چمن میں اختلافِ رنگ و بو سے بات بنتی ہے!

عبدالعزیز

 اس وقت تک ایک خاص ذہن ایک خاص نظریہ اور ایک خاص رنگ کی مرکز میں حکومت ہے۔ مرکز کے علاوہ بھی اسی ذہنیت اور اسی خاص رنگ و بو کی بہت سی ریاستوں میں حکومت ہے اگر چہ اس کی ایک مادر آرگنائزیشن ہے اور اس کے لاتعداد سماجی بچے ہیں ۔ ایک سیاسی بچہ ہے جو جواں ہوچکا ہے۔ اس میں جواں فکری بھی ہے، اس بچہ کا نام بی جے پی ہے۔ اس کا ایک صاحب یا سربراہ ہے۔ صاحب کا ایک غلام ہے ، دونوں نے مل کر اپنی مادر آرگنائزیشن اور مادر کے بچہ آرگنائزیشن خواہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی سب کو اپنے دست رس میں کرلیا ہے۔ کوئی اس میں چوں و چرا کرنے والا نہیں ہے۔ جو کرتا ہے اسے جلد باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ چھوٹے بڑے سب اس کی غلامی میں اسیر نظر آتے ہیں ۔

جب بھی کسی ملک، محلہ ، جماعت میں اس طرح کی ذہنیت ابھرتی ہے تو شعراء و ادبا، فلاسفر، دانشور، سیاستداں ، سائنسداں اس خاص ذہنیت اور ضدی ذہنیت کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر شاعر بھی تھے۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زد عام و خاص ہیں ۔ ان کے استاذ ذوق کا یہ شعر کل بھی بہت پڑھا جاتا تھا اور آج بھی بہت پڑھا لکھا جاتا ہے۔ یہ شعر معرکۃ الآراء ہی نہیں بلکہ یہ شعر ایک کتاب کے برابر ہے۔ اگر اس موضوع پر ایک کتاب لکھی جائے تو میرے خیال سے یہ شعر جس قدر معنی خیز و پُر اثر اور نتیجہ آفریں ہے، اس کے برابر ایک کتاب بھی نہیں ہوسکتی۔ غور سے سننے اور سوچنے اور یاد کرکے دوسروں تک پہنچائیے ، ممکن ہو تو اس خاص ذہنیت کے لوگوں کو سنائیے جو پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں جس کی وجہ سے ہنگامہ برپا ہی نہیں بلکہ جو ان کے خلاف ہے یا ان سے اختلاف کرتا ہے اس کی جان کے دشمن ہیں ۔ شعر کیا ہے؟ ملاحظہ ہو  ؎

گلہائے رنگ رنگ میں ہے زینت چمن کی

 اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

 ہمارے اردو کے شعراء نے اس موضوع کو ہر زمانے میں زندہ و جاوید رکھنے کی کوششیں کی ہیں یعنی اس ضدی اور جنونی ذہنیت کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی، خواہ کوئی زمانہ ہو۔

 شادؔ عظیم آبادی کو دیکھئے کس انداز سے اس ذہن خاص کو سمجھاتے ہیں  ؎

نہ دیکھے اے چمن دو پھول تجھ میں ایک صورت کے

 جو صورت مل گئی بو باس دونوں کی جدا پائی

شاعر سرشار سیلانی تو ایسا لگتا ہے کہ آج اس مخصوص ذہنیت سے راست طور پر مخاطب ہیں  ؎

 چمن میں اختلاف ر نگ و بو سے بات بنتی ہے

ہمیں ہم ہیں تمہی تم ہو تو کیا تم ہو

علامہ اقبالؒ کی ایک نظم ’’جگنو‘‘ سے نظم کے آخری حصہ میں ملاحظہ فرمائیے ۔ کتنے پیارے اور موثر انداز سے اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے:

پروانہ اک پتنگا ، جگنو بھی اک پتنگا

وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا

ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی

پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی

رنگیں نوا بنایا مرغانِ بے زباں کو

گل کو زبان دے کر تعلیم خامشی دی

نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی

چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی

رنگیں کیا سحر کو، بانکی دلہن کی صورت

پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی

سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہواکو

پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی

یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری

جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے،غنچے میں وہ چٹک ہے

یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا

واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے

اندازِ گفتگو نے دھوکے دیئے ہیں ، ورنہ

نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے

کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کا راز مخفی

جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟

ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیِ ازل ہو

 ضرورت ہے کہ اس مخصوص ذہنیت کو ہر طرح سے نثر سے، شعر و شاعری سے، تقریر و تحریر سے سمجھانے کی؛ حتی الامکان کوشش کی جائے۔ یہ ایک فریضہ ہے جس کی ادائیگی یا ذمہ داری سے آج کے حالات میں گریز کرنا مناسب نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ اس ملک میں اس مخصوص ذہنیت سے نبرد آزما ہیں وہ اول درجہ میں کمیونسٹ ، سیکولرسٹ اور ڈیمو کریٹس ہیں ۔ اس لڑائی میں یہ سب سے آگے ہیں اور یہ اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر لڑ رہے سر بکف اور شمشیر بکف ہیں ۔ اسی لئے اس مخصوص ذہنیت کے لوگ ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ سیاسی میدانوں ، تعلیمی اداروں اور سڑکوں پر جسے Hit Street کہتے ہیں ، سب میدانوں میں ان کے خلاف اترے ہوئے ہیں ۔ کانگریس ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس مخصوص ذہنیت کی زندگی کانگریس کی موت ہے اور کانگریس کی زندگی اس مخصوص ذہنیت کی موت ہے۔ لہٰذا کانگریس کا اس مخصوص ذہنیت سے لڑنا اس کی مجبوری اور Compulsion ہے۔

 دلت طبقہ اس مخصوص ذہنیت کے نشانے پر ہے وہ بھی لڑنے بھڑنے، مرنے جینے کیلئے تیار ہے۔

 مسلمان اس مخصوص ذہنیت کا پہلے ہی سے نشانہ پر ہے۔ اس کا مذہب ، اس کا شعار، اس کی تہذیب، اس کا کلچر اور تمدن، تعلیم و ثقافت سب نشانے پر ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کی عزت و آبرو، جان و مال سب نشانے پر ہیں مگر مسلمان ایک خاص وجہ سے نہ دلتوں کی طرح اس مخصوص ذہنیت سے لڑنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی کمیونسٹوں کی طرح میدان کار زار میں اترا ہوا ہے، وہ اپنے مرنے والوں کا تماشہ دیکھ رہا ہے یا اپنے مرنے والوں کا جنازہ اپنے کندھوں پر لئے ہوئے نظر آرہا ہے۔

میری رائے میں موجودہ اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرنے کیلئے ہر ایک کو روشنی یا سراپا روشنی بننا ہوگا۔ مسلمان بدقسمتی سے کم عقل، کم ذہن، کم پڑھا لکھا ہے، اس لئے اسے تین طلاق، لو جہاد، گھر واپسی، بندے ماترم جیسے non-issueوالے مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو جس طرح کمیونسٹ ، ملک میں رہ کر آزادی چاہتے ہیں ۔ غریبی ،بھکمری، جہالت، بیماری اور ہر طرح کی غلامی سے مسلمانوں کو بھی غلامی کے مقابلے میں آزادی کا نعرہ دینا چاہئے۔ انگریزوں کی غلامی کے خلاف مولانا ابوالکلام آزادؒ اور ہمارے ہزاروں علماء کرام لڑے تھے۔ مولانا اس غلامی کو ختم کرنے کیلئے اس دور میں کس طرح کی باتیں کرتے تھے۔ ملاحظہ فرمائیے:

 ’’انسان کی محبوبات و مالوفات کے اٹکاؤ ایک نہیں بے شمار ہیں ۔ اس کی گردن پر الفتوں کے طوق کا بوجھ ہے۔ اس کے پاؤں غلامی کی زنجیروں سے گراں بار ہے۔ اس کا دل چاروں طرف سے صدہا قسم کی کششوں کا نشانہ ہے۔ ہر زنجیر کے بندھن پر مرتا اور ہر علاقہ کی الفت میں اسیر رہنا چاہتا ہے۔

  تو اب اصلی کام یہ ہوا کہ یہ ساری بندشیں کٹیں اور پرستشیں ما سوا اللہ کی ساری زنجیریں ٹوٹیں ‘‘۔ دیکھئے مولانا نے کس طرح غلامی سے آزاد ہونے کیلئے توحید کی دعوت، ایک خدا کی دعوت ، دعوت الی اللہ دی ہے اور سمجھایا ہے کہ غلامی سے وہی شخص آزاد ہوسکتا ہے جو ایک خدا کا پجاری اور عابد ہے۔

علامہ اقبالؒ نے اس زمانے میں اپنی باتوں کوبہت طرح سے کہی ہیں ۔ مولانا کی ساری باتوں کو ایک شعر میں ڈھال دیا ہے۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

 ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کونجات

علامہ اقبال نے نہ صرف یہ کہا ہے کہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ بلکہ یہ کہہ کر انگریزوں کو سمجھایا ہے کہ

اس سے بڑھ کر اور کیا دل و نگاہ کا انقلاب

بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں

علامہ اقبال نے یہ بھی کہا ہے  ع

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

سلمانوں کو خاص طور سے نصیحت کی ہے کہ انگریزوں یا یا حق کے دشمنوں کے خلاف  ؎

یقیں محکم، عمل پیہم،محبت فاتح عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

علامہ اقبالؒ نے ہندستانیوں سے مخاطب ہوکر یہ پیغام دیا تھا ؎

 غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں

جو ہو ذوقِ یقیں تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

آخر میں علامہ اقبال کا ایک شعر پڑھتا ہوں جس سے آج کی چنگیزیت خواہ دنیا میں ہے یا ہندستان میں ہے اور کیوں ہے سمجھ میں آجائے گا۔

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

علامہ اقبال نے اس چنگیزی یا فرعونیت کے سدباب کیلئے بہت کچھ کہا ہے ۔ ایک شعر کا مصرع ملاحظہ فرمائیے  ؎

سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

 دوسرا مصرع آپ کے ذہن میں ہوگا، اسے پڑھ لیجئے شعر مکمل ہوجائے گا اور اپنی منزل سے بھی آپ آشنا ہوجائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔