگر بندوں سے معافی ذلت تصور کیا جاتا ہے۔  بندہ یہ بھول جاتا ہے کہ کل قیامت میں آج سے کہیں زیادہ ذلیل ورسوا ہونا پڑے گا جہاں رشتے ناطے اور دوست واحباب سے لیکر پوری دنیا والے ہوں گے۔  دانا وبینا وہی ہےجوبڑی ذلت سے بچنے کے لئے  چھوٹی ذلت برداشت کرلے۔  حقیقت میں اپنی غلطی کی معافی مانگنا ذلت نہیں بڑکپن ہے ،اس بڑکپن سے اللہ تعالی بھی خوش ہوجاتا ہے۔

(6) منصب بھی کیاچیز ہے جس کے دل میں اس کی حرص پیدا ہوجائے وہ اس کے حصول کے لئے  چاپلوسی تو کیا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔  زمانہ قدیم سے زمانہ حال تک اس کے بے شمار واقعات تاریخ میں مرقوم ہیں ، ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔  چاپلوسی انسان کو سکون نہیں دیتی۔  اس کے ذریعہ عہدومنصب پاتوسکتا ہے مگر سکون نہیں پاسکتاکیونکہ اس کا منصب معیاری بنیاد پہ نہیں  چاپلوسی پہ قائم  ہے۔  ہمیں اگر سکون سے زندگی گذارنا ہے تو اولا :منصب کی چاہت اپنے دل سے نکالنی ہوگی۔  گر خود سے مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔  ثانیا :منافقت کی تنگ وتاریک راہوں سے نکلنا پڑے گا۔  چاپلوسی ایسی وبا ہے جو منافقت کی ساری قسمیں اپنے اندر سمو لیتی ہے یعنی ایک بیماری سے ہزار بیماریاں جنم لے لیتی ہیں اس لئے ہمیں کسی بھی مفاد کی خاطر کسی قسم کی چاپلوسی نہیں کرنی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔