وطن عزیز میں نفرت کی نہیں محبت کی ضرورت ہے!

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

ہندوسان کو تمام دنیا میں خاص پہچان اور شناخت  حاصل ہے؛  یہی  دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو مذاہب و مشارب؛  اقوام وملل  ؛ تہذیب و ثقافت کا شاندار مرکز ومحورکہلاتا ہے ؛ وطن عزیز میں تمام قومیں اور برادریا ں مل جل کر رہتی چلی آئی ہیں؛ گنگا جمنی تہذیب کا تحفظ ہندوستان کی علامت سمجھا جاتا ہے؛   باہمی محبت؛ آپسی ہمدردی اور بھائی چارگی یہاں کی مٹی میں شامل ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں مسلسل نفرت اور عداوت کی تخم ریزی کیجا رہی ہے سماج میں تفریق ڈالنے کے لئے سماج دشمن عناصر پیہم کوشاں نظر آرہے ہیں اور نفرت کے شعلے بھڑکانے کے لئے کبھی جناح کی تصویر کو ایشو بنایا جاتا ہے تو کبھی نماز پر پابندی لگاکر مذہب کے نام پر سیاست کا گندہ کاروبار کرنے کی جسارت کیجا تی ہے؛ اسی پر بس نہیں اگر گزشتہ تاریخوں میں جھانکے تو معلوم ہو گا کہ لو جہاد اور گھر واپسی کا جھوٹا پروپیگندہ رچ کر نفرت کو ہوا دیگئی جس کے تحت کئی افراد کی جانیں بھی تلف ہوئیں؛ کیا ان  ناروا رویوں اور در اندازی سے  جمہوری ملک کی عظمت  عالمی سطح پر مخدوش و مجروح نہیں ہو رہی ہے؟

سچائی یہ کہ ان ہی شرمناک حرکتوں  کی بنیاد پر امریکی مذہبی کمیشن نے ہندوستان کو ان ملکوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا جہاں مذہبی تشدد کو فروغ دیا جاتا ہے اور مذہبی آزادی کو کوئی اہمیت نہیں دیجاتی ہے؛  ملک میں ان منفی رویوں سے مخصوص ذہنیت میں لت پت عناصر کو تو سیاسی منفعت حاصل ہو جاتی ہے  ؛  مگر اس کے نتائج مستقبل قریب میں ملک کے لئے مفید ثابت نہیں ہونگے نیز موجودہ صورت حال بھی ہندوستانی معاشرہ کے لئے بہتر نہیں ہے- مبصرین کا کہنا ہے جب ملک میں عوام کے بنیادی مسائل کی فکر نہ کیجائے؛  معاشرہ کو  مذہب کے نام پر تقسیم  کرنے کے نئے نئے منصوبے گھڑے جانے لگیں اور سیاسی بالا دستی کی خاطر بھید بھاؤ جیسے جرائم کا فروغ ہونے لگے تو یقین جانئے وہ زندہ قوموں کی علامت نہیں سمجھا جاتا نہ ہی وہ معاشرہ عروج و ارتقاء کی منازل طے کرپاتا ہے   نفرت کا یہ ماحول صرف مسلم اقلیت کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے عظیم شہری دلت بھی فرقہ پرست طاقتوں کی زد میں ہیں ضمنا یہ عرض کرنا ہے کہ دلت ہندوستان کی تاریخ میں مظلوم رہے ہیں  بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکرنے ہندوستان میں دلتوں کو عزت دلانے کی کوشش کی –

بابا صاحب کو ہندؤں کی مذہبی کتابوں پر بھی اعتراض ہے؛  رامائن کے حوالہ سے انہوں نے لکھا ہے کہ اس کتاب میں رام کی تصویر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ  وہ شودر کے دشمن ہیں -یہاں یہ تفصیل بتانے کا موقع نہیں ہے  البتہ اتنا ضرور عرض کرونگا کہ شاید ہی کوئی دن خالی جاتا جس میں کسی دلت  بچی کی آبرو کو مسمار نہ کیا جاتا ہو اور مردوں کی حقارت نہ کیجاتی ہو دوہزار چودہ کے بعد سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے اگر موجودہ تناظر میں حالات کا جائزہ.لیں تو اندازہ ہو گا کہ دلتوں پر ظلم وزیادتی کا طوفان آیا ہوا ہے یہی وجہ ہےکہ وہ اب اپنا مذہب تبدیل کرنے کا بار بار اعلان کررہے ہیں گزشتہ ماہ تقریبا تین سو دلتوں نے بودھ مذہب اختیار کیا یہ خبر باقاعدہ اخبارات میں شائع ہوئی نیز دواپریل کو دلتوں کی طرف سے بھارت بند کے نام پر احتجاج ہوا  اسی طرح  گزشتہ سال دسمبر میں دلتوں نے برھمن وادیوں ہندتوا کی تنظیموں پر جم کر سنگ باری کی اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا؛  پونے اور ممبئی میں دلتوں کے جلوس کی قہر سامانی اور نعروں کی زہر افشانی نے برھمن وادی سنگھٹنوں کو لرزہ براندام کردیا تھا حیرت یہ ہےکہ مہاراشٹر کی پولس بے حس حرکت تھی جبکہ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نےمعمولی دفاع کی کوشش کی تو پولس نے ان پر برجستہ ایکشن لیتے ہوئے  گولیوں کی بوچھار کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی  ہے چہار سو مسلمانوں کی لاشیں ہی لاشیں نظر آیا کرتی تھیں; لیکن جب مہاراشٹر میں دلت ناراض ہوئے تو پولس نے گولی نہیں چلائی بلکہ اپنی جانوں کی قربانی دیدی اور بے بسی کے ساتھ خشت زنی اور سنگ باری کا تماشہ دیکھتی رہی –

  یہ بات ہےمہاراشٹر کے بھیما کورے گاؤں کی جب دلتوں نے مہارجمنٹ کے شہیدوں کی یاد گار منائی اس موقع پردلت مراٹھا حکمراں باجی راؤ پیشوا اور برھمن واد پر اپنی فتح کا جشن ہر سال مناتے ہیں انہوں نے انگریزوں سے مل کر برہمن پیشواؤں کے فوجیوں کو مار گرایا تھا یہ واقعات دوسو برس سے زیادہ کے ہیں اسی طرح کا ملتا جلتا واقعہ گجرات میں  28/دسمبر 2017 کو پیش آیااس کے علاوہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں دلتوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا ہے اور پورے ملک میں دلتوں  کو ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے جس کی نظیریں آئے دن دیکھنے کو کثرت سے ملتی رہتی ہیں؛  ان واقعات کے تناظر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ 2019 کے الیکشن میں حکمراں طبقہ کو شکشت وریخت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اگر دلت اور دیگر پسماندہ طبقات  برھمن واد کے خلا ف یکجا ہوتے ہیں تو زعفرانی طاقتوں کو اقتدار یقینی طور پر خطرہ میں ہے ؛ حکمراں جماعت بھی یہ بات جان چکی ہے کہ دلت اور دیگر پسماندہ  طبقات ناراض ہیں لہذا اس وقت سب سے بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ دلتوں سے کسی بھی طرح سانٹھ گانٹھ کیجائے اور ان کی ناراضگی کو دور کرنے کی کوشش کیجائے چنانچہ  اسی وجہ سے اتر پردیش کے وزیر اعلی نے اپنی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور دلتوں کے گھرجاکر کھانا  کھایا ؛ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دلت یوگی کے کھانا کھانے سے ان مظالم کو بھول جائینگے جو ان پر برسوں سے پورے ملک خصوصا گجرات؛  اتر پردیش  اور دیگر ریاستوں میں کئے جارہے ہیں ۔

اگر 2014 کا الیکشن کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ دلتوں نے یکطرفہ ووٹ کرکے بی جے پی کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا تھا؛  یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک پر گانگریس نے آزادی کے بعد سب سے زیادہ حکومت کی ہے اگر اس کی فتح کا جائزہ لیں تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ برسہا برس تک گانگریس کو دلتوں کی حمایت حاصل رہی ؛  مگر جب سے علاقائی پارٹیوں کا وجود ہوا خصوصا اتر پردیش میں کاشی رام نے دلتوں کی دہائی دی اور انہیں متحد کیا  تو بڑی بڑی پارٹیوں کی چولہیں ہل گئیں؛  کہنا یہ ہے کہ آج ملک میں جس طرح کی سیاست کا رواج چل پڑا ہے وہ ملک کے لئے کارگر نہیں ہے کیونکہ اس ملک کی نمایاں خاصیت یہ ہیکہ جو سیکولر آئین ہمیں ملا ہے اس کے معمار دلتوں کے رہنما باباصاحب امبیڈ کر ہیں؛ دلچسپ بات یہ کہ کچھ فرقہ پرست عناصر نے با با صاحب کے مجسموں کو کئی جگہ زمیں بوس کردیا اور کئی مقام پر ان کے مجسمے کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا اس کے باوجود حکمراں طبقہ دلتوں کی زبانی حمایت کرتےنہیں تھک  رہا ہے؛ ان سے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی عوام سے چاند تارے توڑ کر لانے کے مستقل وعدے کئے جارہے ہیں؛  مگر چار سال گزرنے کے  بعد بھی جتنے وعدے کئے گئے ان میں سے ایک فیصد بھی ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں اور اب ایسا لگتا ہیکہ سیاست میں صرف وعدے کرو اور جملے استعمال کر کے نئے نئے خواب دکھاؤ اور وہ بھی ایسے خواب جن کا حقیقت کی دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو؛ بھلا بتاؤ ایک ہندوستا نی شہری کو پندرہ لاکھ کی عظیم رقم دینے کا وعدہ کیا جو کہ پورے طور پر پرفریب جملہ ثابت ہو۔

  اس لئے آج پورے  طور پرسیاست میں  اخلاقی قدروں کا فقدان ہےنوع انسانیت بری طرح سسک رہی ہے گویا ملک کے منظر نامے پر اقلیتوں اور دلتوں سے بے تحاشا نفرت کا رویہ برتا جارہا ہے  ؛ اگر ملک میں سکون اور اطمینا ن کی فضا بحال کرنی ہے تو ضروری ہے کہ حکمراں  طبقہ کو چاہئے کہ وہ ان فرقہ پرست طاقتوں پر نکیل کسے جو منفی فکر اور عدم رواداری کی فضا کو پروان چڑھا رہے ہیں؛   قابل غور بات یہ ہیکہ ملک بھر کی سیاسی جماعتیں اب دلتوں کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہیکہ  دلت تقریبا  پورے ملک میں سترہ فیصد ہیں جو کسی بھی سیاسی جما عت کے عروج اور تنزلی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں رہا یہ سوال کہ بر سر اقتدار جماعت کے بارے میں دلتوں کا کیا رجحان ہے تو اس سلسلہ میں سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ موجودہ جماعت سے دلت اور دیگر پسماندہ طبقات مطمئن نہیں ہیں یہ الگ بات ہے کہ عین موقع پر حکمراں طبقہ کی طرف سے کوئی جادو کی چھڑی گھوم جائے اور دلت اپنے کئے  ہوئے مظالم  کو بھول جائیں؛ حیرت تو اس بات کی ہےکہ نفرت کی یہ آندھی تھمنے کا نام نہیں لیرہی ہے اور سنگھی فکر سے آلودہ افراد نفرت کی یہ گاز مستقل مسلم اقلیت پر بھی گرارہے ہیں؛

 قارئین کو یاد ہوگا  کہ بی جے پی کے ایک لیڈر سنگیت سوم نے تاج محل کے خلاف زہر اگلا اور اسکو ملک کی تہذیب پر ایک بدنما داغ بتا دیا جس کو غداروں نے تعمیر کیا تھا؛  نیز اس کو ہندوستانی تاریخ میں شامل نہ کرنے کی وکالت تک کر ڈالی؛  کیونکہ ان کا دعوی تھا کہ شاہجہاں ملک سے ہندؤن کا نام و نشان مٹانا چاہتا تھا؛  افسوس اس بات کا ہیکہ ایسے بیانات کو خوب تشہیر ملتی ہے اور اس بیان نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑدی سنگیت نے تو یہاں تک کہدہا کہ اگر ایسے لوگ تاریخ کا حصہ ہیں تو ہم لوگ تاریخ ہی بدل دینگے؛  بالآخر نفرت کے اس ماحول پر پردہ ڈالنے کےلئے اتر پردیش کے وزیراعلی کو خود تاج محل کا دورہ کرنا پڑا اور انہیں کہنا پڑا کہ  تاج محل ایک انمول پیرا ہے جس کو مکمل تحفظ دیا جائے گا؛ بات یہں پر نہیں رکتی ہے بلکہ اور آگے تک جاتی ہے کہ وہ مغل حکمراں جنہوں نے ملک کو قابل رشک عمارتیں دیں جو آج بھی حکومت کے خزانے بھررہی ہیں؛  ان کو صرف اس لئے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہےکہ وہ مسلمان تھے ؛ چند روز پہلے اکبر جیسی شخصیت کے نام.پر قائم دہلی کی ایک سڑک پر مہارانا پرتاب کا پوسٹر لگا کر ملک میں نفرت کا ماحول بپا کیا جانےکی ناکام سعی کی گئی حد تو یہ ہیکہ نفرت پھیلانے والوں کو کوئی روکنے والا بھی نہیں ہے۔

 بدقسمتی یہ ہیکہ ملک کے باوقار عہدوں پر فائز افراد نے نفرت پھیلانےکی سعی کی ہے اور سمجھ رہے  ہیں کہ نفرت کی اس کاشت سے انہیں  بہتر نتائج بر آمد ہونے کی قوی توقع ہے لیکن انہیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ وقتی فائدہ کے ساتھ ساتھ آگے چل کر خود انہیں اس کا نقصان بھگتنا پڑیگا کیونکہ جس دن بھی عوام کا اعتماد چکنا چور ہوا اس دن کوئی بھی نفرت اور مذہب کے نام پر خوف پھیلانے کا تصور بھی ذہن میں نہیں لائے گا؛ ادھر  ملک کا تو اس سے دن بدن شدید نقصان ہوہی رہا ہے یہی وجہ ہے کہ  آج بین الاقوامی سطح پر ہم کافی بدنا م ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

  دنیاکے بڑےبڑے اخبارات ہندوستان میں بڑھتی ہوئی نفرت کو اپناادارتی موضوع بنارہے پیں اور ملک کی سیکولر  اقدار پر مسلسل حملے سے تشویش کا اظہار کرہے ہیں ؛ لہذا ایسے نازک حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ آپسی بھائی چارگی کو فروغ دیں؛  اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی سخت ضرورت ہے نیز کسی بھی طرح کا فرقہ وارانہ ردعمل ظاہر نہ کریں ؛ ہمارا ملک تکثیری سماج پر مبنی ہے جہاں سب مل جل کر رہرہے ہیں اب جو ہورہا ہے وہ چند سالوں کے دوران ہوا پے جو کہ ایک سیاسی کھیل اور نظریاتی جنگ کا نتیجہ ہے جس کا عام انسانوں کی فکر سے کوئی واسطہ نہیں ہے کیونلہ ہندواکثریت میں ایک بہت بڑا طبقہ نفرت اور تشدد کی  نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اس کا مقابلہ بھی کرتا ہے اس لئے ہندوستا ن میں فسطائی طاقتیں بہت آسانی سے ملک اور سماج پر پوری طرح حاوی نہیں ہوسکتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔