اردو ہے جس کا نام ۔۔۔۔

محمد شاہد خان

انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سی زبانوں نے جنم لیا ہے جن میں سے بیشتر ایک خاص مدت تک کسی جغرافیائی خطہ میں بولی گئیں، لیکن رفتہ رفتہ ان کی شکل و صورت بدلتی رہی، مرور ایام کے ساتھ ان کا نام و نشان مٹ گیا اور ان کی جگہ دوسری زبانوں نے لے لی۔

البتہ یہ کلیہ استثنا سے خالی نہیں ہے، یقینا کچھ زبانیں ایسی بھی ہیں جواپنی خصوصیات کی وجہ سے زندہ وجاوید ہو جاتی ہیں اور مسلسل ارتقائی منازل طے کرتی رہتی ہیں۔

اردو بھی ایک ایسی ہی زبان ہے، جس کی تاریخ تقریبا سات سو سال پرانی ہے۔ اسے کبھی گجری کے نام سے جانا گیا تو کبھی دکنی کے نام سے، کبھی ہندستانی تو کبھی ریختہ، شاہجہاں کے دور میں اسے اردوئے معلی کا خوبصورت نام ملا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ اردو زبان کی بعض خصوصیات پر گفتگو کی گئی ہے۔

اردو کو صرف وحدت کی زبان سمجھنا اس کے ساتھ انصاف نہیں ہے، کیونکہ وحدت تو ساری زبانوں میں پائی جائی ہے، چنانچہ مراٹھی مراٹھوں کو جوڑتی ہے، گجراتی گجراتیوں کو اوربنگالی بنگالیوں کو زبان کی بنیاد پر جوڑتی ہے اس لئے یہ کہنا کہ اردو صرف وحدت کی زبان ہے درست نہیں ہے بلکہ اسے تہذیبی اختلاط، میل محبت، بھائی چارے اور مذہبی رواداری کی زبان کہنا زیادہ درست ہے۔

اردو دنیا میں تیسرے نمبر کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، زبانوں میں اسکو وہی حیثیت حاصل ہے جو عمارتوں میں تاج محل کو ہے.

اس زبان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں چودہ ایسی آوازیں پائی جاتی ہیں جو کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتیں، مثلا ڈ ڑ ٹ ڈیڑھ ٹھوکر بھ جھ پھ یاپھر گنتیاں جیسے ترسٹھ ، پینسٹھ چھہتر وغیرہ.

یہ وہ زبان ہے جو نہ جغرافیائی تقسیم کوگوارا کرتی ہے اور نہ ہی کسی سے مذہبی یا لسانی بیر رکھتی ہے بلکہ سب کے ساتھ مل کر شیر و شکر ہوجاتی ہے، بقول غالب:

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم

ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں

اور

وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے

مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

یگانہ کا یہ شعر دیکھئے جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح یہ زبان  مذہبی فرقہ واریت کے خلاف ہے:

سب تیرے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا

سر پھرا دے انساں کا ایسا خبط مذہب کیا

یا پھر

کفر کافر کو بھلا شیخ کو اسلام بھلا

عاشقاں آپ بھلے اپنا دل آرام بھلا

اہل علم جانتے ہیں کہ اردو شاعری ہمیشہ مذہبی رنگ  سے گریزاں رہی ہے اسی لئے محتسب، زاہد اور ناصح وغیرہ ہمیشہ اردو شاعری میں ولن کی حیثیت سے جانے گئے ہیں، فیض صاحب فرماتے ہیں:

محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے

رند کا، ساقی کا، مے کا، خم کا، پیمانے کا نام

بیخود بدایونی کہتے ہیں:

واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے

میکدہ اب تو مے کدہ نہ رہا

جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا کہ اردو زبان سات سو سالہ قدیم ایک ہندستانی زبان ہے جو مختلف ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی یہاں تک پہونچی ہے، آزادی سے قبل اردو تمام تعلیم یافتہ طبقہ کی مشترکہ زبان تھی اور بلا تفریق مذہب وملت اسے ہر شخص پڑھتا لکھتا اور بولتا تھا، اردو زبان کی بنیاد ہندستانی یا کھڑی بولی ہے جو پورےہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، البتہ سنسکرت فارسی اورعربی زبانوں کے الفاظ کا برمحل استعمال اسے مزید صیقل کرتا ہے اور اسے خوبصورتی عطا کرتا ہے اس زبان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اس زبان میں بآسانی دخیل ہوجاتے ہیں اور یہ عیب کی بات نہیں بلکہ اس زبان کی خصوصیت اور حیویت کی علامت ہے،

مثال کے طور پر آپ اردو میں کہتے ہیں  کہ ‘یہاں آیئے’ ‘ادھر دیکھئے’ ‘ریزرویشن آفس’ ‘ضلع’ ‘ضمانت’ ‘ریلوے اسٹیشن’ وغیرہ۔ یہ الفاظ ہر ہندوستانی بآسانی سمجھ سکتا ہے لیکن یہی الفاظ اگر آپ ہندی میں کہیں کہ ‘یہاں پدھاریئے’ ‘ادھر اولوکن کیجئے’ ‘آرکشڑ کیندر’ ‘جنپد’ ‘پراتیبھو’ ‘بھکبھک اڈہ’ تو اسے صرف ٹھیٹھ  ہندی زبان جاننے والا ہی سمجھ سکتا ہےاور وہ بھی محدود جغرافیائی حدود میں۔

لیکن اردو اس کا بھی نام  نہیں ہے کہ اسمیں فارسی اور عربی کے مشکل الفاظ گھسا دیئے جائیں مثال کے طور اگر یہ کہا جائے کہ ‘ماضی میں ارتکابِ شر مستقبل میں حصول خیر میں مانع ہے’ تو ظاہر ہے کہ یہ وہ ہندستانی اردو نہیں ہے جس کی ہم بات کررہے ہیں ۔

یہ تو ہوئی اردو زبان اور اس کی خصوصیت، اب سوال یہ ہے کہ اس زبان کا مستقبل کیا ہے اور ہمیں اس زبان سے کس حد تک وابستہ رہنا چاہئے اور کیوں رہنا چاہئے؟

میرے نزدیک اردو زبان کا مستقبل تاریک نہیں ہے، باوجود مخالفتوں کے یہ زبان اپنی جائے پیدائش میں نہ سہی لیکن دنیا کے ہرگوشے میں پھل پھول رہی ہے۔

اردو اور صحافت

اردو زبان کی ترویج کا ایک بڑا ذریعہ صحافت ہے، آج اردو میں ہندستاں وپاکستان  سے سیکڑوں کی تعداد میں  اخبارات ورسائل  نکلتے ہیں جن کو یہاں شمار نہیں کرایا جاسکتا ہے، لیکن جب اردو کا غیر پیشہ ور طبقہ اردو کی زبوں حالی کا رونا رونے لگا اور قارئین کی گھٹتی ہوئی تعداد کا شکوہ کرنے لگا تو ایسے حالات میں کارپوریٹ سیکٹر کو اندازہ ہوا کہ اردو زبان کا بہت بڑا اسکوپ ہے اور اردو زبان کے قارئین کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جہاں کاروبا ہوسکتا ہے، چنانچہ اپنے بزنس کی ترویج اور اردو کی سرپرستی کیلئے یہ طبقہ آگے آیا اور بہت سے اخبارات جو مالی بحران کی وجہ سے بند ہونے کی کگار پر پہونچ گئے تھے، انہیں کارپوریٹس نے سہارا دیا۔ چنانچہ اس وقت ہندستان کے کئی بڑے اخبارات کارپوریٹس کی ملکیت میں ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اردو اور اردو والوں کے معاشی حالات کسی حد تک سدھر گئے ۔

اردو اور مدارس

اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی بقا و ترویج میں مدارس و مکاتب  کا بہت بڑا رول رہا ہے، آج دنیا میں اردو جاننے والوں کی جتنی بھی تعداد موجود ہے ان کی  اکثریت مدارس سے پڑھے ہوئے لوگوں کی ہے، شاید ہی کوئی مدرسہ ہو جہاں اردو میں تعلیم نہ ہوتی ہو اور وہاں کے بلیٹن بورڈس ، تعارف نامے اور ترجمان اردو زبان میں نہ نکلتے ہوں۔

اردو اور فلمی دنیا

یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر بالی ووڈ سے اردو کو نکال دیا جائے تو ہندی فلموں کی روح نکل جائے گی، بہترین مکالمےاور گانے صرف اور صرف اردوزبان کی دین ہیں اوراگر ہندی فلموں سے اردو کو نکال دیا جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان فلموں کا کیا حشر ہوگا۔ مغل اعظم، پاکیزہ، امراؤجان ادا کو اردو کی نمائندہ فلموں کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر کچھ ہندی فلموں کے خالص اردو نغمے ملاحظہ ہوں:

فلم امراؤجان ادا کا یہ نغمہ،

ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں

ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں

اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا

اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں

کہنے کو تو دنیا میں میخانے ہزاروں ہیں

یا یہ نغمہ،

بہارو پھول برساؤ مرا محبوب آیا ہے

ستارو مانگ بھر جاؤ مرا محبوب آیا ہے

یا یہ نغمہ

تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو

فلم مغل اعظم کا یہ نغمہ،

محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے

بڑی چوٹ کھائی جوانی پہ روئے

پاکیزہ فلم کا یہ نغمہ,

یونہی کوئی مل گیا تھا سرراہ چلتے چلتے

اس طرح کے ہزاروں نغمےہیں جو ہندی فلموں کی زینت بنے ہوئےہیں اور انہیں اردو نغمات اور بہترین مکالمات کی بدولت سیکڑوں ہندی فلمیں سوپرہٹ ہوئی ہیں۔ اور یقینا اسی وجہ سے آج بھی ہر بالی ووڈ اداکار (اسکرپٹ سے قطع نظر) اردو تلفظ سیکھتا ہے،  کیونکہ بغیر اردو تلفظ سیکھے ڈائیلاگ کی مؤثر ادائیگی نا ممکن ہے، اسی لئے میں نے اردو کو بالی ووڈ کی روح سے تعبیر کیا ہے اور اردو زبان کی ترویج واشاعت میں بالی ووڈ کا اہم کردار رہا ہے۔ پرانے کسی بھی غیر مسلم ایکٹر یا ایکٹریس کا نام لے لیجئے وہ آپ کو اردو آشنا ضرورملے گا اور آج بھی ڈائیلاک کی ادائیگی کیلئے اردو تلفظ کا سیکھنا ازحد ضروری سمجھا جاتا۔

اردو اور انٹرنٹ

آج اردو زبان کی ترویج واشاعت میں ایک اہم کردار انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کا ہے، بے شمارApps ، موبائل اپلیکیشنس، ویب سائٹس اور مکتبے انٹرنٹ پر اردو زبان میں موجود ہیں جن سے دنیا کے کسی بھی گوشے میں اردو جاننے والا شخص استفادہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح مارکیٹنگ کے پیش نظر آج بے شمار کمپنیاں اردو زبان کو اپنے پروگرامس میں داخل کرنے پر مجبور ہیں۔

اردواور فضائی ذرائع ابلاغ

جس طرح دوسری زبانوں کی ترویج واشاعت میں ریڈیو، اور ٹیلیویزن کا دخل رہا ہے اسی طرح اردو زبان بھی اس سے محروم نہیں ہے، ہندوستان وپاکستان اور دنیا کے بے شمار ممالک میں اردو داں طبقہ کیلئے اردو میں پروگرام نشر کئے جاتے ہیں، ہندوستان وپاکستان کے علاوہ بی بی سی اردو سروس ، وائس آف امریکہ ، وائس آف جرمنی، اور خلیجی ممالک میں اردو نشریات اسکی بیّن مثالیں ہیں۔

اردو اور مشاعرے

اردو زبان اور اردو تہذیب وثقافت کی ترویج کے لئے مشاعرہ ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے، اگرچہ مشاعروں کی نوعیت میں فرق آیا ہے، ان کے معیار میں گراوٹ آئی ہے اور زیادہ تر مشاعرے انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن گئے ہیں، چنانچہ مشاعروں  کے شعرا کی ایک الگ ہی صنف بن گئی ہے، یہ لوگ اس طرح کا کلام لکھنے اورپڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں جوعوام کی سطحی جذباتیت کے لئے تسلی بخش ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود ان مشاعروں سے بہرحال اردو کی خدمت ہوتی ہے، اور جہاں کہیں پڑھا لکھا طبقہ موجود ہے وہاں آج بھی بڑے معیاری مشاعرے ہوتے ہیں، بلکہ اس دور میں اردو کے نام پر  جس کثرت سے مشاعرے منعقد ہوتے ہیں وہ اس زبان کی مقبولیت کی علامت ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس زمانہ میں اردو شعرا کی وہ حالت نہیں ہے جو آج سے سو ڈیڑھ سو سال قبل ہوا کرتی تھی جب کہ وہ نان شبینہ کے محتاج ہوتے تھے اور چند ٹکوں کے عوض اپنا کلام بیچ دیا کرتے تھے۔ آج کے اس دور میں شعرا کی مالی حالت ان مشاعروں کی بدولت کافی بہتر ہوگئی ہے، میں ایسے کئی شعرا سے واقف ہوں جو مسلسل ملک و بیرون ملک کے دوروں پر رہتے ہیں اور کئی شعرا نے تو متواتر مشاعروں اوران سے ہونے والی آمدنی کی بدولت اپنی باعزت سرکاری نوکریوں کو بھی خیر آباد کہدیا ہے ۔

اردو سے ہمارا لگاؤ صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس زبان میں عظیم اسلامی سرمایہ موجود ہے بلکہ اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ زبان ہماری تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہے اور اس پیاری زبان نے ہندستان کی مٹی سے جنم لیا ہے، اس زبان میں اتنی مٹھاس ہے کہ بعض لوگوں کے مطابق اردو زبان میں گالی بھی بہت اچھی لگتی ہے۔

لیکن اس زبان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سن 1947 کے بعد کچھ تعصب پرستوں اور احمقوں نے مذہب کی بنیاد پر زبانوں کی تقسیم کرڈالی، اور یہ باور کرانا شروع کردیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہےاور ہندی ہندؤں کی، وہ انگریزوں کی عطاکردہ Divide and Rule کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگئے اوراردو کے بجائے ایک ایسی زبان کو قومی زبان بنانے پر تل گئے جو آج آزادی کے 69 سال بعد بھی  ایک محدود جغرافیائی خطہ سے باہر نہیں نکل پا رہی ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ حکومتوں پر دباؤ بنایا جائے کہ وہ اردو کی کتابیں داخل نصاب کریں، سرکاری اسکولوں میں اردو پڑھانے والے اردو پڑھائیں اور تمام اسکولوں اور کالجوں میں اردو لازمی لیکن اختیاری مضمون کی حیثیت سے داخل ہو، سرکاری نوکریوں میں اردو کی حصہ داری ہو، سرکاری محکمات میں دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی درخواستیں مہیا کرائی جائیں اور ساتھ ہی مترجمین بھی متعین کئے جائیں تاکہ اردو روزگار میں اضافہ ہو، ساتھ ہی ایسی اکیڈمیاں قائم کی جائیں جو نئے اور مفید لٹریچر کو اردو زبان میں منتقل کرسکیں اور علمی و فنی اصطلاحات کیلئےاردو میں الفاظ وضع کئے جائیں تاکہ اردو زبان مسلسل ترقی کی منازل طے کرتی رہے۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

تبصرے بند ہیں۔