غزل – ٹوٹ جاتے ہیں

اشہد بلال چمن ابن چمن

بھروسہ ہو اگر کمزور رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا بے اعتنائی سے بھی اپنے ٹوٹ جاتے ہیں

ہوائیں تیز ہوتی ہیں تو پتّے ٹوٹ جاتے ہیں
امان و حفظ میں غنچوں کی کانٹے ٹوٹ جاتے ہیں

کسی سے عشق کا رشتہ بہت مضبوط مت کرنا
شجر مضبوط جڑ والے ثمر سے ٹوٹ جاتے ہیں

بکھر جاتا ہے شیرازہ غرور و کِبر والے کا
حریصِ دولتِ دنیا کے بچّے ٹوٹ جاتے ہیں

زمانہ نرم خو انسان کو بھی توڑ دیتا ہے
مگر جو سخت ہوتے ہیں وہ پہلے ٹوٹ جاتے ہیں

جہاں میں اس قدر مکر و ریا کی ہے پذیرائی
دو اک جھوٹوں کے آگے لاکھ سچّے ٹوٹ جاتے ہیں

بڑا نازک تعلّق ہے جہاں میں دوستی یارو
ذرا سی بدگمانی سے بھروسے ٹوٹ جاتے ہیں

خدا بہتر بنائے ازدواجی زندگی سب کی
بڑے ہنس مکھ سے اس میداں میں دیکھے ٹوٹ جاتے ہیں

کبھی بھی دل لگی بننے نہ دو دل کی لگی یارو
بہت تکلیف دیتے ہیں جو سپنے ٹوٹ جاتے ہیں

محازِ زندگی پر اسلحے رکھو اصولوں کے
جہادِ زندگانی میں نہتّے ٹوٹ جاتے ہیں

قصیدہ چاہتے ہیں ہم غزل کی شان میں لکھنا
قلم ٹِکتے نہیں کاغذ پہ رکھتے ٹوٹ جاتے ہیں

کہے! تنہا ملو ہم سے ، کوئی سمجھائے ناداں کو
ملن میں اس طرح کیا کیا نہ جانے ٹوٹ جاتے ہیں

گریزاں ہی رہو ابنِ چمنؔ اونچی اڑانوں سے
ہواؤں سے جو لڑ تے ہیں پرندے ٹوٹ جاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔