چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی سکہ میرے باپ کا

حفیظ نعمانی

جنگ چاہے ملکوں کے لئے ہو یا حکومت کے لئے ہر جنگ میں کوئی ہارتا ہے اور کسی کو جیت نصیب ہوتی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس اپنی حکومت نہیں بچا سکی لیکن اس نے بی جے پی کو بھی نہیں جیتنے دیا یہ اس کی آدھی کامیابی ہے۔ صبح کے بعد جب جب یہ دیکھنا چاہا کہ انتخاب کا کیا رہا؟ تو یہی نظر آیا کہ بی جے پی تیزی سے حکومت بنانے کی طرف جارہی ہے اور کرناٹک کے ہر مرکز پر وہی ننگا ناچ وہی مٹھائی کے ڈبے وہی آتش بازی جو بی جے پی کی پہچان ہے اور ایک دوسرے کو مبارکباد کا تبادلہ۔ دوپہر کے بعد صورت حال تبدیل ہوتی نظر آئی تو دوسری پارٹی کے چہرے بھی دو چار سامنے آئے اس لئے کہ دو بجے کے قریب یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ واضح اکثریت جس کے آثار صبح سے نظر آرہے تھے وہ شاید نصیب نہ ہو۔

جنوبی ہند میں ابھی بی جے پی ہندوتو کا زہر بونے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے انتخابی تقریروں میں اپنے وہ ہتھیار آزمائے جو اب تک انہیں فتح سے ہم کنار کرتے رہے ہیں۔ کرناٹک میں وہ تقریر کررہے تھے جو بدترین خشک سالی کی مارجھیل رہا ہے اور وزیراعظم اپنی تقریر میں تاریخ پڑھا رہے ہیں کہ جب بھگت سنگھ جیل میں تھے تو پنڈت نہرو ان سے ملنے نہیںگئے۔ اور کرناٹک والے اس لئے سن رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ جبکہ انہیں پانی اور سوکھے سے جو نقصان ہوا ہے اس کا بدلہ دینے کی بات کرنا چاہئے تھی۔

شام کے چار بجے اچانک یہ خبر گشت کرنے لگی کہ جنتا دل سیکولر سے کانگریس نے کہا ہے کہ وہ حکومت کا دعویٰ پیش کرے ہم باہر سے مدد دیں گے۔ یہ خبر بی جے پی کے خیمہ پر بجلی بن کر گری اور رات ہوتے ہوتے وزیراعظم، امت شاہ اور ایک درجن کے قریب وزیر بنگلور پہونچ گئے اور امت شاہ پھر وزیراعظم نے جشن فتح منانے کا اعلان کیا کرناٹک کے ووٹروں کا شکریہ ادا کیا اور وجے اور فتح کا مسلسل ڈھول بجاتے رہے جو اس کا اشارہ تھا کہ وہ جو وزیراعظم نے کانگریسیوں سے کہا تھا کہ وہ دائرہ میں رہیں ورنہ میں مودی ہوں۔ اور اب انہوں نے اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے اپنا مودی ہونا دکھانا شروع کردیا۔

دستور کا جہاں تک تعلق ہے کل ہی دستور کے سب سے بڑے ماہر فیضان مصطفیٰ نے بتایا تھا کہ جب کسی نے اکثریت کے دعوے کے ساتھ اپنا دعویٰ پیش کردیا تو اب سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ فضول ہے اور گورنر کے پاس جنتادل ایس کو حکومت بنانے کا بلاوا بھیجنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ تو دستور اور اس کے ماہروں کی بات ہے لیکن جب گورنروں کی حیثیت چھوٹے شہر کے چنگیوں کے منشی کی بنادی گئی ہو اور امت شاہ کو بنگلور میں حکومت بنوانے کے لئے ڈنڈا لے کر بٹھا دیا گیا ہو تو کیسا دستور اور کہاں کے ماہر؟

مصر کی دینی اسلامی جماعت اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن الُبنّا شہیدؒ اپنی کتاب میں لکھ گئے ہیں کہ جو آدمی نہ بکے اس کے بارے میںیہ نہ سوچو کہ وہ بک نہیں سکتا بلکہ یہ سمجھو کہ ابھی اس کی قیمت نہیں لگی ہے۔ ظاہر ہے جنتا دل یا کانگریس کے ایم ایل اے کی ایک قیمت ہے۔ اس نے اس لئے الیکشن لڑا ہے کہ وہ وزیر بنے گا، نہیں تو کسی بورڈ کا چیئرمین بنے گا، نہیں تو لوگوں کے کام کرائے گا ان سے پیسے لے گا اور اس کا کوئی نشانہ ہوگا دس کروڑ بیس کروڑ اگر اسے وزارت چاہئے تو اور نقد چاہے جتنا چاہئے وہ اسے اگر آج ہی مل جائے تو وہ بی جے پی کا دامن کیوں نہ تھام لے گا؟ رہا اس کا ڈر کہ اس کی دل بدلو قانون کی وجہ سے رُکنیت ختم ہوجائے گی تو یہ فیصلہ اسپیکر کرتا ہے اور جب بی جے پی حکومت بنالے گی تو اسپیکر بھی اس کا ہوگا گورنر تو اس کا ہے ہی کوئی اگر صدر کے پاس جائے تو صدر مودی کے گورنر جیسے ہی ہیں۔

ملک کے وزیراعظم کے بارے میں جو سابق وزیراعظم نے صدر کو لکھا ہے وہ تو ان کی زبان کے معاملہ میں ہے۔ اور عمل ان کا یہ ہے کہ اگر بڑی پارٹی کو پہلے بلانے سے مودی کا نقصان ہوتا ہے تو پہلے اکثریت والی کو بلائو اور اگر بڑی پارٹی کو بلانے سے فائدہ ہوتا ہے تو بڑی پارٹی کو پہلے بلائو گوا، منی پور، میگھالیہ وغیرہ کی مثال سامنے ہے۔ اور وہ جو سپریم کورٹ کے چار محترم ججوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جمہوریت خطرہ میں ہے اس کا اشارہ اسی طرف تھا کہ وزیراعظم تو جمہوریت کے قائل ہی نہیں ہیں اگر سپریم کورٹ بھی ان کے ہی نقش قدم پر چلے گا تو جمہوریت ختم ہوجائے گی۔ اور کرناٹک میں مودی جی جو کرانے جارہے ہیں وہ وہی ہے جو انہوں نے اترپردیش میں کرایا کہ بی ایس پی اور ایس پی کے کائونسل کے ممبر خرید لئے جن میں وہ بقل نواب بھی تھے جو ملائم سنگھ کے بغیر عید میں سیوئیں نہیں کھاتے تھے اور اب گھنٹا بجا رہے ہیں۔

اگر وہ جمہوری وزیراعظم ہوتے تو ہرگز بنگلور نہ آتے بلکہ دہلی میں بیٹھے بیٹھے ہی ووٹروں کا شکریہ ادا کردیتے اور تسلیم کرتے کہ آٹھ سیٹیں کم رہ گئیں اس لئے ہم آپ کو آپ کی مرضی کی حکومت نہ دے سکے۔ ان کا بنگلور آنا اور وجے وجے وجے کا راگ الاپنا یہ اشارہ کررہا ہے کہ جس کی مٹھی میں ملک کا خزانہ ہو اس کے لئے آٹھ ممبروں کی کیا حیثیت ہے؟ اور یہ حقیقت ہے کہ اگر دیوگوڑا کے وہ بیٹے جنہیں کانگریس وزیراعلیٰ بنا رہی ہے ان کو ہی امت شاہ وزیراعلیٰ کی کرسی کے ساتھ دس کلو سونا اور ممبئی میں ایک عالیشان کوٹھی اور نیرو مودی کی قیمتی کاروں میں سے ایک کار دینے کا وعدہ کریں تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے باپ سے بغاوت کرکے دس ممبر لے آئیں گے اور بی جے پی کے سرپر فتح کا تاج رکھ دیں گے۔ اگر کرناٹک میں امت شاہ وہی کرتے ہیں جو ہمیں نظر آرہا ہے تو 2019 ء کا نتیجہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اب حکومت مودی کسی کو نہیں دیں گے وہ ہاریں یا جیتیں حکومت اپنے ہاتھ میں ہی رکھیں گے کیونکہ ناگ پور میں انہوں نے یہی پڑھا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ہیں اٹل بہاری باجپئی نہیں ہیں جو ایک ووٹ سے ہارے تو وزیراعظم کی کرسی کو لات ماردی اور دوبارہ الیکشن لڑکر آئے مودی جی تو 10  ووٹ سے بھی ہاریں تو آنچا پانچا کرکے حکومت اپنے قبضہ میں رکھیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔