چراغ بجھنے لگے، نئے چراغ جل نہ سکے

مدثر احمد

ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی قیادت کرنے والے کئی بزرگ سیاسی رہنماء دنیا سے پردہ کرنے لگے ہیں، ایک کے بعد ایک سیاسی رہنمائوں کی وفات سے ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے جو چراغ آہستہ آہستہ بجھنے لگی ہیں ان چراغوں کی جگہ پر قوم کو روشنی دینے کےلئے نئے چراغ نئی جلائے جارہے ہیں۔ مولانا اسرار الحق قاسمی، سی کے جعفر شریف جیسے قومی سطح کے لیڈروں کی طرح ہی پچھلے دو تین سالوں  میں  درجنوں مسلم سیاسی قائدین اپنی عمر کے تقاضے سے اس دنیا کو خیر آباد کرگئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انکے بعد انکی جگہ لینے والے لیڈروں کی تعداد نہ کہ برابر ہے۔

کہتے ہیں کہ لیڈر و ہ نہیں ہے جو اپنے پیچھے ہزاروں لوگوں کو مجموعہ چھوڑجائے بلکہ لیڈر وہ ہے جو اپنے بعد قیادت کرنے کے لئے سینکڑوں لوگوں کو لیڈر بنا کر جائے۔ مگر ہم مسلمانوں میں ایسی صورت کہیں نہیں ملتی۔ دلت لیڈر مایا وتی کی ہی بات لی جائے کہ کس طرح سے انکے استاد کانشی رام نے دنیا کو چھوڑنے سے پہلے مایاوتی کو ہندوستان کے دلتوں کے لیڈر کے طور پر تیار کیا، اسی طرح سے بال ٹھاکرے کی بات کریں تو انہوں نے اپنے پیچھے اودھو ٹھاکرے، راج ٹھاکرے جیسے نوجوانوں نے بال ٹھاکرے کے جاتے ہی مراٹھوں کی قیادت کی باگ ڈور سنبھال لی، مگر ہم مسلمانوں میں دوسروں کو لیڈر بنانے کی بات تو دور، خود انکےاپنے بچوں کو لیڈر بنانے سے گریز کیا جاتاہے جس کی وجہ سے کچھ عرصے بعد مسلمانوں کے لئے حالات دشوار ہوجاتے ہیں۔

مسلمانوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کو مات دینے کا جذبہ اس طرح سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتاہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ بھی انکے سامنے اور کئی حریف یا دشمن ہیں، مسلمان اگر کسی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اترتے ہیں تو وہ غیروں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنوں کے ساتھ کرتے ہیں بات چاہے کاروبار کی ہویا پھر الیکشن کی، ہر جگہ مقابلہ مسلمانوں کے درمیان ہی ہوتاہے۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو مولانا آزاد، اے آر انتولے، ای موئدو مولوی، یس یم یحی،عزیز سیٹھ  کے بعد  ہندوستان میں ایک بھی قائد مسلمانو ں کی قیادت کے لئے مشہور نہیں ہوا البتہ کچھ سیاسی لیڈران اپنی اپنی پارٹیوں کے مسلم لیڈروں کے طور پر مشہور ہوئے۔ جب تک مسلمانوں کے سیاسی لیڈران پہلے قوم کو ترجیح نہیں دیتے، قوم کے لیڈران نہیں بنتے اس وقت انکی سیاست بے معنی ہوگی اور انکی سیاست اسوقت بھی بے معنی ہوگی جب تک کہ وہ اپنے بعد قیادت کرنے کے لئے نوجوانوں کو لیڈر کے طورپر تیار نہیں کرتے۔

دلی سے لے کر کیرل تک، بنگال سے لے کر گجرات تک کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو اس بات کا احساس ہوگا کہ مسلمان سیاست میں کس قدر چاپلوس ہیں، نوجوان اپنا قائد کسی مسلمان کو نہیں مانتے بلکہ یادو، برہمن، لنگایت، گوڈا اور دلتوں کو مانتے ہیں اور خود مسلم لیڈران اپنے ماتحت رہنے والے نوجوانوں کو لیڈرشپ کے گر سکھا کر انہیں لیڈر بنانے کے بجائے اپنے لئے فدائین بنالیتے ہیں جس کا خمیازہ ہی آج مسلم قوم اٹھارہی ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کے مسائل حل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب مسلمانوں کے کچھ گروہ اور حلقے صرف انتخابات میں ہی سرگرم ہوتے ہیں اور انتخابات کے بعد انکا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہتاان میں علماء نما شخصیات بھی ہیں، سماجی کارکنان بھی ہیں اور عام سیاسی نوجوان بھی ہیں۔ وہ انتخابات کے موقعوں پر پیکیج کے حساب سے کام کرتے ہیں، اتنے پیسے دیں تو اتنے علاقوں کا دورہ کیا جائیگا، اتنے پیسے ملتے ہیں تو اتنے ووٹ دلوائے جائینگے۔ پیسوں کے لین دین میں انکی اپنی اوقات کھودیتے ہیں اور جب انتخابات میں کوئی پارٹی جیت کر آجاتی ہے تو وہ ان پیڈ لیڈروں اور علماء کی کسی بھی بات کو اہمیت نہیں دیتے اور اگر کچھ کہا بھی جائے تو یہ کہہ کر انہیں نظر انداز کردیا جاتاہے کہ الیکشن میں ہمارے لئے کام کیا ہے تو مفت میں نہیں کیا ہے بلکہ محنت کے عوض اجر ت دے دی گئی ہے۔ ان حالات میں مسلمان اگر لیڈر بن بھی پائیں تو کیسے؟

کرناٹک کی مثال ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لئے ہے، پچھلے اسمبلی انتخابات کے دوران کرناٹک کی کئی مسلم سیاسی، ملـی، سماجی جماعتوں نے باقاعدہ طورپر کانگریس پارٹی کو تائید کرنے کے لئے مہم چلاتے رہے، پروگرام منعقد کئے مگر جب نتائج آئے اور مخلوط حکومت اقتدار میں آئی تو جے ڈی یس کے وزیر اعلیٰ کمار سوامی مسلمانوں کے معاملات کو سرے سے نظر انداز کردیا اور بغیر کہے ہی بہت کچھ کرنے لگےجس میں مسلمانوں کا ہی نقصان ہورہاہے۔

مسلمانوں سے جڑی ہوئی کئی روایتوں کو کمار سوامی نے ٹھکرا دیا جس میں کر ناٹکا حج کمیٹی کی جانب سے حج کے قافلے کو روانہ کرنے کے لئے منعقد کئے جانے والے جلسے سے غائب رہے، عید میلاد النبیﷺ کے مرکزی جلسے میں غیر موجود گی، ٹیپو جینتی کے موقع پر غیر حاضر ہوتے ہوئے انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا کہ جب مسلمان پوری طرح سے کانگریس کے ہیں تو کیوں کر ہم انکے ساتھ رہیں۔ اگر مسلمانوں میں سیاسی شعور لانا ہے اور مسلمانوں کو سیاست میں آگے لانا ہے تو اسکے لئے مسلمانوں کو سیاسی حکمتوں کا سہارا لینا ہوگا اور دوسرے سطح کی لیڈر شپ کو ہمیشہ تیار کرنا ہوگا۔جس طرح سے واجپائی، اڈوانی، مورلی منوہر جوشی جیسے بھاجپائی رہنمائوں نے گڈکری، راجناتھ سنگھ، نریندر مودی کو دوسرے مرحلے کے لیڈروں کے طورپر تربیت کرتے ہوئے انہیں آج پہلے مرحلے کے لیڈروں کی فہرست میں جمع کھڑا کیاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔