بے بس انسان

محمد شمشاد

میں بیدار نہیں ہوں پھر بھی لوگ مجھے بیدار کہتے ہیں ان لوگوں نے میرا نام بیدار کیوں رکھا مجھے اس کا علم نہیں اور نہ ہی کبھی اس راز کو میں نے جاننے کی کوشش کی۔ پہلے پہل مجھے بہت برا لگاتھا لیکن بار بار سنتے سنتے مجھے بھی یہ نام پسندآنے لگا۔ آخر کار میں نے اسے اپنے نام کے ساتھ جوڑا دیا اورگائوں کے سارے لوگ میرے اصل نام کو بھول گئے اس طرح میں بیدار بن گیا۔

بیدار اردو زبان کا معتبر لفظ ہے جسے لوگ بہت ہی عزت کے ساتھ اور کوئی خاص موقع پر استعمال کیا کرتے ہیں ۔ شاید اسی بنا پر میرے والدین نے مجھے اسی نام سے بلانانا پسند کیا ہوحالانکہ میں بیدار کے بالکل برعکس ثابت ہوا ہوں ۔ دراصل بیدار اس شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو سماج کے نشیب و فراز سے با خبر ہو۔ سماج کی تاریکیوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ یعنی صراۃ مستقیم اختیار کرلے اور تمام لوگوں کو اس راہ پر چلنے کی تلقین کرتار ہے۔ ویسے بھی میری پرانی عادت ہے کہ میں سماج کے پرانے رسم و رواج کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ پر چل نکلتا ہوں مجھے اس کا زرا بھی پرواہ نہیں کہ میرے اس طورطریقہ اور رویہ پر سماج مجھے دھتکاریگی اورسماج کے ان ٹھکیداروں کے ذریعہ مجھے دہریااور ملحد جیسے خطابات سے نواز دیا جائیگا شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سماج کے اسی طبقہ کے دقیا نوسی رہنمائوں نے اقبال جیسے عظیم شاعر اور سر سید جیسے عظیم مفکر کو بھی نہیں بخشا تھا جب ان لوگوں نے اپنے قوم کے پرانے روایات کی تنقید کی تھی تو میں کون ہوتا ہوں ؟ اسے برا بھلا ماننے والا میں تو ایک ادنیٰ انسان ہوں مجھے فخر ہے کہ میں ایسا دہر یا ہوں۔

میں شروع سے ہی آزاد خیال انسان ثابت ہوا ہوں اور اسی وجہ کر میں اپنے خیالوں اور اظہار رائے کے درمیان کسی کو آنے نہیں دیتا یہاں تک کہ اپنے خاندان والوں کو بھی نہیں جب بھی ان کی بات مجھے بری لگتی ہے تو دو ٹوک جواب دینے کی ہر ممکن کو شش کرتا ہوں یہی وجہ ہے کہ مرتے دم تک میں اپنے والدین کو کبھی خوش نہ رکھ سکا اور وہ میری خاطر اپنے دل میں تمنا لیے ہوئے مر گئے۔ ان کی موت کا مجھ پر ذرا بھی اثر نہیں ہوا۔ بس تھوڑے دیر کے لیے افسوس ضرورہوا کہ میرے ابا مر گئے انہیں منوں مئی کے نیچے دفنا دیا گیا اور بھارت کی تین گز زمیں یونہی بیکار ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں ایک انسان ہوں اور جب بھی ایک اچھا آدمی مرتا ہے تو دنیا کا ایک باب کا خاتمہ ہو جاتا ہے اسکا مجھے افسوس ضرورہوتا ہے اچھے انسانوں کی دنیا میں بہت کمی ہے میرے ابا بھی بہت اچھے اور نیک و شریف انسان تھے۔

میں محنت کش انسان ہوں اسی لیے میں سبھوں سے محنت چاہتا ہوں یہی میری زندگی کا واحد مقصد ہے میرے دل میں ایک ہی خواہش رہتی ہے کہ میں اپنے وطن کے لیے کام کروں اوراسی پر مر جائوں اسکے علاوہ میری کوئی اور خواہش نہیں ، نہ ہی میں کچھ اور سوچتا ہوں میں نے اپنے بیوی اور بچے کا بھی خیال نہیں رکھتا یہاں تک کہ تن بدن کا بھی نہیں ۔ ’’صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔ زندگی یونہی تمام ہوتی ہے‘‘

اور …اور اس طرح میں دن رات محنت و مشقت کرتا ہوا ایک ادارہ کا ڈائریکٹر بن گیا۔ مجھے ایسی کوئی امید نہیں تھی کہ میں اتنی اونچی چوٹی پر جا بیٹھونگا۔ اور ایک مشہورومعروف ادا رہ کا حاکم بن جائونگا سچ پوچھئے تو میں اس ادا رہ کا حاکم نہیں بلکہ ایک ملازم ہوں ۔ وہاں بورڈ ہے اور اسکے اپنے قوانین و ضوابط ہیں لیکن بورڈ کے افراد میرے کام سے کافی خوش ہیں ان میں کوئی مجھ سے ناراض نہیں اور اس طرح میں ان کا نور نظر بن گیا ہوں ۔

میں حکم نہیں چلاتا اورنہ ہی اس کا عادی ہوں میں کس کا خوشامد بھی نہیں کرتا اور نہ ہی کبھی کسی حاکمیت کی پیروی کرتا ہوں ۔ اسکے باوجود میری باتوں سے کوئی انکار نہیں کرتا میرا حکم جاری ہوتے ہی سبھی سرنگوں کھڑے ہو جاتے ہیں پتہ نہیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں وہ مجھ سے اتناڈرتے کیوں ہیں جبکہ میں انہیں کبھی ڈراتا یا دھمکاتا بھی نہیں ۔ کبھی کبھی میں انکے اس رویہ سے خوش بھی ہوتا ہوں کہ وہ مجھ سے اتنا زیادہ ڈرتے ہیں جتنا لوگ خدا سے بھی نہیں ڈرتے لیکن ڈر بھی لگتا ہے کہ یہ خاموشی کسی بغاوت کا اشارہ ہے اور یہی بغاوت میری بدنامی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

میری ایک بیٹی ہے میرے خاندان کی اکلوتی اولاد ،اسکے علاوہ خدا نے مجھے کوئی اور اولاد نہیں دیا لیکن وہ بڑی آزاد خیال ہے ٹھیک میری طرح، وہ بھی میری طرح آزاد رہتی ہے۔ مجھے اس بات کا زرا بھی افسوس نہیں کہ وہ اتنی آزاد کیوں ہے۔ اس کے اسی رویہ کے بنا پر میں نے اس کا نام آزاد رکھ دیا۔ حالانکہ بچپن میں اس کا نام کچھ اور ہی تھا لیکن آج وہ اس نام سے سارے شہر میں جانی پہچانی جاتی ہے۔

میرے خیال میں وہ بالکل میرے ہی نقش قدم پر گئی ہے تبھی تو وہ اس طرح آزاد خیال نکلی حالانکہ اسکے اس آزاد رویہ کے بنا پر میری بہت بدنامی ہوئی ہے۔ سماج میں میرا سر نیچا ہو گیا ہے لوگ مجھے اب ’’کوٹھے والی کا باپ‘‘ کہنے لگے ہیں جبکہ میرا اس پر کوئی بس نہیں چلتا اور نہ ہی اسکے اس کام میں میرا کوئی دخل ہے اور اب میرا اس سے دور کا بھی رشتہ نہیں رہ گیا ہے۔ میں دن رات ادارہ کے دفتر میں بیٹھا کام کرتا رہتا ہوں میں اس سے ملتا بھی نہیں ۔ پھر بھی کہنے والوں کی زبان کون روک سکتا ہے؟ وہ میرے اس کارنامے کا زرا بھی خیال نہیں رکھتے کہ میں نے اس ادارہ کو ایک عالمی مقام پر عطا کر دیا۔ پھر بھی وہ کہہ ہی دیتے ہیں کہ’’دیکھوکوٹھے والی کا باپ آرہا ہے ‘‘۔

میں سوچتا ہوں کہ آزاد کو بلا کر اسے خوب ڈانٹ ڈپٹ کر وں اور اس کی خبر لوں کہ اس نے ایسا کام کیوں کیا؟ اس نے اس کے علاوہ کوئی اور پیشہ کیوں نہیں اختیار کیا؟ اسے یہی کام کیوں پسند آیا؟ لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے’’ آپ ہی نے کہا تھا کہ اپنی شہرت  کے لیے کچھ بھی کر لوں یہاں تک کہ اپنے جسم کی بھی بازی لگا دوں تو میں نے کون سی غلطی کی؟ میں اس کے ذریعہ خوب روپیہ کمائوں گی اور اپنی دولت کے ذریعہ پوری دنیا کو اپنے پیروں کے نیچے کردونگی‘‘ہاں میں نے بھی اتنی ساری کوششیں اپنی شہرت کے خاطر ہی کی ہیں اسی لیے میں نے آزاد خیال ہونے کا ڈھونگ رچا۔ اسی وجہ کر میں نے کسی کو بھی نہیں بخشا یہاں تک کہ اپنے مذہب اور اس کی آسمانی کتاب کو بھی نہیں ، خدا کے بتائے ہوئے احکام پر چلنے سے بھی انکار کر دیا شاید اسی کا پھل ہے یا خدا کی مار کہ میری اکلوتی بیٹی آزاد نے مجھے نہیں بخشا۔

آج میرے پاس سب کچھ ہے عزت دولت اور شہرت دنیا میں کون سی ایسی چیز ہے جو میرے پاس نہیں ہے پھر بھی میں سماج کے سامنے جانے سے ڈرتا ہوں میں کسی محفل یا مجلس میں نہیں جاتا اور نہ ہی کسی جلسہ سے خطاب کرنے جاتا ہوں مجھے ڈر ہے کہ وہاں بھی کوئی مجھے ’’کوٹھے والی کا باپ‘‘ نہ کہہ دے اور اسی وجہ کر میں آفس سے باہر قدم بھی نہیں رکھتا کہیں کوئی مدعو کرتا ہے تو وہاں بھی جانے سے کتراتا ہوں یہاں تک کہ گورنرہائوس اور وزراء کے گھر بھی نہیں ہر وقت مجھے ڈرلگا رہتا ہے کہ کہیں وہاں بھی آزاد کا کوئی پروگرام چل رہا ہو۔

میں بے بس ہوں اپنے اس نظریہ سے ،مجھے افسوس آتا ہے اس آزادخیال نظریہ اور اپنی بے بسی پر کہ اس نے مجھے ایک ایسے گڑھے میں جاگرایا ہے جہاں سے نکلنا میرے لیے کافی مشکل ہے میں سوچتا ہوں کہ اب میں کیا کروں ؟ کہاں جاؤں ؟ لیکن مجھے کوئی جگہ نہیں ملتی جہاں میں جاکر اپنی سر چھپا سکوں اور …… اور میں اس طرح تڑپ اٹھتا ہوں ۔

اور …… اور اب میں مرنے کے قریب پہنچ چکا ہوں بالکل قریب اس وقت میریی سانس اوپر نیچے ہو رہی ہے اور میرے بستر کے قریب بیٹھی ہوئی بیوی میری صحت کے لیے دعائیں کر رہی ہے۔ وہ بارہا آزاد کو بلانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تاکہ وہ مجھ سے آخری ملاقات کرجائے لیکن میں منع کر دیتا ہوں حالانکہ ایسا نہیں کہ میں اس سے ملنا نہیں چاہتا وہ میرے دل کا ٹکرا ہے میرے جگر کا ٹکرا میرا دل اس وقت تڑپ اٹھتا ہے لیکن میں کچھ سوچ کر ………

اور پھر …… مجھے اپنے والدین کی یادیں ستانے لگتیں ہیں سماج کی وہ باتیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگتیں ہیں ۔ میں نے بھی اپنے والدین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا جیسا کہ اب مجھے محسوس ہو رہا ہے اس وقت مجھے اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوا تھا کہ ان پر کیا گزرتی ہوگی لیکن آج مجھے اپنے کیے پر ہی پچھتاوا ہو رہا ہے مگر اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔ اب تو میں خدا کے بارگاہ میں توبہ کرنے کے قابل بھی نہیں اور …… اور پھر میری زبان سے ایکایک نکل پڑتا ہے میں بیدار نہیں !…… تاریک ہوں میں بالکل تاریک۔

تبصرے بند ہیں۔