چمکی بخار اور دیگر امراض سے بچوں کی موت

سلمان عبدالصمد

بہار میں چمکی بخار سے فوت ہونے والے بچوں کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے۔ اس سے نہ صرف ڈاکٹر وں کی سرد مہری کا اندازہ ہوتا ہے،بلکہ حکومت وانتظامیہ کی غیر سنجیدگی بھی واضح ہورہی ہے۔ حکومت کی یہ بدترین پالیسی بھی ہے کہ حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر مقدمات عائد کیے جارہے ہیں۔ حالیہ دنوں بہار میں تقریبا دو سو بچوں کی ہونے والی موت نے حکومت کی پالیسی اور شعبۂ طب کی تساہلی کو بے نقاب کردیا ہے۔ اس حادثے سے حکومت بہار کی شبیہ ضرور مسخ ہو ئی،تاہم گزشتہ اعداد وشمار کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر ریاستوں میں بھی بچوں کے علاج کا معاملہ تشویشنا ک رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی دل دہلانے والی ہے کہ دارالحکومت دہلی میں اسپتال کلاوتی سرن چائلڈ میں پانچ برسوں کے درمیان 10ہزار 81معصوموں نے دم توڑدی۔ جب کہ صفدر جنگ اسپتال میں 5ہزار 960 اورآر ایم ایل اسپتال میں 1 ہزار34بچوں کی موت ہوئی۔ حق اطلاعات قانون کے ذریعہ اس کا انکشاف ہوا تھا اور آج بھی مختلف ویب سائٹس پر اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سابق مرکزی وزیر برائے ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر غلام بنی آزاد نے پارلیمنٹ میں کہا کہ تھا کہ 2008سے 31جولائی 2012تک مذکورہ کلاوتی ہاسپٹل میں تقریباً 1لاکھ 3778کو داخل اسپتال کیا گیا تھا ، جس میں 10ہزار 81کا انتقال ہوگیا۔

اس دل دوز حقیقت کے انکشاف کے بعد قومی حقوق انسانی کمیشن بیدارہوا تھا اوراس معاملہ کی تحقیقات کے لئے ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جسے بچوں کی موت کی وجوہات اوراسپتال میں موجود ہ سہولتوں سمیت مختلف پہلووں پر جانچ کر نا تھی، مگر اغلب اب تک اس کی کمیشن نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ شعبۂ طب کا معاملہ مختلف ریاستوں میں بہار جیسا ہی ہے۔ اس لیے ملکی سطح پر سنجیدگی سے مہم چلانے کی ضرورت ہے،تاکہ شعبہ طب میں تھوڑی بہت شفافیت آجائے۔ آج بہار کے اسپتال اور شعبۂ طب کے متعلق بات ہورہی ہے۔ حالاں کہ ان ایشوز پر ہر وقت بیداری مہم چلانا لازمی ہے۔ کیوں کہ جہاں بہت سے امراض وبائی اورموسمی ہوتے ہیں ، وہیں بہت سے غیر موسمی ہوتے ہیں اور امراض سے متاثر ہونے والے بھی مخصوص افرادنہیں ہوتے۔ اس لیے شعبہ طب میں شفافیت لانے کے لیے مسلسل مہم چلانا ضروری ہے، تاکہ پورا معاشرہ مستفید ہوسکے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈر ن سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ ہندوستان کے لیے مایوس کن ہے۔ کیوں کہ پیدا ہوتے ہی بچوں کے فوت ہوجانے کے معاملہ میں ہندوستا ن سرفہرست ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں پیدائش کے دن ہی مرنے والے بچوں کی کل تعداد کا 29 فیصد حصہ ہندوستان سے ہے۔ ہر سال یہاں کل 309000 بچے پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر اندر ہی مار دئے جاتے ہیں۔ دوسرے نمبرنائجیریا ہے جہاں ہر سال 89700 بچوں کی پیدائش کے پہلے دن ہی موت ہو جاتی ہے۔ فہرست میں نائیجیریا کے بعد علی الترتیب پاکستان 59800، چین50600، کانگو48400، ایتھوپیا 28800، بنگلہ دیش 28100، انڈونیشیا 23400، افغانستان18000اور تنزانیہ 17000 کا مقام ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ہندوستان میں ہر 170 میں سے ایک ماں کی زندگی کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ نیپال میں یہ تعداد 90 میں سے ایک کا ہے۔ اس میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ پورے جنوبی ایشیا میں تقریبا 420000 بچوں کی پیدائش کے پہلے ہی دن موت ہو جاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں چارمنٹ میں 5بچوں کی موت ہوتی ہے۔ یہ بھی افسوس ناک پہلویہ ہے کہ یہ اموات زیادہ تر ان بیماریوں کے سبب ہو رہی ہیں جن کو روکا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نمونیہ اور ڈینگو سے ، مگر پھر بھی کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ اس کا الزام سیدھا مرکزی اور ریاستی سرکاروں اور ساتھ میں پبلک سیکٹر فارمیسی کمپنیوں کو بھی جاتا ہے۔ جان ہاپکن یونیورسٹی نے اندازہ لگایا ہے کہ ہندوستان میں 3.71 لاکھ شیر خوار بچے ہر سال نمونیہ سے مرجاتے ہیں۔ اس کی تحقیقات نے مزید بتایا کہ دنیا میں نمونیہ سے مرنے والا ہر چوتھا بچہ ہندوستانی ہے! یہ تصویرسب صحاری افریقہ ،پاکستان اور یہاں تک کہ افغانستان سے بھی زیادہ تاریک ہے۔ اس بیماری کا گردن توڑ پھیلاؤ اس وجہ سے ہے کہ ہندوستانی حکومت نے نمونیہ کی جدید ترین قسموں کو متعارف کرانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ، جس سے اس بیماری کی 23 اقسام کو کا میابی کے ساتھ پھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔

غریبوں کے لیے بدعنوانی کے معاملے میں سرکاری اور غیر سرکاری اسپتال ایک جیسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے متعدد اس معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے احکامات جاری کیے۔ ستمبر 2012 میں سپریم کورٹ نے ایک ہدایت دی تھی کہ نجی اسپتال خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا فری علاج کرے۔ ہدایت کے مطابق اسپتالوں کے 10فیصد بستر ان کے لئے مختص ہو۔ اس حکم کا اسپتالوں پر کیا اثر ہوا ہے ،وہ تو جگ ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے کئی دفعہ یہ بھی احکامات جاری کیے کہ ادویات کی تجویز میں ڈاکٹر تساہلی کا مظاہرہ نہ کریں ، مگر اس کا بھی کوئی خاطرخواہ فائدہ نظر نہیں آیا۔ گویا بچوں کے علاج کا معاملہ ہو کہ بڑوں کا،اسپتالوں میں ایسی تساہلی اور بدعنوانی کی جاتی ہے کہ ہمارے معاشرے اور ملک کا سر شرم سے جھک  جائے۔ نجی اسپتالوں میں طبی جانچ کے نام پر بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ غیر ضروری جانچ میں یہ حقیقت بھی کار فرما ہے کہ طبی تعلیم کے حصول کے لیے ایک خاندان کو بہت کچھ لٹانا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے بعد اطبا ’تلافیٔ مافات ‘کے پیش نظر مریضوں سے بہت کچھ وصول کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ بہت زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں۔ طبی چانچ کے نام پر کسی بڑی مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ڈاکٹروں کے اِن رویوں سے نہ صرف ملک پر بدنما داغ لگتا ہے ،بلکہ معاشرے پر کئی خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ بہار کے چمکی بخار کو ہی لیجیے۔ ایک طرف بچوں کی موت ہورہی ہے اور دوسری سیاست۔ ان تمام معاملات میں عام لوگوں کا ناقابل تلافی نقصان ہور ہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنے والی بات ہے کہ بہت زیادہ ادویات تجویز کرنے سے ایک مرض تو ختم ہوتا ہے لیکن دوسرے مہلک امراض پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کی شرح اموات میں اضافہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ کیوں کہ مستقبل میں بچیوں کی تعداد میں بھی کمی آئے گی۔ گویا بچوں کا قتل مستقبل کا قتل ہے۔

تبصرے بند ہیں۔