رابطہ عالم انسانی- ضرورت اور بنیادیں

مولانا عبدالبر اثری فلاحی

’’حضرت نظام الدین اولیا، ؒ کی خدمت میں ایک بار ایک صاحب قینچی کا ہدیہ لائے۔ انہوں نے قبول کرتے ہوئے کہا : کاش کہ تم سوئی لائے ہوتے۔ اس وقت کانٹنے والے بہت ہیں سینے والا کوئی نہیں ۔ اس وقت جوڑنے کی ضرورت ہے توڑنے کی نہیں‘‘۔
یہ بات حضرت نے اس وقت کے پس منظر میں کہی تھیں لیکن آج کے احوال پر بھی صد فی صد چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید ذرائع ابلاغ اور وسائل حمل و نقل نے رابطوں اور قربتوں کو اس قدر بڑھادیا ہے کہ دنیا ایک عالمی گاؤں (Global Village) کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ لیکن یہ صرف ظاہری صورت ہے۔ حقیقت واقعہ اس کے برخلاف ہے۔ عالمی گاؤں بنانے کے پیچھے اصلاً مادی مفادات کا حصول اور استحصالی ذہنیت کا ر فرما ہے ورنہ ساری سہولتوں اور قربتوں کے باوجود انسانی دلوں کی دوریاں کم نہیں ہورہی ہیں بلکہ بڑھتی جارہی ہیں۔ کہیں ملکی اور سرحدی جھگڑے ہیں۔ کہیں رنگ و نسل کا تصادم ہے۔ کہیں دولت و اقتدار کی جنگ ہے۔ کہیں مفادات کا ٹکراؤ ہے غرضیکہ ہر ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہے اور کسی کو کسی کا پاس ولحاظ نہیں ہے گویا پوری دنیا خانہ جنگی کا شکار ہے اور سارے عالم کا امن و امان غارت ہے۔ کیا ایسے میں ضرورت نہیں کہ دنیا کو انسانیت کا درس دیا جائے اور ان کے درمیان رابطہ کی ایسی صورت استوار کی جائے کہ ہر ایک کو امن و چین نصیب ہو اور ہر ایک کامیاب و خوشحال زندگی گزار سکے۔ رابطہ عالم انسانی کا خیال دراصل اس ضرورت کی تکمیل کے لئے پیدا ہوا۔
یہاں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر یہ گول حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اللہ اور اس کے رسول نے اس نازک مسئلہ میں بھی ہماری بڑی ٹھوس اور بنیادی رہنمائی فرمائی ہے ضرورت ہے کہ ہم اس کو سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں۔
(1) وحدت الہ:
یعنی یہ تصور عام کیا جانا چاہئے کہ ساری کائنات اور کائنات کی ساری چیزیں اللہ وحدہ لا شریک نے پیدا کی ہیں وہی مالک ، رازق اور حاکم ہے ۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اس لئے ہمارے درمیان دوئی درست نہیں۔ ’’کُوْنُوْا عِبَادَ اﷲِ اِخْوَاناً‘‘ (متفق علیہ ) بھائی بھائی بن کر اللہ کے بندے ہو جاؤ۔ کہہ کر رسول اللہ ﷺ نے اسی بات کی طرف متوجہ کیاہے ۔ ایک دوسرے موقع سے رسول اللہ ﷺنے تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیتے ہوئے بڑے پیارے انداز میں حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا’’اَلْخَلْقُ عَیَالُ اﷲِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلٰی اﷲِ مَنْ اَحْسَنَ اِلیٰ عَیَالِہٖ‘‘ (مشکوۃ المصابیح)’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔ مخلوق میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ بندہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ حسن سلوک کرے ‘‘۔
(2) وحدت آدم :
ہر انسان کو یہ سمجھانا چاہئے کہ ان کی اصل ایک ہے یعنی وہ سب ایک ماں باپ آدم و حواعلیہما السلام کی اولاد ہیں اور اس لحاظ سے سب برابر ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع سے ارشاد فرمایا تھا’’اے لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو ، کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں ہے مگر تقویٰ کے ذریعہ ‘‘(مسلم) اس بیان کے ذریعہ دراصل رسول اللہ ﷺ نے پیغام دیا ہے کہ جس طرح ایک ماں باپ کے بیٹے سیرت و صورت میں مختلف ہونے کے باوجود حقوق میں برابر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتے ہیں ، چھوٹے چھوٹے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے تمام انسانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسا ہی بننے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ قرآن مجید میں بھی یہ بات بار بار ذہنو ں میں بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’یَا اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَ نِسَاءً‘‘ (النساء:1) ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادئیے ‘‘۔
قوموں اور خاندانوں کی تقسیم جسے لوگوں نے فخرو غرور کا ذریعہ بنالیا ہے اس کی حقیقت بھی سمجھا ئی گئی ہے ، اور فضیلت کا اصل معیار تقویٰ ہے اس حقیقت سے بھی روشناس کرایا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَ اُنْثیٰ وَ جَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَ قَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اتْقَاکُمْ‘‘ (الحجرات:13) ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لئے تقسیم کیا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے اشرف وہ ہے جو تم میں سب سے پرہیز گار ہے‘‘۔
اس آیت میں اصلاً یہ سبق دیا گیاہے کہ فضیلت کا اصل معیار فطری اور پیدائشی چیزیں نہیں ہوسکتی ہیں ۔ کسی گھر خاندان اور علاقے میں پیدا ہونا یہ اتفاق ہے ۔ اصل فضیلت کا معیار انسان کی اکتسابی (کمائی ہوئی ) چیز ہوسکتی ہے اور وہ تقویٰ ہے جو اسے حاصل کرلے وہ گویا فضیلت کا حق دار بن جائے گا خواہ اس کا تعلق کہیں سے اور کسی سے ہو ۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ حبشی نژاداور نسلاً غلام تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ بر سر عام ان کو ’’سَیِّدُنَا‘‘’’ہمارے سردار ‘‘کہتے تھے۔ سلمان فارسیؓ ایرانی تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں اہل بیت میں شمار فرمایا ’’سَلْمَانُ مِنَّا مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ‘‘ عبداللہ ابن مکتوم آزاد شدہ غلام تھے لیکن رسول اللہ ﷺنے اپنے عدم موجودگی میں سولہ بار مدینہ کا گورنر بنایا۔ ابو بکر و عمرؓ وغیرہ کے موجود ہوتے اسامہؓ بن زید کو امیر لشکر بنایا جو غلام زادہ تھے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آزاد کردہ غلام تھے ان کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن زینب سے کرایا۔ مقداد بن اسود بنو زہرہ سے تھے جو بنو ہاشم سے کم تر سمجھے جاتے تھے ان کا نکاح اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیرؓ سے کیا اور فرمایا مقداد اور زید کا نکاح ہم نے اس طرح اس لئے کیا ہے تاکہ اخلاق ہی شرافت کا معیار قرار پائے ’’لِیَکُوْنَ اَشْرَفَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَحْسَنَکُمْ خُلْقاً‘‘ (بیہقی :1377) حضرت بلالؓ کو عجمی اور حبشی ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی لڑکی نہیں دینا چاہتے تھے لیکن آپ ﷺ نے خود ایک عرب نژاد خاتون فاطمہ بنت قیس سے کہا : ابو طیبہ نے بنو بیاضہ کے یہاں نکاح کردیا۔ آپ ﷺ نے انہیں نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد پیدا ہوگا ’’اِلاَّ تَفْعَلُوْ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ‘‘ (بیہقی :7/136)ان عملی نمونوں کے ساتھ آپ ﷺ نے اعلان بھی فرمادیا تھا ’’اِنَّ اﷲَ قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ عُبَیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَ فَخْرَھَا بِاْلآبَاءِ اِنَّما ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ اَوْ فَاجِرٌ شَقِیٌّ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ وَ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ‘‘ (ترمذی ، ابوداؤد) ’’اللہ تعالیٰ نے جاہلی نخوت اور باپ دادا پر فخر و غرور کو تم سے دور کردیاہے اب یا تو پرہیز گار مومن ہے یا بدبخت فاسق و فاجر ، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے‘‘۔ ایک دوسرے موقع سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’لَیْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا اِلیٰ عَصَبِیَّۃٍ‘‘ (ابوداؤد) جو عصبیت کی دعوت دے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
(3) عدل و انصاف کا قیام:
دنیا میں جو بگاڑ اور انتشار پایا جاتا ہے اس کے بنیادی عوامل میں سے ایک بڑا عامل ظلم و تعدی ہے اور اس کا خاتمہ عدل و انصاف کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔ عدل و انصاف کے قیام کی صورت ہی میں معاشرہ اپنی اصلی حالت پر باقی رہ سکتا ہے اسی لئے قرآنی اوامر میں اسے سب سے پہلا مقام دیا گیاہے ’’اِنَّ اﷲَ یَأْمُرْ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَاِیْتَاءِ ذِیْ الْقُرْبیٰ‘‘(النحل:90) ’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل ، احسان اور رشتہ داروں کو عطا کرنے کا حکم دیتا ہے ‘‘۔ نہ صرف حکم دیا گیاہے بلکہ اہمیت کے پیش نظر اس کے قیام کو ہر حال میں لازم ٹھہرایا گیاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بالْقِسْطِ شُھَدَاءَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلیٰ اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَکُنْ غَنِیّآ اَوْ فَقِیْراً فاﷲُ اَوْلیٰ بِھِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوْاالْھَویٰ اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوُوْ ا اَوْ تُقِرضُوْ ا فَاِنَّ اﷲَ کاَنَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً‘‘ (النساء:135) ’’اے ایمان والو! قسط پر جمے رہو۔ اللہ کے لئے اس کی شہادت دیتے رہو اگرچہ شہادت خود تمہاری اپنی ذات ، تمہارے والدین ، تمہارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے ، کوئی امیر ہو یا غریب اللہ دونوں ہی کا سب سے زیادہ حق دار ہے تو تم خواہش کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ ۔ اگر کجی کرو گے یا اعراض کرو گے تو یادرکھو کہ جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے ‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:’’یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَاء بِالْقِسْطِ وَ لاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنْاآنُ قَوْمٍ عَلیٰ اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْ ا ھُوَ اَقْرَبُ للِتَّقْویٰ‘‘ (المائدہ: 8) ’’اے ایمان والو! عدل کے علمبردار بنو۔ اللہ کے لئے اس کی شہادت دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو، عدل کرو ، یہی تقویٰ سے قریب تر ہے ‘‘۔
یہ صرف نظری تعلیم نہیں بلکہ اہل اسلام نے اسے عملاً برت کر دنیا کو گل گلزار بنا کر دکھایا ہے ۔ مثلاً عمرؓ کے زمانے میں مصر کی ایک مسیحی عورت نے مصر کے گورنر عمرو بن العاصؓ کی شکایت کی کہ انہوں نے زبردستی میرا گھر مسجد میں شامل کرلیا ہے ۔ حالانکہ عمر و بن العاصؓ نے آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے توسیع کی تھی اور جگہ کی منھ مانگی قیمت پیش کی تھی پھر بھی عمرؓ نے عدل کے ادنیٰ تقاضوں کی تکمیل کیلئے حکم دیا کہ مسجد کی نئی تعمیر منہدم کردی جائے اور اس عورت کو اس کا گھر سابق حالت میں لوٹادیا جائے ۔
جب عدل کی یہ مثالیں قائم ہوئیں تود نیا امن کا گہوارہ بنی اور آئندہ بھی ایسا ہی عدل قائم کیا جائے گا تبھی دنیا امن و خوشحالی کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔ ورنہ اقوام متحدہ قائم کرکے اور حقوق انسانی کے ضوابط بنادینے سے کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ عدل نہ قائم کیا جائے ۔ صرف خاص پانچ ممبر ممالک کو ویٹو پاور دے کر سارے حقوق پر پانی پھیر دیا گیاہے ۔ ان کی مرضی کے بغیر کسی مجرم ملک کو سز ا نہیں دی جاسکتی۔ اسرائیل کے ظلم کے خلاف مذمتی قرار داد تک پاس نہیں ہوپائی اس لئے کہ امریکہ ویٹو کردیتا ہے ۔ خود ویتنام ، ہیروشیما ، ناگا ساکی ، جنوبی افریقہ ، افغانستان، عراق اور لبنان میں امریکہ اور اس کے کارپرداز جو کچھ کررہے ہیں اس کا محاسبہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ظاہرہے کہ ایسی صورت میں انتقام کی بھٹی کو بھڑکنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
(4) حقوق طلبی سے زیادہ فرائض کی ادائیگی پر زور:
عام چلن یہ ہے کہ ایک دوسرے کے جو حقوق تسلیم شدہ ہیں عموماً لوگ اس کی ادائیگی کی امید لگائے رہتے ہیں اور اگر وہ حقوق ادا نہ کئے جائیں تو مطالبات اور احتجاجات کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بظاہر کشمکش اور تصادم کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے اور ہمیشہ دفاعی و حفاظتی Defensive and protectiveاپروچ بنا رہتاہے ۔ظاہرہے کہ اس سے تعلقات اور رابطوں کا جو لطف و مزہ ہے وہ مٹ جاتاہے ، اور حقوق و واجبات ایک جبری شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
اس سلسلے میں صحیح تر طرز عمل وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بتائی ہے کہ حقوق سے زیادہ فرائض کے ادائیگی کی فکر ہونی چاہئے اور ہر ایک کو اس پر زیادہ توجہ دینی چاہئے کہ اس کے ذمے جو دوسروں کا حق تھا وہ اس نے ادا کیا یا نہیں؟ اگر طرز عمل یہ بن جائے تو تعلقات کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے ۔ آپ خود غور کریں زکوٰۃ مانگ کر لینے میں لطف ہے یا زکوۃ دینے والا خود پہنچادے تو اس میں اصل لذت و مسرت ہے ۔ اسلام اس اعلیٰ معیار کو اپنانے کی تلقین کرتاہے اور اصل لطف زندگی اسی میں ہے۔
(5) برائی کا بدلہ بھلائی سے :
بدلہ ملنا چاہئے یہ ہر ایک کا حق ہے ۔ لیکن بدلہ لینا دینا لین دین کے مترادف ہے ۔ اصلاً تعلقات میں استواری اور حسن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب جواب عمدہ یا عمدہ تر ہو۔ اس لئے عدل و قصاص کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس اعلیٰ معیار کی طرف بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی ہے اور اس کا بڑا بہتر انجام بھی بتایا ہے ۔ ارشاد رباری تعالیٰ ہے: ’’وَلاَ تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَ لاَ السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمیْمٌ ‘‘ (حم ٓالسجدۃ :34)’’بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی تو برائی کا ایسے طریقہ سے جواب دو جو بہت اچھا ہو۔ ایسا کرنے سے تم دیکھو گے کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست بن گیا ‘‘۔
دوسری جگہ کامیاب انسانوں کی خوبیاں گناتے ہوئے ارشاد ہے :’’وَ یُدْرَؤُوْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَیِّءَۃَ أُولَءِکَ لَھُمْ عُقَبیٰ الدَّارِ‘‘ (الرعد: 22) ’’جو لوگ نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لئے عاقبت کا گھر ہے ‘‘۔
(6) ایثار:
یعنی انسانی تعلقات اور رابطوں کو استوار کرنے اور مضبوط بنانے کے لئے صرف حقوق و فرائض ادا کرنا کافی نہیں بلکہ اسے اعلیٰ وارفع مقام تک پہنچانے کے لئے دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا اور اپنے کام کو مؤخر کرکے دوسرے کی حاجت روائی کرنا مطلوب ہے جسے اخلاقیات کی زبان میں’’ ایثار‘‘ کہا جاتاہے ۔ یہی وہ خوبی ہے جس نے صحابہ کرام کے تعلقات کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا تھا۔ انہیں کی عکاسی کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُؤلءِکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ (الحشر:9) ’’وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود فاقہ سے ہوں اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا سمجھو کہ وہی کامیاب ہے ‘‘۔
بخاری میں خود رسول اللہ ﷺ کا یہ طرز عمل منقول ہے کہ ایک خاتون نے آپ کو چادر ہدیہ کی۔ آپ کو ضرورت تھی آپ اوڑھے ہوئے تھے ایک شخص نے حاضر ہوکر اسے طلب کیا تو ضرورت ہونے کے باوجود آپ نے وہ چادر اسے عنایت کردی۔ اسی طرح بخاری میں ایک دوسری روایت ہے کہ ایک موقع سے کچھ مہمان آئے ۔ ازواج مطہرات کے پاس ضیافت کے لئے کچھ نہ تھا تو مہمانوں کی ضیافت ایک صحابی کے ذمے کردی ۔ وہ گھر گئے تو چراغ بجھا کر سب کچھ مہمانوں کو کھلادیا اور خود مع اہل و عیال بھوکے سو گئے ۔ یہ تھا ایثار اور اس طرح وہ لوگوں کا دل جیتتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں گھر بناتے تھے۔ آج تو انسان مہمانوں کو بوجھ سمجھتا ہے اور جھگی جھونپڑی میں رہنے والوں کی بھوک کی کسک بھی محسوس نہیں کرتا۔ پھر بھلا انسانیت کیسے زندہ و پائندہ ہوگی۔ ایسی انسانیت تو حیوانیت سے بدتر ہے ۔ ؂
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

تبصرے بند ہیں۔