کچھ دھندلے نقوش یادوں کے

ابو عروج خلیل احمد

25 اگست 1991 کو ما بدولت پہلی بار ہوائی جہاز میں قدم رنجہ فرمائے تھے۔  حیدرآباد سے روانگی،  ٹرین کا سفر،  سکندرآباد سے اے پی ایکسپریس صبح 7 بجے نکلتی تھی۔  میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی اور بڑے سالے بھی تھے جو مجھے چھوڑنے آئے تھے،  اور ہمارے ہم سفر دو لڑکے اور تھے ایک انور اور دوسرا افضل جو اسی ایجنٹ کے ذریعہ جانے والے تھے جس کے ذریعہ سے مجھے بھی جانا تھا۔  ان دونوں کے بازؤوں پر امام ضامن بھی بندھے تھے۔  حالانکہ کہ ہم کو بتایا گیا تھا کہ نظام الدین جہاں ہم اتریں گے،  وہاں سے کچھ ہی دور پر لاج ہے جس کا نام ہم کو بتایا گیا تھا،  اس کے باوجود ہم نے آٹو لیا اور آٹو والا بھی دلی کا تھا،  اس نے اسی فلائی اوور کے تین چکر لگائے اور ہم کو وہیں پر اتار دیا جہاں پر ہم نے آٹو لیا تھا،  اور بتایا کہ سامنے ہی ہے وہ لاج ہے جس کا نام ہم لے رہے تھے،  دلی میں اتر کر دلی میں نظام الدین کی ایک لاج میں رکنا،  وہ دونوں لڑکے بھی ہمارے ہی ساتھ اسی لاج میں رکے،  بلکہ ایک ہی ہال نما کمرہ تھا جس میں چار بیڈ لگے تھے،  ہم چونکہ پانچ تھے اس لئے ایک کو نیچے گدے پر سونا تھا،  معلوم ہوجانے کے بعد کہ مجھے بھی اسی ایجنٹ کے ذریعہ جانا ہے جس کے ذریعہ وہ دونوں جارہے تھے تو نئی جگہ میں ضرورت ان کو ہمارے ساتھ رہنے پر مجبور کر رہی تھی۔

 بہرحال ہم تیار ہوکر ایجنٹ سے ملے اس نے کارروائی مکمل کرکے ٹکٹ اور پاسپورٹ تھمادیا۔  اب ہمارے پاس دو دن تھے میری فلائٹ دو دن بعد تھی۔  تو انتظار کرنا تھا۔  تو دلی گھومنے کی ٹھری۔  بسوں کا سفر دلی میں،  نئے افراد کو پاکٹ مار بھی تاڑ ہی لیتے ہیں۔  ایک بس میں ہم چڑھے میں اور میرا سالا تو چڑھ گئے لیکن میرا چھوٹا بھائی نہیں آرہا تھا۔  میں آوازیں لگائے جارہا ہوں جلدی سے چڑھ جاؤ اوپر لیکن وہ چڑھ نہیں پارہا تھا اور بس کے پائدان پر ہی کچھ لوگوں کے درمیان اس طرح گھرا تھا کہ ہم دیکھ بھی نہیں پارہے تھے۔  اور یوں لگ رہا تھا کہ جانی(چھوٹا بھائی) کچھ لوگوں سے لڑ رہا ہے۔  میرے اور اس کے درمیان اتنی بھیڑ تھی کہ میں جانی کو دیکھ بھی نہیں پارہا تھا۔  آخر بڑی مشکل سے کسی طرح میرا بھائی اوپر آیا تو پتہ چلا کہ پاکٹ ماروں کا گروپ اس کو گھیرے میں لئے ہوئے تھا۔  اور نکلنے کا راستہ نہیں دے رہے تھے۔

چاندنی چوک پہنچے،  بھوک لگ رہی تھی۔  تو ہم وہیں چاندنی چوک میں ایک درمیانے ہوٹل میں کھانے کے لئے گئے۔  اور باوجود یہ جاننے کے کہ شمال کے لوگ صرف روٹی کھاتے ہیں چاول نہیں کھاتے۔  ہم نے پالک پنیر اور روٹی،  پھر اس کے بعد چونکہ حیدرآبادیوں کا کھانا چاول کھائے بغیر پورا نہیں ہوتا،  تو ہم نے سوچا کہ چلو دال چاول کھایا جائے۔  جو کہ ہماری دانست میں (چونکہ دال چاول حیدرآباد میں سب سے سستا ہوتا ہے) سستا ہوگا۔  اس لئے ہم نے دال چاول منگوائے۔  کھانا کھانے کے بعد جو بل دیکھا تو ہمارے ہوش ٹھکانے آگئے۔  اور پھر ہم نے صرف روٹی اور گوشت پر ہی گذارا کیا۔

گھوم پھر کر ہم واپس اپنے ہوٹل آگئے۔  پاس ہی نظام الدین درگاہ اور مسجد تھی۔  وہیں پر ہم نے رات کا کھانا کھایا (بھینس کا گوشت اور روٹی)۔  اور واپس۔  پھر ہم سوگئے۔  آدھی رات یا کچھ زیادہ کا وقت ہوگا،  اچانک ایک زور کی چیخ ابھری۔  اور ہم سب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے،  یہ انور تھا جس نے چیخ ماری تھی۔  وہ پلنگ سے نیچے گرا تھا۔  دھان پان سا لڑکا اور زندگی کا پہلا سفر یہ سب ملا کر اس کو دہشت زدہ کئے ہوئے تھے۔  آج بھی لکھتے ہوئے اس موقع کے یاد کرکے میں اپنی ہنسی نہیں روک پاتا ہوں۔

        پھر 25 اگست آگیا۔  اس کو تو آنا ہی تھا۔  اور ہم اپنوں کو چھوڑ چھاڑ کر پردیس کے لئے ہوائی جہاز میں قدم رنجہ فرمائے۔  اس تمام تمہید کی ضرورت اس ایک واقعہ کو بیان کرنےکے لئے باندھی گئی ہے جو کہ ہم کو جہاز میں پیش آیا۔  زندگی کا پہلا ہوائی سفر۔  ایک(ایکسائٹمنٹ) جوش بھرا ہوا تھا۔  جو کہ پڑھتے آئے تھے کہ سیٹ بیلٹ باندھی جاتی ہے اور ایر ہوسٹس (فضائی میزبان) ہوتی ہے۔  سعودی ایر لائن کا طیارہ تھا۔  اور میں نے دیکھا تھا کہ غالبا دس دس سیٹیں تھیں۔  اور کافی طویل طیارہ تھا مانو یوں لگ رہا تھا جیسے ریل گاڑی ہو۔  اور یہ طیارہ مخصوص طور پر شاید صرف اور صرف نوکریوں کے لئے جانے والوں کے لئے ہی تھا اس میں کوئی عورت یا بچہ نہیں تھا۔  سیٹ بیلٹ باندھی گئی،  ایر ہوسٹس ہدایات دینے لگی۔  اور طیارہ ہندوستان کی سرزمین کو چھوڑ کر فضا میں بلند ہوگیا۔  مسافرین کی اکثریت شمالی ہند کے افراد کی تھی اور لیبر طبقہ تھا۔  پنجابی،  راجستھانی،  یو پی بہار کے لوگ ہی زیادہ تھے۔  اب تک تو سارے لوگ سہمے سہمے اور خاموش تھے لیکن طیارے کے بلند ہوتے ہی باتیں کرنا شروع ہوگیا۔  اور قیامت تو اس وقت آئی جب ایر ہوسٹس نے مسافرین سے کہا کہ اب آپ لوگ سگریٹ پی سکتے ہیں۔ (آج تو کسی ایر لائن میں بھی سگریٹ نوشی کی اجازت نہیں ہے) پھر جو بیڑیاں (راجستھانی بیڑیاں ہی پیتے ہیں) جلی ہیں۔  سارے ہوائي جہاز میں دھواں بھر گيا۔  دم گھٹنے لگا تھا۔  ایر ہوسٹس تو بھاگ کر اپنے کیبن میں گھس گئیں۔  شاید ہر کسی نے یہی سوچا ہوگا کہ میں اکیلا ہی سگریٹ پینے والا ہوں۔  خدا خدا کرکے سگریٹ نوشی کا دور ختم ہوا۔  پھر کھانے کا دور چلا۔  کھانے کے بعد سگریٹ نوشی شاید نہیں ہوئی۔  یا شاید منع کردیا گیا۔  بہرحال اس کے بعد کا سفر کسی طرح کٹ گیا۔

        ریاض ایرپورٹ پر اترنے کے بعد پتہ چلا کہ ہماری کمپنی کے پچاس افراد ہیں۔  اور ہم کو لینے کے  لیے بڑی دیر بعد گاڑیاں آئيں۔  اور ہم آفس پہنچے۔  گلف میں جولائی اگست سخت گرمی کا موسم ہوتا ہے۔  ہم پچاس افراد کو وہاں کے آفس کے دو تین کمروں میں ٹھونس دیا گیا۔  ہم کو کھانے کے لیے اور خرچ کے لیے 100 ریال دیے گیے۔  اور ہم کو دو دن تک وہیں رکھا گیا۔  چونکہ کھانے پکانے کا کوئی نظم نہیں تھا۔  اور ہوٹل میں کھانا تھا۔  ان دو دنوں میں بہت سارے لوگوں نے دئے گئے پیسے خرچ کردئے۔  تیسرے روز ہم میں سے غالبا 30 افراد کو ایک سائٹ پر بھیجا گيا۔

        ہم سارے افراد سائٹ پر پہنچے۔  اور سیدھے کام پر۔  دوپہر کے وقفہ (لنچ بریک) میں کسی طرح کام چلایا گيا۔  دکان بھی بہت دور تھی۔  اس کے علاوہ دور دور تک کچھ نہیں۔ جب ذکر آگیا ہے تو تھوڑا تفصیل ہی سہی۔  اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا وہ میرے ذہن پر اور دل پر نقش ہے۔  اور میری آنکھ بھر آتی ہیں اور دل سے دعا نکلتی ہے۔  شام ہوگئی اور ہمارا کوئی معقول انتظام نہیں تھا،  پیسے بھی پاس نہیں،  کوئی برتن،  کوئی چولہا۔  ہم سب نئے اور ہم جانتے نہیں کہ کیا کرنا ہے کہاں سونا ہے۔  بڑی افراتفری تھی۔  ایسے میں جو لوگ پہلے سے وہاں تھے پاکستانی تھے۔  ان لوگوں نے بڑھ کر ہمیں سہارا دیا۔  ہم لوگوں میں سکھ تھے،  ہندو تھے،  پنجابی تھے،  راجستھانی تھے،  حیدرآبادی تھے۔  ان سب کی ان پاکستانیوں نے تین دن تک مہمان نوازی کی۔  اپنے ہاتھ سے روٹی بنا بنا کر کھلائی۔  یہ ایسا احسان ہے مجھ پر جس کا بدلہ اللہ ہی دے سکتا ہے۔  ہم صرف دعا کرسکتے ہیں۔  جو زندہ ہیں اللہ انہیں مزید آخرت کے لیے عمل کی توفیق دے،  اور جو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں اللہ تعالی ان کے ساتھ کرم کا معاملہ فرمائے۔

        پھر ہم میں سے کچھ لوگوں کو وہاں سے ایک دوسری سائٹ پر بھیجا گیا۔  اتفاق سے ہم پانچ حیدرآبادی اس بار بھی ساتھ رہے۔  ہم نے اپنا سیٹ اپ بنالیا تھا۔  تو وہ سیٹ اپ بکھرنے سے بچ گیا۔  اور بہت بعد میں جاکر ان پاکستانی میزبانوں میں سے ایک جب ہماری سائٹ پر آیا تو وہی لوگ جن کو انہی پاکستانیوں نے تین دن تک مہمان نوازی کی تھی،  کسی نے اسے دوپہر کے کھانے پر نہیں بلایا۔  جب میں ظہر کی نماز پڑھ کر آیا تو مجھے اس بات کا پتہ چلا۔  پھر میں نے اسے کھانے پر بلایا۔  تب تک وہ اپنے ایک پاکستانی کے ساتھ کھانا کھاچکا تھا۔

        ایک دوسرا واقعہ جو میرے ذہن سے محو نہیں ہوسکا۔  وہ دوسرے سفر کا ہے۔ 1993 میں حیدرآباد سے ایک ایجنٹ کا ایڈریس لے کر گئے تھے،  بائکلہ میں ابراہیم توکل۔  وہیں پر ایک عورت خالہ کے نام سے مشہور تھیں،  اور حیدرآبادیوں کے لیے گھر کا سا اور حیدرآبادیوں کے ذائقہ کے مطابق کھانا ملتا تھا۔  وہاں کھانا کھاکر آتے،  اور ایک لاج میں قیام تھا۔   تقریبا 20 دن تک کوشش کرنے کے بعد ماہم کے ایک ایجنٹ کے پاس پیسے اور پاسپورٹ دے کر آیا۔  اور کچھ ہی دن بعد روانگی تھی۔  حیدرآباد سے نکل کر اسی بائکلہ والے لاج میں رکا۔  اور تیسرے روز میرا فلائٹ تھا۔  میرے پاس جو پیسے بچ رہے تھے ان کا میں نے جوتا لے لیا کہ کل تو مجھے سفر ہی کرنا ہے۔  پیسے رکھ کر کیا کروں گا۔  صبح میں نے اپنا سامان سمیٹا اور لاج سے چیک آؤٹ کردیا۔  اب بھی میرے پاس کافی وقت تھا۔  تو میں نے سوچا کہ بس سے جاتے ہیں ایرپورٹ،  چونکہ وقت ہے پہنچ جاؤں گا۔  لیکن بمبئی کی مصروف ترین راستے،  میرے پہنچتے پہنچتے دیر ہوگئی۔  جب میں امیگریشن میں پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ ریاض جانے والی فلائٹ تو بند ہوگئی۔  واپس جا‎ؤ اور کل کی فلائٹ۔  یا خدا میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔  میرے پاس جتنے پیسے بچ رہے تھے وہ تو میں نے خرچ کردئے،  اب نہ واپس لاج تک جانے کے پیسے نہ ہی لاج میں رہنے کے پیسے یہ بات دوسروں کے لیے معمولی ہو۔ لیکن میرے لیے بہت ہی مشکل والی تھی۔  اس وقت جو کیفیت میری تھی،  بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔  انسانوں کے اس جنگل میں کوئی نہیں جو مجھے جانتا پہچانتا ہو۔  مجھے تو امیگریشن کاؤنٹر سے کورا جواب مل چکا تھا کہ فلائٹ بند ہوگئی ہے اب کچھ نہیں ہوسکتا۔  کل ہی آنا ہوگا۔  ایسے میں اللہ نے ایسا انتظام کیا کہ میرا رواں رواں اللہ کے لیے شکر کے جذبات سے معمور ہوگیا۔  ہو یوں کہ ایک امیگریشن خاتون آفیسر جو غالبا تاڑ گئی کہ میں کس مصیبت کا شکار ہوں۔  اللہ نے کے دل میں بات ڈال دی۔  اور ان کے لیے کسی دوسری فلائٹ میں سیٹ دینا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔  اس نے مجھے بلایا اور میرا پاسپورٹ لے کر کارروائی شروع کردی اور دہران(ظہران) جانے والی فلائٹ میں میرا انتظام کردیا اور کہا کہ پہلے دہران اورپھر ریاض۔  اس طرح ایک بڑی مصیبت مجھ پر سے ٹل گئی۔  اور یہ اللہ کا مجھ پر خصوصی کرم ہے۔  آج بھی میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالی اس خاتون کو ہدایت سے سرفراز کرے۔  ہوسکتا ہے کہ اللہ نے اسے ہدایت سے سرفراز کردیا ہو۔  اس نے جو برتاؤ میرے ساتھ کیا ویسا ہی نہ جانے کتنوں کے ساتھ کرچکی ہو۔  اور نہ جانے کتنے لوگ اس کے لیے دعا کرتے ہوں۔  اللہ تعالی اس خاتون کو ہدایت سے نوازے اور اس کے معاملات درست کردے۔  آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔