شخصیتِ انسانی کا امتیاز

ڈاکٹر محمد رفعت

انسانی شخصیت  کے بارے میں غور کرنے والے اس امر پر تو متفق ہیں کہ انسان محض طبعی اور جسمانی وجود نہیں ہے، بلکہ اس کی شخصیت، مادّی سطح سے بالاتر واقع ہوئی ہے۔ البتہ اس امر میں اُن میں اختلاف ہے کہ انسانی وجود کے ان اعلیٰ اور بلند تر پہلوؤں کی صحیح تعبیر کیا ہے۔ انسان کی ماہیت کے بارے میں سوچنے والوں میں جو افراد، انکارِ غیب کا رجحان رکھتے ہیں وہ انسانی شخصیت کے طبعی اور مادّی پہلوؤں کے علاوہ عموماً  صرف یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ انسان غور وفکر اور تجزیے کی صلاحیت رکھتا ہے، ادراک و شعور کی لطیف قوتوں سے بہرہ ور ہے اور اس کے اندر جمالیاتی حس پائی جاتی ہے لیکن اس سطح سے آگے، وہ انسان کے اندر مادّی خصوصیات سے بالاتر، کسی وصف کی شناخت سے قاصر ہیں۔ ان کے تخیئل کی پرواز، اس حد سے بلند نہیں ہو نے پاتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ انسانی شخصیت کی درست اور جامع تفہیم کے لیے محض اتنی بلندی پرواز کافی نہیں بلکہ یہ معرفت ضروری ہے کہ انسان اللہ کا عبد اور زمین میں اس کا خلیفہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس معرفت کے حصول کے لیے عالمِ غیب کی حقیقتوں کو تسلیم کرنا لازمی شرط ہے۔

جو افراد غیب کا انکا رکردیں وہ لازماً انسانی شخصیت کی صحیح معرفت سے محروم رہیں گے، چنانچہ انسانوں کی تربیت اور انسانی شخصیت کے ارتقاء کے لیے جو منصوبہ بھی وہ بنائیں گے وہ ناقص ہوگا۔ اور تعلیم و تربیت کی ضرورت کو پورا نہ کرسکے گا۔

اس موضوع پر غور کرتے ہوئے چند بنیادی سوالات سے تعرض ضروری ہے:

(الف)     غیب سے کیا مراد ہے؟

(ب)       حقائقِ غیب کے سلسلے میں درست علمی رویہ کیا ہے؟

(ج)        عبد اور عبادت کا کیا مفہوم ہے؟

(د)          زمین کی خلافت سے کیا مراد ہے؟

(ہ)          غیب کے سلسلے میں مختلف رویوں کے انسانی شخصیت پر کیا اثرات پڑتے ہیں ؟

غیب کا مفہوم:

جوکائنات ہمارے گردوپیش موجود ہے، اس کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ انسانی قوتِ ادراک کے اعتبار سے کائنات کے دو پہلو ہیں ، عالمِ غیب اور عالمِ شہادت۔ قرآن مجید میں ہے:

ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمo(الحشر: 22)

’’وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ پوشیدہ (غیب) اور ظاہر (شہادت) کا علم رکھنے والا ہے۔ وہ بڑا مہربان اور انتہائی رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے کامل علم کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو عالمِ غیب اور عالمِ شہادت دونوں کو محیط ہے۔ اب جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ  سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ، وہ ذرائع ہیں جو انسان کو علم حاصل کرنے کے لیے دیے گئے ہیں :

وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولـئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُلاo   (بنی اسرائیل: 36)

’’اور کسی ایسی بات کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہیں ۔ بے شک کان، آنکھ اور دل، ان سب کی باز پرس ہونی ہے۔‘‘

انسان کو سننے، دیکھنے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی صورت میں پانچ حواس حاصل ہیں ، ان میں اوّل الذکر دو ، جو سب سے نمایاں ہیں ، اُن کا تذکرہ اس آیت میں کیا گیا ہے۔ انسان اشیاء کے وجود اور اُن کی خصوصیات کے ادراک کے لیے سمع و بصر کے ذرائع کو استعمال کرتا ہے پھر فواد (جو انسان کی ذہنی قوتوں کا مرکز ہے) ان ابتدائی معلومات کو ترتیب دے کر انسان کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ بیان بنادیتا ہے۔ اس تشریح سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو حقائق، حواس کے دائرہ ادراک سے باہر ہیں ، اُن کے بارے میں انسان کوئی علم اپنے حواس کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتا۔

بالفاظِ دیگر حواس کے ذریعے حاصل اور فواد کے ذریعے مرتب ہونے والے علم کا تعلق کائنات کے اُس پہلو سے ہے، جسے عالمِ شہادت کہا گیا ہے۔ اس عالمِ شہادت کے علاوہ کائنات کے وہ سارے پہلو، جو انسان کے حواس کی گرفت میں نہیں آتے، وہ سب انسان کے لیے ’’غیب‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لیے قرآنِ مجید میں پچھلی قوموں کے واقعات کو بھی غیب کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرچہ پچھلی قوموں کے آثار دنیا میں موجود ہیں لیکن بہرحال ان کے احوال، براہِ راست ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہیں ۔

اس کی مثال حضرت مریمؑ کا واقعہ ہے۔ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کہتا ہے:

ذَلِکَ مِنْ أَنبَاء  الْغَیْبِ نُوحِیْہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُون أَقْلاَمَہُمْ أَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا کُنتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یَخْتَصِمُونo(آل عمران:44)

’’یہ غیب کی خبریں ہیں جو (اے نبی ﷺ) ہم تم کو وحی کے ذریعے سنارہے ہیں ، ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے، جب وہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل کے معاملات کے ذمہ دار افراد) اپنے قلم ڈال (کر قرعہ اندازی کر) رہے تھے، یہ طے کرنے کے لیے کہ مریم کی پرورش کون کرے۔ اور تم اس وقت موجود نہ تھے، جب اس سلسلے میں ان لوگوں میں اختلاف برپا تھا۔‘‘

غیب کے سلسلے میں درست رویہ:

عالمِ غیب سے انسان کو ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے تجسس کا دائرہ محض دکھائی دینے والی اشیاء تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ مخفی اور بالاتر حقائق کو بھی جاننا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بسا اوقات اُن ذرائع پر بھی اعتماد کرلیتا ہے جو درحقیقت اعتماد کے قابل نہیں ہوتے۔ قرآنِ مجید بتاتا ہے کہ بعض شیاطینِ جن، فرشتوں کی مجلس کے قریب پہنچ کر کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی کبھی (مشیتِ الٰہی کے تحت) ایک آدھ بات اُن کی گرفت میں آ بھی جاتی ہے۔ ان ادھوری معلومات کو وہ (شیاطینِ انس میں سے) اپنے دوست کاہنوں کے سپرد کرتے ہیں ۔ یہ کاہن ان معلوما ت کے ذریعے سے کہانت کا کاروبار جماتے ہیں اور ناواقف انسانوں کا استحصال بھی کرتے ہیں اور انھیں گمراہی میں بھی ڈالتے ہیں :

 إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء  الدُّنْیَا بِزِیْنَۃٍ الْکَوَاکِبِ o وَحِفْظاً مِّن کُلِّ شَیْطَانٍ مَّارِدٍ o لَا یَسَّمَّعُونَ إِلَی الْمَلَإِ الْأَعْلَی وَیُقْذَفُونَ مِن کُلِّ جَانِبٍ oدُحُوراً وَلَہُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ o إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ۔ (الصافات: 6-10)

’’ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور ہر سرکش شیطان (جن) سے اس کو محفوظ کردیا۔ یہ شیاطین، ملائِ اعلیٰ کی کوئی بات نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے پھٹکارے اور بھگائے  جاتے ہیں اور ان کے لیے ہمیشگی کا عذاب ہے۔ الا یہ کہ ان میں سے کوئی ایک آدھ بات اچک لے۔ تو پھر ایک روشن شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔‘‘

خود جنوں نے اپنی ان سرگرمیوں کا اعتراف کیا ہے:

 وَأَنَّہُ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ یَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوہُمْ رَہَقاًo وَأَنَّہُمْ ظَنُّوا کَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن یَبْعَثَ اللَّہُ أَحَداً ۔ وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاء  فَوَجَدْنَاہَا مُلِئَتْ حَرَساً شَدِیْداً وَشُہُباً ۔ وَأَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَن یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَہُ شِہَاباً رَّصَداً(الجن:6-9)

’’(جنوں نے کہا کہ) بہت سے انسان، جنوں کی پناہ لیتے تھے تو پھر جن اور زیادہ سرکشی کرنے لگے۔ ان (انسانوں ) کا یہ بھی خیال تھا جیسا کہ تمہارا (یعنی جنوں کا) خیال تھا کہ اللہ کسی مخلوق کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا۔ اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا (تاکہ  حسبِ معمول کچھ غیبی خبریں جا ننے کی کوشش کریں ) لیکن ہم نے اس میں سخت پہرہ پایا اور انگارے دیکھے۔ پہلے ہم گھات لگا کر (غیبی خبریں ) سننے کے لیے بیٹھتے تھے لیکن اب ہم میں سے کوئی کچھ سننا چاہتا ہے تو ایک روشن شعلے کو اپنی راہ میں حائل پاتا ہے۔‘‘

قرآنِ مجید کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نبی ﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوا تو شیاطینِ جن کی دوڑ دھوپ پر (جو وہ غیبی خبریں جاننے کی غرض سے فرشتوں کی مجلس تک پہنچنے کے لیے کرتے تھے) سخت پابندی لگادی گئی اور اُن کے لیے ایک آدھ بات اچک لے جانا بھی ممکن نہ رہا۔ البتہ نزولِ وحی سے قبل (اور آپ نبی ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد) شیاطینِ جن کے لیے کچھ ادھوری معلومات کا حصول ممکن تھا جن کو وہ کاہنوں کے حوالے کرتے تھے۔

امورِ غیب کے سلسلے میں تین رویے ممکن ہیں :

(الف) غیب کا انکار

(ب) غیب کے حقائق جاننے کے لیے شیاطین پر(مثلاً کاہنوں پر) اعتماد (جو شیاطین جن سے حاصل شدہ ادھوری معلومات کے ساتھ اپنی من گھڑت باتیں ملا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں )

(ج) انبیاء علیہم السلام پر ایمان۔

قرآن مجید بتاتا ہے کہ صرف تیسرا رویہ معقول ہے۔ ہدایت صرف اُن کو مل سکتی ہے جو غیب پر ایمان لائیں :

الم o ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلوٰۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ o    (البقرۃ: 1-3)

’’الف لام میم۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی  شک نہیں ، ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔‘‘

غیب پر ایمان کی تشریح کرتے ہوئے جناب شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں :

’’(ہدایت پانے والے افراد ایسے ہیں کہ ) جو چیزیں اُن کی عقل و حواس سے مخفی ہیں (جیسے جنت، دوزخ، ملائکہ وغیرہ) اُن سب کو اللہ اور اس کے رسول کے ارشاد کی وجہ سے حق اور یقینی سمجھتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان امورِ غیبیہ کا منکر، ہدایت سے محروم ہے۔‘‘

عبد اور عبادت:

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی محققانہ تصنیف ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں عبادت کے مفہوم کے سلسلے میں نفیس بحث کی ہے۔ اس بحث کا مطالعہ عبادت کے معنی سمجھنے کے لیے بہت مفید ہوگا۔ مولانا فرماتے ہیں :

’’مادہ ’عبد‘ کا اساسی مفہوم، کسی کی بالادستی و برتری تسلیم کرکے اس کے مقابلے میں اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار ہوجانا، سرتابی و مزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہوجانا ہے۔ یہی حقیقت بندگی اور غلامی کی ہے۔ لہٰذا اس لفظ (عبادت) سے اولین تصور جو ایک عرب کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، وہ بندگی و غلامی کا تصور ہے۔اب چونکہ غلام کا اصلی کام اپنے آقا کی اطاعت و فرماں برداری ہے، اس لیے لازماً اس (غلامی) کے ساتھ ہی اطاعت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور جب ایک غلام، اپنے آقا کی بندگی و اطاعت میں محض اپنے آپ کو سپرد ہی نہ کرچکا ہو، بلکہ اعتقاداً اس کی برتری کا قائل اور اس کی بزرگی کا معترف بھی ہو، اور اس کی مہربانیوں پر شکر و احسان مندی کے جذبے سے بھی سرشار ہو، تو وہ اس کی تعظیم و تکریم میں مبالغہ کرتا ہے۔

(چنانچہ وہ اپنے محسن آقا کے سامنے) مختلف طریقوں سے اعترافِ نعمت کا اظہار کرتا ہے اور طرح طرح سے مراسمِ بندگی بجالاتا ہے۔ اسی کا نام پرستش ہے۔ یہ تصور، عبدیت کے مفہوم میں اس وقت شامل ہوتا ہے، جبکہ غلام کا محض سر ہی آقا  کے سامنے جھکا ہوا نہ ہو، بلکہ اس کا دل بھی جھکا ہوا ہو۔‘‘     (’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘)

عبادت کے مندرجہ بالا تین مفاہیم کا جامع تذکرہ، مولانا نے سورہ فاتحہ کی تفسیر میں کیا ہے:

’’عبادت کا لفظ، عربی زبان میں تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

(1) پوجا اور پرستش

(2) اطاعت اور فرماں برداری

(3) بندگی اور غلامی

اس مقام پر (سورہ فاتحہ کی آیت 4 میں ) تینوں معنی بیک وقت مراد ہیں یعنی ہم (سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنے والے) تیرے ہی پرستار بھی ہیں ، مطیعِ فرمان بھی اور بندہ و غلام بھی اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ ہم تیرے ساتھ یہ تعلق رکھتے ہیں ۔ بلکہ واقعی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ تعلق — صرف تیرے ہی ساتھ ہے۔ ان تینوں معنوں میں سے کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا ہمارا معبود نہیں ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ فاتحہ، حاشیہ: 6)

عبادت کرنے والی مخلوقات میں انسانوں کے علاوہ فرشتے اور جن بھی شامل ہیں ۔ قرآنِ مجید میں ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون(الذاریات: 56)

’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘

 اسی طرح عبادت کرنے والی مخلوقات (عباد) میں قرآن مجید نے فرشتوں کو شامل کیا ہے:

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً سُبْحَانَہُ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُونَo لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونo یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَی وَہُم مِّنْ خَشْیَتِہِ مُشْفِقُونَ (الانبیاء 26-28)

’’(یہ مشرکین) کہتے ہیں کہ ’’رحمان، اولاد رکھتا ہے۔‘‘ سبحان اللہ! وہ (یعنی فرشتے) تو بندے (عباد) ہیں ، جنھیں عزت دی گئی ہے۔ اس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ جو کچھ ان (فرشتوں ) کے سامنے ہے اسے بھی وہ (اللہ) جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ باخبر ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے سوائے اس کے، جس کے حق میں سفارش سننے کے لیے اللہ راضی ہو۔ اور وہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں ۔‘‘

خلافت:

البتہ یہ خصوصیت صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ عبد (بندے) ہونے کے علاوہ زمین میں اللہ کاخلیفہ بھی ہے:

وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیْمo   (الانعام: 165)

’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بہت تیز ہے اور بہت در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔‘‘

خلافت کے مفہوم کے مختلف پہلوؤں کو اہلِ علم نے اس طرح بیان کیا ہے:

(1) ’’وہ(خلیفہ) میرا نائب ہوگا کہ اپنے احکامِ شرعیہ کے اجزاء و نفاذ کی خدمت اس کے سپرد کروں گا۔‘‘ (مولانا اشرف علی تھانویؒ)

(2) ’’ عبادت میں ملائکہ اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ معصوم ہیں ۔ مگرعلم میں چونکہ انسان سے کم ہیں ، اس لیے مرتبہ خلافت انسان ہی کو عطا ہوا۔ عبادت تو خاصہ مخلوقات ہے، خدا کی صفت نہیں ۔ البتہ علم، خدائے تعالیٰ کی صفتِ اعلیٰ ہے، اس لیے قابلِ خلافت انسان ہوئے۔ کیونکہ ہر خلیفہ میں اپنے ’’متخلف عنہ‘‘ کا کمال ہونا ضروری ہے۔‘‘ (مولانا شبیر احمد عثمانیؒ)

(3) ’’خلیفہ (سے مراد ہے) وہ جو کسی کی مِلک میں اُس کے تفویض کردہ اختیارات کو اُس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ، مالک نہیں ہوتا بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔‘‘ (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

(4) ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ کے معنی ہوں گے کہ اللہ کے دیے ہوئے اختیارات اس کی مرضی کے مطابق، انسان استعمال کرے، تاکہ دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن جائے۔‘‘  (حافظ صلاح الدین یوسف)

انسانی شخصیت کے ارتقاء اور تکمیلِ ذات کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دونوں حیثیتوں کے تقاضے پورے کرے۔ عبد ہونے کے بھی اور زمین میں خلیفہ ہونے کے بھی۔

انکارِ غیب کے مہلک نتائج:

کتابِ ہدایت — قرآنِ مجید، کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان — غیب پر ایمان لائے۔ جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں :

’’غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی، براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں ، مثلاً خدا کی ذات و صفات، ملائکہ، وحی، جنت، دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی، ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔

جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو، صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا، جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ البقرۃ، حاشیہ 4)

عالمِ غیب کی اعلیٰ ترین حقیقت خود اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآنِ مجید بتاتا ہے کہ اللہ کو بھول جانا، انسان کے لیے تباہ کن ہے:

 وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ أُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ  (الحشر: 19)

 ’’ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں خود اپنا نفس بھلا دیا۔ یہی لوگ فاسق ہیں ۔‘‘

جناب صلاح الدین یوسف، اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اللہ نے … انہیں ایسا کردیا کہ وہ ایسے کاموں سے غافل ہوگئے ، جن میں ان کا فائدہ تھا اور جن کے ذریعے وہ اپنے نفسوں کو عذابِ الٰہی سے بچاسکتے تھے۔ یوں انسان، خدا فراموشی سے خود فراموشی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی عقل، اس کی صحیح رہنمائی نہیں کرتی۔ آنکھیں اس کو حق کا راستہ نہیں دکھاتیں اور اس کے کان، حق کے سننے سے بہرہ ہوجاتے ہیں ۔ نتیجتاً اس سے ایسے کام سرزد ہوتے ہیں ، جن میں اس کی اپنی تباہی و بربادی ہوتی ہے۔‘‘

جناب شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں :

’’جنھوں نے اللہ کے حقوق بھلادیے، اس کی یاد سے غفلت اور بے پروائی برتی۔ اللہ نے خود اُن کی جانوں سے اُن کو غافل اور بے خبر کردیا کہ آنے والی آفات سے اپنے بچاؤ کی کچھ فکر، انھوں نے نہ کی اور نافرمانیوں میں غرق ہوکر دائمی خسارے اور ابدی ہلاکت میں پڑگئے۔‘‘

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، سورہ حشر کی مندرجہ بالا آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں :

’’خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ، خود فراموشی ہے۔ جب آدمی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کا بندہ ہے تو لازماً وہ دنیا میں اپنی ایک غلط حیثیت متعین کربیٹھتا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی بنیادی غلط فہمی کے باعث غلط ہوکر رہ جاتی ہے۔

اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا، کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس ایک کی بندگی تو نہیں کرتا (جس کا وہ درحقیقت بندہ ہے) اور ان بہت سوں کی بندگی کرتا رہتا ہے، جن کا وہ فی الواقع بندہ نہیں ہے۔ یہ ایک عظیم اور ہمہ گیر غلط فہمی ہے جو اس کی ساری زندگی غلط کرکے رکھ دیتی ہے۔

انسان کا اصل مقام، دنیا میں یہ ہے کہ وہ بندہ ہے، آزاد وخود مختار نہیں ہے اور صرف ایک خدا کا بندہ ہے، اس کے سوا کسی اور کا بندہ نہیں ہے۔ جو شخص اس بات کو نہیں جانتا، وہ حقیقت میں خود اپنے آپ کو نہیں جانتا۔

اور جو شخص، اس (حقیقت کو) جاننے کے باوجود، کسی لمحہ بھی اسے فراموش کربیٹھتا ہے، اسی لمحے کوئی ایسی حرکت، اس سے سرزد ہوسکتی ہے جو کسی منکر یا مشرک یعنی خود فراموش انسان ہی کے کرنے کی ہوتی ہے۔ صحیح راستے پر انسان کے ثابت قدم رہنے کا پورا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے خدا یاد رہے۔ اس سے غافل ہوتے ہی وہ اپنے آپ سے غافل ہوجاتا ہے اور یہی غفلت اسے فاسق بنادیتی ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ الحشر، حاشیہ: 30)

جو لوگ فی الواقع، انسانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے خواہش مند ہیں ، ان کو چاہیے کہ ایمان بالغیب کی ناگزیریت سے عالمِ انسانیت کو آگاہ کریں ۔ جب انسان خدا کے بندے ہونے اور زمین میں خلیفہ ہونے کے تقاضے جان لیں گے، تبھی ان کی شخصیت کا متوازن ارتقا ہوسکے گا اور تکمیلِ ذات کی طرف وہ قدم بڑھا سکیں گے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    انسانی شخصیت کی تعمیر

    مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر تین مراحل میں ہوتی ہے؛ پہلا مرحلہ تو پیدائشی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کچھ خصلتیں (personality traits) پیدائشی طور اپنے ساتھ لے کر آتا ہے، چاہے وہ اچھی ہوں یا بری۔ کوئی پیدائشی طور نرم مزاج ہے اور کوئی پیدائشی طور غصے والا مزاج رکھتا ہے۔ یہ پیدائشی خصلتیں انسان کو عموما وراثت میں ملتی ہیں جو جینز (genes) کے ذریعے آباء واجداد سے ٹرانفسر ہوتی چلی آ رہی ہوتی ہیں۔ اپنی شخصیت کی اس تعمیر میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے البتہ اس کی اصلاح میں میں کچھ کردار ضرور ادا کر سکتا ہوں۔

    دوسرا مرحلہ پیدائش سے بلوغت یا شعور کی عمر تک کا ہے۔ اس مرحلے میں انسان بہت کچھ بنتا اور بگڑتا ہے اور اس کے بننے اور بگڑنے میں ایک اہم کردار اس کے ماحول کا ہوتا ہے۔ پس ایک شخصیت تو وہ ہے جو انسان لے کر آیا ہے اور دوسری وہ ہے جو اس کے ماحول نے بنائی ہے۔ اس کے والدین، اس کے بہن بھائی، اس کے محلے دار، پڑوسی اور رشتہ دار اس کی شخصیت کی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں۔ میری یہ شخصیت بھی میں نے نہیں بنائی، ماحول کے اثر سے یا اس کے ردعمل میں بنی ہے۔

    مثال کے طور پر ایک انسان بچپن میں کتوں سے ڈر گیا تو اب کتوں کا ڈر وہ زندگی بھر اپنے ساتھ لیے پھرے گا کہ یہ اس کے لاشعور میں بیٹھ گیا ہے۔ یہ ڈر اور خوف وہ پیدائشی طور اپنے ساتھ نہیں لے کر آیا ہے۔ اسی طرح ایک بچی اپنے بچپن میں اپنے والد کا اپنی والدہ کے ساتھ برا رویہ دیکھ کر مرد بیزار ہو گئی تو یہ مرد بیزاری شادی کے بعد بھی اس کی شخصیت کا کسی نہ کسی درجے میں حصہ رہے گی۔

    انسان کی شخصیت کی تعمیر کا تیسرا مرحلہ اس کی شعور کی عمر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ انسان شعور کی عمر کے بعد بھی بہت کچھ بنتا اور بگڑتا ہے، اس کی سادہ سی مثال وہ گناہ گار شخص ہے جو سچی توبہ کرنے کے بعد نیک بن جاتا ہے جیسا کہ کسی ڈاکو نے توبہ کر لی اور تسبیح ہاتھ میں پکڑ لی۔ انسانی کی شخصیت کی تعمیر چونکہ اس کے شعور کے سامنے ہو رہی ہوتی ہے لہذا اسے اپنی اس شخصیت کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ لہذا جب اس شخصیت کا علم ہے تو اس کی اصلاح بھی کر سکتا ہے۔

    جہاں تک پیدائشی شخصیت کا معاملہ ہے تو انسان کو عموما اس کا بھی شعور ہوتا ہے لیکن انسان اس کے سامنے عموما یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیتا ہے کہ میں پیدائشی طور ایسا ہوں، اپنی اصلاح نہیں کر سکتا۔ لیکن پیدائشی خصلتوں کا ازالہ (elimination) نہ سہی تو امالہ (tilt) ضرور ممکن ہے۔ البتہ جو بچپن سے شعور کے عمر کی شخصیت ہے جو عموما ماحول کے اثر کے تحت تیار ہوتی ہے، وہ انسان کے لاشعور کا حصہ ہوتی ہے لہذا اس کو جانچنے کے لیے فرائیڈ کی سائیکو اینالسس کی تھیوری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ عموما جب آپ کو اپنا آپ سمجھ نہیں آ رہا ہوتا تو وہ آپ کی شخصیت کا یہ مرحلہ ہوتا ہے جو خود آپ کے سامنے بھی نہیں ہے یعنی آپ کے لاشعور میں ہوتا ہے۔

    شخصیت کی پہلے مرحلے کے بارے حدیث میں آتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی مٹی زمین کے مختلف حصوں سے لی گئی تو کسی جگہ سے زمین سخت تھی اور کہیں سے نرم تو یہ سختی اور نرمی آدم کی اولاد میں بھی آ گئی۔ اور شخصیت کے دوسرے مرحلے کے بارے حدیث میں ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ اور شخصیت کے تیسرے مرحلے کے بارے حدیث میں ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ جیسے کبھی گناہ کیا ہی نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں۔