چیف جسٹس آف انڈیا کا مواخذہ حق و انصاف کا متقاضی

عبدالعزیز

   کہا جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہے مگر جب بڑوں کی بدعنوانیوں اور نا انصافیوں کا معاملہ آتا ہے تو سب کی پالکی رکھا جاتی ہے۔ کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جن کا ضمیر زندہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ہندستان کی عدالت عظمیٰ میں الٹ پھیر کئی بار ہوا جس سے حق و انصاف کو صدمہ پہنچا اور عدالت کا وقار مجروح ہوا۔ سب سے پہلے جواہر لال نہرو کے زمانے میں ہوا جب ان کی بیماری کی وجہ سے دوسرے لوگ ان کا کام کاج سنبھالے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی مرضی کے مطابق اوپر والے کو نیچے اور نیچے والے کو اوپر کردیا۔

  یہ واقعہ ہے 1964ء کا جعفر امام کو چیف جسٹس آف انڈیا کا عہدہ سونپا جانا چاہئے تھا مگر جواہر لال نہرو کے اعتراض کے باوجود سینئر جج بی پی گجندر گڈکر کو چیف جسٹس کے منصب پر بٹھا دیا گیا۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں کئی بے ضابطگیاں ہوئیں اور اپنے آپ کو بچانے کیلئے عدالتوں کے وقار کو مٹی میں ملا دیا۔ ایمرجنسی میں بنیادی حقوق کی معطلی کیلئے سینئر جج اے این رے کو کئی سینئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چیف جسٹس مقرر کردیا گیا۔ انھوں نے عدالت کی ایک پانچ رکنی بنچ کی قیادت کرتے ہوئے ایمرجنسی کے دوران شہریوں کے تمام بنیادی حقوق کو معطل کئے جانے کے آئینی جواز پر مہر لگاکر ان کا قرض چکا دیا۔ اس وقت کے ایک سینئر جج ہنس راج کھنہ نے اس فیصلے سے اختلاف کرکے ملک کا گلا چیف جسٹس نہیں بنائے جانے کا خطرہ مول لیا، جس کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی۔ ان کے کورٹ روم میں آج بھی ان کی تصویر آویزاں ہے، اسی روم میں آج کے کھنہ جسٹس چلمیشور عدالت کی کرسی سنبھالتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس چلمیشور کو جسٹس کھنہ کے اقدام سے اخلاقی جرأتمندی کا جذبہ ملا ہوگا۔ ان کے ساتھ تین اور سینئر ججوں نے اپنے ضمیر کی آواز بلند کی۔ ان میں سے ایک جسٹس رنجن گگوئی نے وہی کر رکھا یا جو جسٹس کھنہ نے کیا تھا یعنی اپنے چیف جسٹس بننے کی کوئی پروا نہیں کی بلکہ حق و انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے اور ملک کے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایسے لوگ تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کیلئے سنہرے حرفوں سے لکھا جاتے ہیں جسے گردشِ زمانہ کبھی مٹا نہیں سکتا۔ ایسے لوگ دنیا کی لاج رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں سے انسانی حقوق اور انسانیت کو جلا ملتی ہے۔ ان کے بعد اور سینئر ججوں نے بھی اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں سوچاوہ جسٹس مدن بولکر اور جسٹس کورین جوزف ہیں ۔ آج پورے ہندستان میں ان تینوں ججوں کی جرأتمندی کو سلام کیا جارہا ہے اور کئی گوشوں سے آواز بلند ہورہی ہے کہ چیف جسٹس دیپک مشرا جن پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کا بھری بزم میں یعنی قانون ساز ادارے میں مواخذہ ہوتا کہ عدلیہ کا وقار جو مجروح ہوا ہے وہ بحال ہو۔ دہلی کورٹ کے وکلاء رابطہ کمیٹی نے آواز بلند کی ہے کہ اگر چیف جسٹس نے اپنی بے قاعدگی اوربے ضابطگی کو خیر باد نہیں کیا اور جانبداری اور نا انصافی کا سلسلہ جاری رکھا تو پورے ہندستان میں مہم چلانے پر مجبور ہوگی۔ ایسی آواز وکلاء کی دیگر انجمنوں سے بھی بلند ہونی چاہئے۔

  پڑوسی ملک میں چیف جسٹس نے ملک کے ڈکٹیٹر کو ہٹانے اور جمہوریت کو بحال کرنے کیلئے ایسی زور دار تحریک چلائی کہ وقت کے ڈکٹیٹر کو اپنی کرسی چھوڑنی پڑی۔ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہونا چاہئے کہ اقتدار کی کرسی جتنی بھی اونچی ہو اور اس پر بیٹھنے والا شخص جوبھی ہو اس کی کرسی کی بلندی اور اونچائی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے قانون کی نظر میں سب کے برابر سمجھتے ہوئے ایسی کارروائی ضروری ہے، جس سے انصاف کا تقاضا پورا کیا جاسکے۔ کانگریس پارٹی میں چیف جسٹس کے مواخذہ کے بارے میں سوچا جارہا ہے مگر دیگر پارٹیاں اتنے بڑے واقعہ پر خاموش ہیں جو ناقابل فہم ہے کیونکہ اگر جمہوریت کا یہ ستون میڈیا انتظامیہ اور مقننہ کے برابر ہوگیا تو ملک کو بربادی اور تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ جمہوریت کا یہی ایک ستون پورے طور پر گرنے سے بچا ہوا تھا۔ اگر اسے بھی گرا دیا گیا تو آج جو کہا جارہا ہے کہ جمہوریت پر خطرہ ہے یہ خطرہ خطرہ نہیں رہے گا بلکہ تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہوگا۔

  ملک کی موجودہ حکومت اور اس کے کرتا دھرتا سنگین قسم کی لاقانونیت کا شکار ہیں ۔ جو جتنے بڑے ہیں ان کے ماضی کی زندگیوں کے ساتھ حال کی زندگیوں کا ریکارڈ اتنا ہی گھناؤنا ہے۔ ان سے اچھائی کی امید رکھنا نادانی ہوگی۔ اگر امید کی جاسکتی ہے تو ایسے لوگوں سے جیسے عدالت عظمیٰ کے چار سینئر ججوں سے ہے یا عوام کے اس حصہ سے جوہر ایسی آواز پر لبیک کہتا ہے جو ملک و قوم کے سنوارنے یا بنائے ر کھتی ہے۔ ملک کے دستور میں بدقسمتی سے نیچے کی عدالتوں کے مواخذہ کی بات موجود ہے مگر چیف جسٹس کے مواخذہ کے بارے میں دستور خاموش ہے جبکہ اس کا ذکر دستور میں نیچے کی عدالتوں سے بھی زیادہ واضح ہونا چاہئے تھا۔ کانگریس کے وکلاء باہمی مشورے سے چیف جسٹس کے مواخذہ (Impeachment)کی کارروائی کیلئے پیش قدمی کرسکتے ہیں ۔ ملک کی مختلف ریاستوں اور اضلاع کے وکلاء کی انجمنوں کی بھی ڈیوٹی ہے کہ وہ پرزور آواز مواخذہ کیلئے بلند کریں ۔ بعض گوشوں سے چیف جسٹس کے استعفیٰ کی آواز بھی اٹھنی چاہئے؛ حالانکہ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو آسانی سے کرسی چھوڑ دیں ۔ ایسے لوگوں کو پکڑ کر کرسی سے اٹھانے کی نوبت آجاتی ہے۔ جسٹس دیپک مشرا کو حکومت کا سہارا ہے، اسی لئے ان کا استعفیٰ دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین یا کسی ریاست کی گورنری کی بھی خواہش موجزن ہوگی۔

  ماہر قانون طاہر محمود کا کہنا بالکل صحیح ہے کہ عدالت عظمیٰ کی آزادی کا اگر پاس و لحاظ ہو تو ایسا قانون مرتب کیا جائے یا عدالت عظمیٰ میں ایسا فیصلہ کیا جائے کہ ریٹائرڈ ججوں چیف جسٹس سمیت کسی کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ یا کسی ادارہ یا کمیٹی کی چیئرمین شپ نہیں دیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک یہ چیز رہے گی عدلیہ میں چور دروازے سے سیاست کی نقب زنی کو روکنا محال ہوگا۔ میرے خیال سے اسے کسی فرد یا پارٹی کی طرف سے عوامی یا ملکی مفاد (PLI)کے تحت عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے۔ طاہر محمود صاحب ایک ماہر وکیل اور قانون کے اچھے واقف کار ہیں ان کو پیش قدمی کرنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔