چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

ڈاکٹرسلیم خان

چراغ بجھنے کے لیے ہی جلتے ہیں  لیکن کچھ چراغوں کے بجھنے پر ان کے ذریعہ پھیلنے والے اجالےکا ذکر کرکے مزید روشنی بڑھائی  جاتی ہے اور کچھ کےگل ہوجانے  پر صرف ماتم کیا جاتا ہے۔ فی الحال ملک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے پانچ لوگوں کی گرفتاری پر ہنگامہ برپا ہے۔ ہرکوئی بجا طور پر  صدائے احتجاج بلند کررہا ہےاورامت بھی ہمیشہ کی طرحسب کے ساتھ ہے لیکن جب یہی سب ہمارے ساتھ ہوتا ہے تو کم ہی لوگ ساتھ آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم صرف غم و غصے کا اظہار  پر اکتفاء کرتے ہیں اور حوصلے کے ساتھ  آگے نہیں بڑھتے۔ آج ظلم و ناانصافی کا شکار جس قدر دوسرے لوگ ہورہے ہیں اس سے زیادہ اہل ایمان ہوتے ہیں  لیکن جس طرح کالبرگی، پانسرے، دابھولکر اور گوری کو یاد کرکے جوش اور ولولہ حاصل کیا جاتا ہے اس طرح ہمارے شہیدوں سے ترغیب نہیں لی جاتی۔ اس کی ایک وجہ  ممکن  ہے ہمارا ماتمی طرز فکر ہو۔ ہم اپنی مظلومیت کے بیان میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ  ترغیب و ترہیب کا پہلو دب کے رہ جاتا ہے اور چہار جانب  خوف ومایوسی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔

ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے اس کا بیان ناگزیر ہے لیکن اس فرض منصبی کو ادا کرتے ہوئے ہم نادانستہ دشمنوں کا آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ ہمارادشمن چاہتاہے  کہ امت  دہشت زدہ ہوکر مایوسی کا شکار  ہوجائے اس لیے وہ ازخود  اپنے مظالم کی ویڈیو بناکر سوشیل میڈیا پر ڈال دیتاہے۔ سوشیل میڈیا کی نقص یہ ہے کہ اس کے ذریعہ غیروں کی صفوں داخل ہوکر اپنے مقاصد کا حصول بہت مشکل ہے الاً یہ کہ کسی طرح اس کو اپنا ساجھی دار بنالیا جائے۔ ہمارے معاملے میں انہیں کوئی خاص محنت درکار نہیں ہوتی اس لیے ہم خود دشمنوں کو بدنام کرنے کے جوش اور مظلومین کی خیرخواہی  میں اپنےقلم کی جولانی سے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کردیتےہیں۔ عدو کا کام ہوجاتا ہے کیونکہ  مایوسی پھیل جاتی ہے۔ جہاں تک اس کو بدنام کرنے کا سوال ہے ہمارے  واٹس ایپ پیغامات شاذونادر ہی ان کے گروپس تک رسائی حاصل  کرپاتے ہیں اس لیے کہ وہ اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ہماری فیس بک وال پر بھی وہ نہیں پھٹکتے۔ کسی بھولے بھٹکے کا اگر اُدھر سے گذر بھی ہوجائے تو اردو میں ہماری تلخ و تیز تحریر اس کے پلےّ نہیں پڑتی۔

اسلام کے دشمنوں کو پتہ ہے کہ  اس خوف دہشت کے ماحول میں ظالموں سے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ ملت اسلامیہ  کے سوا کسی اور میں نہیں ہے۔ یہ محض خام خیالی نہیں ہے۔ ہادیہ کے معاملے میں شفعین جہان  کی استقامت ہمارے سامنے ہے۔ کوئی اور ہوتا تو ہادیہ سے کہہ دیتا کیا کریں تمہارا خاندان اور تمہارا سماج ہماری دشمن ہے۔ صوبائی عدالت اور مرکزی حکومت ہمارے خلاف صف آراء ہے اس لیے’وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا‘۔ کوئی یہ ابلیسی مشورہ بھی دے سکتا تھا چونکہ آئین میں رشتۂ ازدواج کے بغیر ساتھ رہنے کی اجازت ہے اس لیے ہم اپنی شادی کا انکار کرکے ساتھ رہ لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شفعین عدالت عظمیٰ میں پہنچ گیا۔ ہادیہ ایک چٹان کی طرح اس کے ساتھ کھڑی  رہی اور مشکل ترین حالات میںانہوں  نے فتح کا پرچم لہرایا۔ ڈاکٹر کفیل ہمارے سامنے ہیں  کہ  یوگی جیسے جابر حکمراں کے خلاف اپنی بیباک حق گوئی کے سببڈاکٹروں  میں وہ سب سے پہلے رہا ہوئے اور اپنے بھائی پر جان لیوا حملے کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے ان ہیروز کی پذیرائی کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں اس لیے کہ مظلومیت کا رونا رونے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ ایک سے فارغ ہوتے ہیں دوسری میں مصروف ہو  جاتے ہیں۔

عزیمت کے سلسلے کی ایک روشن  مثال  پرویز پرواز ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ  پرویز کسی شاعر کا  نام اور پرواز اس کا  تخلص ہوگا۔ جی نہیں ۶۳ سالہ پرویز وہ شخص ہے جو گزشتہ ۱۱سال سے یوگی ادیتیہ ناتھ کے خلاف مقدمہ  لڑ رہا  ہے۔ حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ یوگی جی کے وزیراعلیٰ بن جانے کے باوجود اس کے پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی بلکہ یہ ہے  کہ پرویز کا تفصیلی تعارف ہفنگٹن پوسٹ کی صحافیہ بیتوا شرما کے ذریعہ اخبارات کی زینت بنا۔ ایسے بہت سارے مظلومین ہیں کہ جن کانام جاننے کے لیے ان کی تصویر ہی کافی ہے لیکن مجھے یقین ہے اگر تین تصاویر کے درمیان پرویز کی تصویر رکھ دی جائے  تو کم ہی لوگ اس بہادر جیالےکو پہچان پائیں گےجس نے اپنی جان کی پرواہ کبھی نہیں کی اور اپنے اپنے موقف قائم و دائم رہا۔

 اترپردیش میں آج کل خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ لکھنو یونیورسٹی میں پروفیسر کو زدو کوب  کرنے والے پرشانت مشرا کوجب  تھانیدارابھئےسنگھنے جھولے لال میدان میں  اٹل کلش یاترا کے اندر  گرفتار کرلیا تو وہ مدد کے لیے گہار لگانے لگا۔ اس کا شور سن کر رکن اسمبلی کے اویناش ترویدی کا قافلہ رک گیا۔ ترویدی نے ابھئے سنگھ  کو شاباشی دینے کے بجائے ڈرایا دھمکایا۔  وہ  نہیں مانے تو بی جے پی  کے غنڈے  فرض شناس نڈر پولس افسر پر ٹوٹ پڑے اورمارپیٹ کراپنے ساتھی پرشانت  مشرا کو چھڑاکر لے گئے۔ موقع واردات پر اعلیٰ پولس افسر موجود تھے مگر وہ اپنے ساتھی کی مدد کے لیے آگے آنے کی ہمت نہیں کرسکے۔ ایسے میں پرویز کا وزیراعلیٰ کے سامنے ڈٹ جانا اور الہ باد ہائی کورٹ میں ناکامی کے بعد عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن ہم ایسے جیالوں کی قدر دانی نہیں کرتے۔

ہجومی تشدد کی ویسے تو بہت سارے واقعات بجا طور پر ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں لیکن ایک دلچسپ واقعہ نہ جانے کیسے نظر انداز ہوگیا۔ مہاراشٹر کے منماڑ میں ایک ہجوم نے پانچ ہندو افراد کو بچہ چوری کے الزام میں گھیر لیا اور پٹائی شروع کردی۔ اس سے پہلے کہ وہ لوگ اپنی جان گنوا بیٹھتے فرشتہ صفت وسیم وہاں پہنچ گیا۔ اس نےمشتعل ہجوم  کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بےقصور لوگ بچہ چور نہیں ہیں لیکن جب  لوگوں کا غصہ کم نہیں ہوا تو اس نے اپنی جان کی بازی لگا کرانہیں اپنے گھر میں پناہ دی۔ ہجوم نے وسیم کا گھر گھیر لیا۔ پولس آئی تو ہجوم نے مطالبہ کیا کہ پانچوں  کو ان کے حوالے کیا جائے۔ بھیڑ  پر قابو پانے کے لیے پولس کو طاقت کا استعمال کرنا  پڑا۔ ایڈیشنل پولس سپرنٹنڈنٹ ہرش پوددار نے تصدیق کی کہ وسیم کی دلیری کے سبب ان لوگوں کی جان بچی۔ موجودہ حالات میں اس طرح کے واقعات شاذونادر ہی وقوع پذیر ہوں گے مگر ان سے صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس نقطۂ نظر کو کچھ لوگ امت  کی بیداری  کے خلاف افیون پلا کر مدہوش کرنے سے تعبیر کرتے ہیں لیکن اسوۂ رسول میں ہمیں اعتدال و توازن کی تعلیم ملتی ہے۔ مکہ مکرمہ کے مشکل حالات میں جبکہ اہل ایمان شدید ترین ایذا رسانیوں کا شکار تھے ایک دن حضرتخباب بن ارتؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ سے آپ دعا کیوں نہیں فرماتے؟ اس پر آپ ؐ سیدھے بیٹھ گئے۔ چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں کہ لوہے کے کنگھوں کو ان کے گوشت اور پٹھوں سے گزار کر ان کی ہڈیوں تک پہنچا دیا گیا اور یہ معاملہ بھی انہیں دین سے نہ پھیر سکا، کسی کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے اور یہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا، اس دین اسلام کو تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دن تمام و کمال تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہو گا۔ نبی ٔ کریمؐ نے  اس نازک موقع پرجس طرح اپنے صحابی کا حوصلہ بڑھایا اور تابناک  مستقبل کی بشارت فرمائی اس میں ہماری رہنمائی کا سامان ہے۔ ہمیں دوسروں کے حقوق کے لیے بھی آگے بڑھ کر  لڑنا چاہیے اور اپنے حقوق کی جنگ میں بھی دوسروں کو پروقار انداز میں شامل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔