چلتی ٹرین میں 16 سالہ جنید کا قتل

محمد وسیم احمد

بٹلہ ہاوس، اوکهلا، نئی دہلی سے خریداری کر کے لوٹ رہے چار نوجوان ابهی دہلی سے ٹرین میں بیٹھ کر ہریانہ کے بلب گڑھ پہونچے ہی تهے کہ ٹرین میں تنازع ہو گیا۔ ہندوؤں کی بهیڑ نے ان کے لئے گوشت خور، غدار وطن اور ملا جیسے الفاظ کا استعمال کیا، اس کے بعد ہندوؤں کی بهیڑ نے چاقووں سے حملہ کر کے 16 سالہ حافظِ قرآن جنید کو قتل کر ڈالا۔ چونکانے والی بات تو یہ ہے کہ جنید نے جس بزرگ کو سیٹ دی تهی پہلا حملہ اسی نے کیا، بقیہ تین نوجوان بهی شدید زخمی ہیں۔ ہندوؤں کی بهیڑ کے خلاف کوئی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھا، اس طرح سے ہندوستان میں بهیڑ کے ذریعے سے ایک اور مسلمان کا قتل ہوا۔ مرکزی حکومت اس پر بالکل خاموش ہے، کوئی سخت کارروائی کرنے کے بجائے بهیڑ کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ مودی اور یوگی حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں میں بهی بی جے پی کی حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہے- ایسے وقت میں میڈیا صحیح رخ بیان کرنے کے بجائے ایک مخصوص طبقے اور پارٹی کی دلالی میں لگا ہوا ہے، میڈیا ان کے غلط کاموں کو صحیح کہنے میں دن رات لگا ہوا ہے۔

ابهی چند دنوں پہلے بجنور میں چلتی ٹرین میں ایک روزے دار مسلم خاتون کی عصمت دری کی گئی تهی، اعتکاف میں بیٹھے 70 سالہ بزرگ کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اب ہریانہ کی ٹرین میں 16 سالہ حافظِ قرآن جنید کو ہندوؤں کی بهیڑ نے قتل کر دیا، اس کے علاوہ بھی کئی مسلمانوں کو بهیڑ نے قتل کیا مگر میڈیا، مرکزی اور صوبائی حکومتیں سخت قدم اٹھانے سے انکار کر رہی ہیں۔ جنید کے خلاف کہا گیا کہ یہ تو گوشت خور ہے مگر ان ظالموں اور غنڈوں کو کوئی بتائے کہ روزے دار روزے کے درمیان بھوکا پیاسا رہتا ہے اور رضائے الٰہی کی خاطر وہ لذیذ سے لذیذ کهانے کو بھی ہاتھ نہیں لگاتا، مگر چرند و پرند اور بے جان مخلوق کی پوجا کرنے والوں کو کون سمجھائے؟ مرکزی حکومت اور نہ ہی ریل انتظامیہ یہ سوچنے کے لئے تیار ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ جو ٹرینوں میں بهیڑ کی شکل میں چاقو اور ہتھیار لے کر گھومتے ہیں اور لوگوں پر حملہ کرتے ہیں۔

عید الفطر کے دن پورے ملک میں جنید کے حق میں آوازیں اٹهیں، اس کے لئے دعائیں کی گئیں، ان کے گهر والوں سے اظہارِ یکجہتی کی گئی، سوشل میڈیا پر ظالموں اور غنڈوں کے خلاف جم کر غصے کا اظہار کیا گیا، مگر ہوگا کیا ؟ کچھ بهی نہیں، دن گزریں گے اور سب بهول جائیں گے، پهر کوئی مارا جائے گا، پهر احتجاج کریں گے، اس کے بعد پهر سب ختم، مگر ان گهرانوں سے پوچھئے ! ان کے دل پر زندگی بهر کیا گزرے گی ؟ جنید روزے دار تها، عید قریب تهی، خوش تها، خوشی لازمی تهی، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عید کے دن مومن کو خوشی ہوتی ہے، وہ عید کے لئے خوشی خوشی تیاریاں کرتا ہے اور نئے کپڑوں کا انتظام کرتا ہے- جنید اسی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت تیاریاں کر رہا تھا، مگر اسے کیا پتہ تھا کہ یہ عید اس کے نصیب میں نہیں ہے، چنانچہ ساری خریداری کر کے گهر کے قریب ہی تها کہ بهیڑ نے اسے ہمیشہ کی نیند سلا دیا، یہ عید نہ اسے نصیب ہوئی اور نہ اس کے گهر والوں کے لئے خوشی کا ذریعہ بنی، سچ تو یہ ہے کہ عید کے دو دن پہلے جنید کے قتل نے ہندوستان کے مسلمانوں کو مغموم کر دیا ہے۔

قارئینِ کرام ! 16 سالہ حافظِ قرآن جنید کو ہندوؤں کی بهیڑ نے ہریانہ میں چلتی ٹرین میں قتل کر دیا، مگر سوال یہ ہے کہ کتنے اور مسلمان اپنوں سے دور بهیڑ کی نظر ہو جائیں گے اور ہم کچھ نہیں کر پائیں گے ؟ آخر مسلم قائدین کیوں متحد ہو کر آواز نہیں اٹھاتے ؟ جمعیتِ اہلِ حدیث، جمعیتِ علمائے ہند، جماعتِ اسلامی، جمعیتِ علماےء شباب کے سربراہان کیوں نہیں سڑکوں پر آتے ؟ کیا انهیں ڈر ہے ؟ اگر انهیں ڈر ہے تو کس بات کا ؟ اگر قوم کے سربراہان، علماےء کرام، دانشوران اور جماعت و جمعیت کے ذمہ داران منصوبہ بندی کریں، حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، احتجاجی مظاہرے کریں اور جنتر منتر پر متحد ہو کر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، تو کیا کوئی انهیں مار دے گا ؟ نہیں، ہرگز نہیں، ظلم کے خلاف متحد ہو کر میدان میں آئیں، پهر دیکھتے ہیں کہ ان بهیڑ کی ماؤں نے انهیں کتنا دودھ پلایا ہے ؟ گائے کا پیشاب پینے والی قوم کو مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے ہر ہاتھ کو توڑ کر رکھ دیا جائے گا، ہر عمل کا ردِ عمل خوفناک ہوگا-

آخر میں آپ لوگوں سے ! ہاں آپ لوگوں سے ! کہنا چاہتا ہوں کہ بهیڑیں دو طرح کی ہیں – ایک بڑی بهیڑ جو گجرات، آسام اور مظفر نگر وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل عام کر چکی ہے- دوسری چھوٹی بهیڑ جو ٹرینوں اور مختلف جگہوں پر گاےء کے نام پر مسلمانوں کا قتل کر رہی ہے- وقت آ گیا ہے کہ دونوں طرح کی بهیڑوں کے بڑھتے قدم کو روکا جائے- ورنہ وہ دن دور نہیں جب بڑی بهیڑ کا نشانہ ہمارے علاقے ہوں گے اور چھوٹی بهیڑ کا نشانہ خود ہم ہوں گے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔