چھکّا سنگھ سدّھو کا آخری چھکّا

حفیظ نعمانی
2014کے لوک سبھا کے الیکشن میں شری نریندرمودی کو کچھ بھی کرنے کی چھوٹ دیدی گئی تھی۔  انہوں نے ایسی ایسی تبدیلیاں کیں کہ عام حالات ہوتے تو پارٹی میں بغاوت ہوجاتی۔  اترپردیش کے ایک بہت بڑے لیڈر مرلی منوہر جوشی کو الہ آباد کے بجائے کانپور سے کھڑے ہونے کا حکم دیا کلراج مشرا جہاں سے چاہتے تھے وہاں سے انہیں ہٹا دیا۔  لکھنؤ کی وہ سیٹ جو اٹل جی کے بعد لال جی ٹنڈن کی ہونا چاہئے تھی وہاں سے راج ناتھ سنگھ کو کھڑا کر دیا اور امرت سر جوسدّھو کی سیٹ تھی جہاں سے دوباروہ الیکشن جیت چکے تھے ان سے لیکر ارون جیٹلی کو دے دی۔
سیاست میں اکثریت ان کی ہے جو صرف سیاسی زندگی ہی گزارسکتے ہیں۔  یا بیٹھ جاتے ہیں۔  لیکن چند لوگ ایسے بھی ہیں جو سیاست میں تفریح کرنے آجاتے ہیں۔  ورنہ میدان انکا دوسرا ہوتا ہے۔  ان میں ہی نوجوت سنگھ سدّھو بھی ہیں۔  جو اپنے وقت کے بہت معروف مقبول اور مشہور کھلاڑی رہے ہیں۔  وہ قومی ٹیم کے بیٹس مین تھے۔  اور اتنے چھکے مارتے تھے کہ لوگ انہیں چھکّا سنگھ کہنے لگے تھے۔  ان سے جب کہا گیا کہ تمہارے بارے میں کوئی اور جگہ سوچ لی جائے گی۔  امرت سر کی سیٹ ارون جیٹلی کے لئے چھوڑ دو تو انہوں نے کوئی بھی واویلا نہیں مچایا۔  خاموشی کے ساتھ ہونے والے ورلڈ کپ میں جابیٹھے اور دلچسپ کمنٹری دینے لگے۔  اتفاق سے اس کے بعد ہی ہندوستان کا کریکٹ میلہ آئی پی ایل شروع ہوگیا اور وہ وہاں جا بیٹھے اور اشعار کے چھّکے لگانے لگے۔
مودی جی کی خواہش تھی کہ سدّھو جیٹلی کی مدد بھی کریں۔  تو اگر وہ لال جی ٹنڈن کی طرح صرف نیتا ہوتے تو اس لئے کرتے کہ نہ کریں تو کیا کریں؟ لیکن یہ تو معلوم ہے کہ ان کی مدد نہیں۔  مگر یہ نہیں معلوم کہ ان کے مخالف کی درپردہ مدد کی یا نہیں؟ کیوں کہ وہ صرف نیتانہیں ہیں۔  اور جب جیٹلی صاحب ہار گئے تو وہ گاتے بجاتے واپس آگئے۔  چند مہینے پہلے ان کی بیوی جو بی جے پی کی سرگرم کارکن ہیں ان کے بارے میں خبر آئی تھی کہ وہ بی جے پی سے الگ ہو گئیں۔  لیکن پھر پارٹی نے انہیں منا لیا اور وہ واپس چلی گئیں۔   وزیر اعظم نے اب یہ سوچا کہ 2017کا الیکشن آرہا ہے۔ سدّھو اسمبلی کا الیکشن لڑنا تو قبول نہیں کریں گے۔  اور انہیں بادل وزیر بنانا نہیں چاہیں گے کیونکہ وہ اس کے خلاف ہیں کہ بی جے پی بادل کی پالکی اٹھائے اٹھائے پھرے۔  وہ برابر یہ کہتے رہے ہیں کہ بی جے پی کو اپنے دم پر لڑنا چاہئے۔  اس لئے انکا منہ بند کرنے کے لئے۔  اور 2017میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لئے انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔
اروند کجریوال ایک سال سے پنجاب میں زمین ہموار کر رہے ہیں۔  ان کی نیک نامی کی گونج پنجاب میں اس وقت سے سنی جا رہی ہے جب سے انہوں نے دہلی میں بی جے پی اور کانگریس کی کھٹیا کھڑی کی ہے اور وہ برابر پنجاب کا دورہ کر رہے ہیں۔  اور یہ اعلان بھی کر رہے ہیں کہ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو دہلی نہیں چھوڑیں گے۔  دوسری طرف یہ بھی اہم بات ہے کہ نوجوت سنگھ سدّھو کے اوپر یا ان کی بیوی کے اوپر کسی طرح کا الزام نہیں ہے جبکہ پنجاب کے لیڈر بہت بدنام ہو رہے ہیں۔  اور وہ پنجاب جو ہندوستان کا پالن ہار تھا اور اتنا غلہ پیدا کرتا تھا جتنا باقی ہندوستان کرتا تھا آج اس پنجاب کے کسان خود کشی کر رہے ہیں۔  اور ہر وہ سماجی برائی جو سماج کو کھوکھلا کردیتی ہے،  اس نے پنجاب کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔  اور سدّھو اور ان کی بیوی اس کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔
یہ ہیں وہ حالات جو سدّھو کو کجریوال کی طرف لے گئے۔  کجریوال نے باربار کہا ہے کہ وہ پنجاب کے ہی کسی ایماندار لیڈر کو پنجاب کی حکومت سپرد کریں گے اور خود صرف اس کی مدد کرسکیں گے۔  اب حیرت ہوتی ہے کہ میڈیا کے ہر چینل کی ایک ہی آواز ہے کہ عام آدمی پارٹی کو پنجاب میں چہرہ مل گیا۔  جب کہ سب جانتے ہیں کہ کجریوال نے دہلی میں دو بار الیکشن لڑا اور دونوں بار وہی چہرہ رہے اور آج بھی وہی چہرہ ہیں۔  دہلی میں بھی اپنے بہت اچھے ساتھی سسودیا صاحب کو وزیر اعلیٰ کے سارے اختیارات دے دئے ہیں اور وہ صرف وزیر اعلیٰ ہیں۔  وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ پنجاب میں خود وزیر اعلیٰ بن جائیں اور کسی کو مسٹر سسودیا کی طرح پوری حکومت سپرد کر دیں۔  اس لئے کہ چہرہ تو اروند کجریوال کا ایسا ہی ہے جیسے بی جے پی میں مودی جی کا۔
پنجاب کے الیکشن میں اکالی دل اور بی جے پی کی حالت ایسی ہوگئی ہے جیسے دہلی میں کانگریس کی ہوگئی تھی۔  اسے دیکھتے ہوئے کانگریس یہ سمجھنے لگی تھی کہ شاید اس بار اس کا نمبر آجائے۔  لیکن سدھو اور ان کی بیوی کے عام آدمی پارٹی میں جانے کے بعد بظاہر دونوں خطرہ میں آگئی ہیں۔  اور اس کا کافی امکان ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے یا وزیر اعلیٰ ان کی بیوی کو بنایا جائے۔  اور سدھو اپنے خوابوں کا پنجاب بنانے میں ہرطرف سے کٹ کر پنجاب کے ہو جائیں۔ ؟
وزیر اعظم نریندرمودی نے سدّھو سے امرتسر کی سیٹ چھین کر ثابت کیا ہے کہ مردم شناسی میں وہ ماہر نہیں ہیں۔  اب اگر بی جے پی کی جگہ عام آدمی پارٹی لیتی ہے تو اس کی ذمہ داری مودی جی پر ہوگی۔  اور دوسری پارٹیوں کا جو نقصان ہوگا وہ تو الگ رہا شری نریندرمودی کے کلیجے کو دو خنجر خون سے نہلا دیں گے ایک یہ کہ جو آدھی ہی سہی پنجاب میں حکومت تھی وہ گئی اور دوسرا زیادہ زہر بھرا خنجر یہ ہوگا کہ ان کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ وزیر اعلیٰ اروند کجریوال بجائے سمٹنے کے اور پھیل گیا۔  اسکا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم پنجاب میں اترپردیش سے بھی زیادہ وقت دیں۔  اور صرف ایک نشانہ بنائیں کہ گدھے گھوڑے چاہے وزیراعلیٰ بن جائیں لیکن کجریوال پنجاب میں نہ آئے۔
سدّھو امرتسر تک محدود نہیں ہے۔  وہ گنگولی،   اظہر الدین،   روی شاستری اور گواسکر کی طرح پورے ملک میں جانا جاتا ہے۔  کانگریس جب اظہرالدین کو مراد آباد سے کھڑا کر کے جتا سکتی ہے اور پانچ سال کے بعد راجستھان سے لڑا سکتی ہے،   جب کہ وہ حیدرآباد کے رہنے والے ہیں۔  توسدّھو کو بھی بی جے پی کہیں سے لڑاسکتی تھی۔  لیکن ضرورت اس کی تھی کہ مودی جی پیار سے کہتے کہ ارون جیٹلی کو تم امرتسر سے کھڑا کر کے جتا دو مجھے ان کی ضرورت ہے۔  تو شاید بات دوسری ہوتی۔  لیکن ہر کسی کو نہ حکم دیاجاتا ہے اور نہ چابک مارا جاتا ہے۔  سدھو تو اتنے تنک مزاج ہیں کہ کل انہوں نے ایک رپورٹر کو جواب دیا کہ میں نے تو کبھی لوک سبھا کا ٹکٹ بھی نہیں مانگا تو راجیہ سبھا کا کیا مانگتا۔ ؟ اور سدھو نے چھ سال یقینی طور پر ممبر پارلیمنٹ رہنے کے بجائے اس غیر یقینی حکومت کی توقع پر راجیہ سبھا کا تاج اتار کر ثابت کیا ہے کہ کچھ بھی نہ رہے تو چھکّا سنگھ تو ہر حال میں رہے گا۔  اور یہ باریک بات وزیرا عظم نہ سمجھ سکے۔  اور دو دوستوں کو دشمن بنا لیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔