چہروں کی تلاش

حفیظ نعمانی
آج سنا ہے کہ وزیر اعظم اپنی وزارت میں توسیع کرنے والے ہیں۔ اور اترپردیش اور اتراکھنڈ کے الیکشن کے پیش نظر کچھ ایسے چہروں کو بھی لیا جائے گا جو 2017کے الیکشن میں مفید ثابت ہوں۔ اس کے ساتھ میڈیا برابر اس پر زور دے رہا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے لئے بھی وزیر اعظم اور پارٹی کے صدر امت شاہ چہرہ کی تلاش میں ہیں۔ بی جے پی کی راہ میں چہرہ کی سب سے بڑی رکاوٹ خود وزیر اعظم ہیں۔ ملک میں ہونے والے ہر صوبائی انتخابات میں صورت حال ایسی تھی کہ صرف اور صرف وزیراعظم تھے۔ اتنہایہ ہے کہ پارٹی کے صدر ہوتے ہوئے امت شاہ کی حیثیت بھی ان سے زیادہ نہیں تھی جو کسی بڑے قوال کی ٹیم میں بیٹھ کر صرف تالی بجاتے ہیں۔ بی جے پی کا حال ایسا ہے کہ جیسے ایک ہال میں اگر سب جمع ہیں تو نریندر مودی صاحب کی حیثیت ایک ہزار واٹ کے بلب کی ہے اور ارد گرد جو بیٹھے ہیں وہ پرانے دور کے لالٹین سے زیادہ نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے ہریانہ مہاراشٹراور آسام تینوں جگہ اکیلے الیکشن لڑا اور کامیاب ہونے کے بعد جس کو چاہا حکومت دے دی۔ یہ بات ہر ایک نے دیکھی کہ وزیر اعلیٰ وہ ہے جسے مودی صاحب نے منشی جی کی طرح بستہ دے دیا ہے۔
ہر یانہ کے جاٹوں نے جو کیا وہ صرف اس کا نتیجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اپنے بل پر الیکشن نہیں جیتا تھا۔ اگر اپنے بل پر وہ ایک طاقتور لیڈر بن کر ابھرے ہوتے تو ایک ہزار جاٹوں کو مروادیتے۔ اور ان سے سیدھے منہ بات نہ کرتے۔ وہ مودی جی کی خیرات پر وزیراعلیٰ بننے کے بعد خود اعتمادی کی طاقت کہاں سے لائیں؟ اس کا نتیجہ ہے کہ جس رزرویشن کے لئے جاٹوں نے غیر جاٹوں کا چالیس ہزار کروڑ روپئے کے کاروبار راکھ کا ڈھیر کر دئے وہ پھر سات فٹ کی لاٹھی لیکر آئے اور وزیراعلیٰ کو رزرویشن کا بل اسمبلی میں پاس کرانا پڑا۔ اور وزیر اعلیٰ کی کمزوری اور جاٹوں کی شہ زوری کا یہ حال ہے کہ 100جاٹ بھی گرفتار نہیں ہوئے۔ اور جو گرفتار ہوئے ہیں ان کے لئے جاٹوں کا مطالبہ ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ انہیں رہا کر دیا جائے۔
ہم نے اور ہم جیسے لاکھوں لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے کہ اترپردیش میں سی بی گپتا کانگریس کا چہرہ تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وزیر اعظم پنڈت نہرو ان کی ریاست کا دورہ کریں۔ لیکن جب آتے تھے تو ہر اس جگہ ساتھ ہوتے تھے جہاں پنڈت جی تقریر کرتے تھے۔ان کے علاوہ اترپردیش میں کملاپتی ترپاٹھی تھے چودھری چرن سنگھ تھے۔ اسی طرح ہر صوبہ میں کانگریس کے پاس چہرے ہوتے تھے۔ وہ اس وجہ سے تھے کہ انہوں نے خود قربانی دی ہوئی ہوتی تھی۔ اس وقت حال یہ تھا کہ بہار میں بھی مہامایا پرشاد سنہا تھے ستیندر نرائن سنہا تھے بابو جگ جیون رام تھے۔ بنگال میں اجے مکھرجی تھے ڈاکٹر گھوش تھے۔ مہاراشٹر میں ایس کے پاٹل تھے گجرات میں مرارجی ڈیسائی تھے اور مادھوسنگھ سو لنکی تھے۔ مدھیہ پردیش میں تخت مل جتین تھے اورنہ جانے کون کون تھے۔ کہیں چہروں کی کمی نہیں تھی۔ لیکن آج کا نگریس کو بھی اترپردیش کے لئے کوئی چہرہ نہیں مل رہا ہے۔ پرشانت کشور سنا ہے کہ مسز شیلا دکشت کا بار بار نام لے رہے ہیں۔ معلوم نہیں وہ کیوں بھول رہے ہیں کہ کامن ویلتھ کھلیوں کے معاملہ میں جن کے اوپر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے ان میں ایک نام شیلا جی کا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے صلاحیت نہیں تو اور کیا کہا جائیگا کہ ایک چیز کی قیمت بازار میں ایک ہزار روپئے ہے۔ اور اگر اسے ایک مہینہ کے لئے کرایہ پر لیا جائے تو 12سوروپئے ہونگے۔ شیلا جی ایک ہزار میں خرید نے کے بجائے 12سو میں کرایہ پر لیتی ہیں اور دلیل یہ ہے کہ جب کھیل ختم ہو جائیں گے تو اسے کہاں رکھیں گے۔ اور کون حفاظت کریگا؟
بات ہو رہی تھی بی جے پی کے چہرے کی۔ کانگرس کے پاس چہرے ہوتے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ایک تاریخ تھی۔بی جے پی تو بنی ہی 1980میں ہے اور اس کی عمر کل 45سال ہے ۔ جس میں وہ زمانہ بھی ہے جب پارلیمنٹ میں اس کے صرف 2ممبر تھے۔ اور وہ زمانہ بھی ہے جب 28پارٹیوں کو ملا کر اٹل جی نے حکومت بنائی تھی۔ اور یہ بات تو آج پارلیمنٹ کے ممبروں کو دیکھنے سے معلوم ہوجاتی ہے کہ بی جے پی کے پاس تو اس وقت بھی چہرے نہیں تھے جب وہ پارلیمنٹ کا الیکشن آرپار کی جنگ کی طرح لڑنے کے لئے بھرتی کر رہی تھی۔ کتنے ہی چہرے ایسے ہیں کہ اگر بی جے پی ملک کی مقبول اور عوامی پارٹی ہوتی تو انہیں کارپوریٹر کا ٹکٹ دیتے وقت بھی سوچتی کہ دیا جائے یا نہ دیا جائے؟
کیا واقعی کسی وزیر کے یہ جملے ایسے ہیں کہ ان پر فخر کیا جائے کہ وزیر بننے کے بعد میرے بار ے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ میں لاٹھی ڈنڈے قرولی اور تلوار سے رشتہ ختم کر چکا ہوں؟ چہرہ کی بات یہ ہے کہ وہ بنایا نہیں جاتا خود بنتا ہے۔ ملائم سنگھ تو پرانے ہیں مس مایاوتی کو کاشی رام بنانا چاہتے تھے۔ لیکن بنانے سے پہلے ہی وہ مفلوج ہو گئے اور مایاوتی جو کچھ بنی وہ صرف اپنے بل پر بنیں۔ اور اس لئے بنیں کہ انہوں نے ملائم سنگھ سے مقابلہ کی ٹھانی اور انہیں ہرایا۔ بس اس کے بعد وہ قومی لیڈروں میں سے ایک بن گئیں۔ آج پورا ملک ایک لیڈرکو دیکھ رہا ہے جس کی سیاست کی عمردس سال بھی نہیں ہے۔ اسے شری انا ہزارے نے اپنے ساتھ لگایا۔ اور جب لوک پال بل کو پاس کرانے کے لئے انّا جی نے تحریک چلائی تو کجریوال اور پرشانت بھوشن دو نئے چہرے ان کے ساتھ نظر آئے۔ حکومت نے کہا کہ پانچ ممبر آئیں اور وزیروں سے بات کرلیں۔ وزیروں میں کپل سبّل ، سلمان خورشید اور کوئی ایک وزیر اور ہوتا تھا ۔ گفتگو کے ختم ہونے کے بعد جب انّا جی باہر آتے تھے تو ان کے ساتھ بھوشن باپ بیٹے اور کجریوال ہوتے تھے۔ باہر آتے ہی پریس کے رپورٹر گھیر لیتے تھے اور ان سے صرف کجریوال بات کرتے تھے۔ ان کی گفتگو کا انداز اور ان کے دماغ اور جسم کا پھرتیلا انداز دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ انّا ہزارے کے داہنا ہاتھ بن گئے۔ اس وقت ہم نے کہا تھا کہ لوک پال بنے نہ بنے ملک کو ایک لیڈر مل گیا۔ اور وہی ہوا کہ آج دہلی میں جتنے ووٹ کجریوال کو ملے ہیں، شاید ہی کبھی کسی کو ملے ہوں؟ اور اب وہ پنجاب میں ایک لیڈر کی طرح داخل ہو رہا ہے۔یہ سب سے کم سیاسی عمر والا لیڈر آج اس پوزیشن میں ہے کہ وزیر اعظم راہل گاندھی کے مقابلہ میں اسے زیادہ اہمیت دینے پر مجبور ہیں۔
اب اگر مودی جی یہ چاہتے ہیں کہ ہر صوبہ میں ایک چہرہ ہو تو صوبہ اسے دیدیں اور خزانہ کا ایک حصہ اس کے سپرد کردیں۔ اور اسے یہ اختیار دیں کہ وہ جسے چاہے ہیلی کاپٹر دے اور جس سے چاہے وزیر بنانے کا وعدہ کرے۔ مودی صاحب آئیں اور ضرور آئیں لیکن اسکا فیصلہ وہ چہرہ کریگاکہ کہاں ایک بار بھی نہ آئیں اور کہاں دو بار آئیں۔ جس صوبہ میں یہ تجربہ کر لیا جائیگا وہاں حکومت ملے نہ ملے ایک مقبول چہرہ مل جائے گا۔ لیکن جب تک وہ یہ چاہیں گے کہ چہرہ بھی ہو اور وہ صبح شام مودی جی کے پاؤں چھونے دہلی بھی آئے تو وہ عمر بھر تلاش کریں چہرہ نہیں ملے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔