ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی اورشبلیات کی تعریب و توسیع

نایاب حسن 

شبلی -ایک شخص،ایک ادارہ:

علامہ شبلی نعمانی(1857-1914) انیسویں صدی کے ہندوستان کاایک ایسانام ہے،جس کی تاریخی علمیت،فکری بلندقامتی،ادبی و تنقیدی بصیرت، علمی برتری،تہذیبی آگاہی اور مطالعاتِ اقوام ومذاہب کے باب میں امتیازی شناخت تب سے لے کراب تک قائم ہے،اُنھوں نے بطورِخاص اردوکتب خانے کوایسی قیمتی تصنیفات سے مالامال کیا،جن کی نظیرنہیں ملتی،حقیقت یہ ہے کہ شبلی نعمانی اپنی بے پناہ خدمات اور حصولیابیوں کی بناپرتنِ تنہاایک عہد ہیں ، ایک ادارہ ہیں ،ایک انجمن ہیں اورایک اکیڈمی ہیں ۔قدرت نے اُنھیں ایسے اساتذہ،پھررفقاے کاراورماحول سے نوازا،جنھوں نے مل کر ان کے علمی و فکری ذوق کی آبیاری کی اورعنفوانِ شباب سے ہی ان کی تصنیفی صلاحیت،فکری تعمق اور گیرائی کے نمونے سامنے آنے لگے۔انھوں نے علم و ادب ، نقدونظر، تاریخ وتہذیب اور فکروفلسفہ کے بیشتر موضوعات کواپنی قلم را نی کاموضوع بنایااوران میں سے ہرایک کاحق اداکیا۔

شبلیات کی توسیع-ایک اہم علمی ضرورت:

 شبلی کی تمام تر تصانیف اپنی غیر معمولی علمی،ادبی،فکری و تحقیقی اہمیت کے پیش نظر اس بات کی متقاضی تھیں کہ ان کا مختلف زبانوں ،بطورِ خاص عربی زبان میں ترجمہ کیاجاتا اور انھیں علمی دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی۔دبستانِ شبلی سے وابستہ اہلِ علم و نظر افراد کی کمی نہیں ہے اور یہ ایک خوش آیند حقیقت ہے کہ شبلی نے اپنے پیچھے باکمال شاگردوں اور عقیدت مندوں کی جو کھیپ چھوڑی تھی،اس میں بعد کے زمانوں میں اضافہ ہوتا رہا اور سید سلیمان ندوی ، مولانامسعود علی ندوی، علامہ حمیدالدین فراہی،عبدالسلام ندوی، شاہ معین الدین ندوی ،مولاناعبدالباری ندوی،مولاناریاست علی ندوی، مولانا ابوالحسنات ندوی، سیدصباح الدین عبدالرحمن اور دورِ حاضر میں مولاناضیاء الدین اصلاحی،ڈاکٹرمحمد الیاس اعظمی اور پروفیسراشتیاق احمدظلی سمیت دارالمصنفین کے دیگر ذمے داران ،رفقاومحققین نے ان کے علمی و تحقیقی مشن کو پوری تندہی سے رواں دواں رکھا۔البتہ شبلی کی تصانیف کے ترجمہ پر خاطر خواہ توجہ اب تک نہیں دی گئی ہے،یہ الگ بات ہے کہ ملک و بیرونِ ملک کے اربابِ علم و تحقیق اور شبلیات سے دلچسپی رکھنے والے متعددافراد نے اپنے طورپران کی تصانیف،رسائل اور مقالات کودسیوں زبانوں میں منتقل کیاہے؛چنانچہ اب تک ان کی تصانیف ومقالات کاایک معتدبہ حصہ انگریزی، بنگالی، پشتو، تاجک، ترکی، تمل، کنڑ، ملیالم، مراٹھی اورفارسی و عربی زبانوں میں منتقل کیا جاچکاہے۔

  شبلیات کی توسیع واشاعت میں سرگرم کردارادا کرنے والے باتوفیق افراد میں سے ایک ہمارے استاذِگرامی قدر، خطۂ اعظم گڑھ کے ہی ایک باکمال فرد اورعربی زبان وادب و تحقیق کے فاضل ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی (اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) بھی ہیں ،انھوں نے اب تک شبلی کی کئی اہم تصانیف،مقالات اور رسائل کا عربی ترجمہ کرنے کے ساتھ شبلیات پر لکھے گئے بعض اہم علمی، تحقیقی و تنقیدی مقالات کوعربی کے قالب میں ڈھال کر عام کیا ہے ۔

ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی-علمی سراپا،عملی سرگرمیاں :

 ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی ہمارے عہد کے ان گنے چنے لوگوں کی صف میں نمایاں ہیں ،جو پوری یکسوئی،دلجمعی اور دیدہ وری کے ساتھ علمی،ادبی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ،21؍اگست1977ء کوپیدا ہوئے،فضیلت تک کی تعلیم ہندوستان کی معروف دینی وعلمی دانش گاہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے حاصل کی،اس کے بعد عربی زبان و ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دہلی سے وابستہ ہوئے اور1999ء میں گریجویشن مکمل کیا،2001ء میں جواہرلال یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن اور 2007ء میں وہیں سے ایک منفرداور اہم عنوان ’’ترجمات معانيالقرآن الانجلیزیۃ: دراسۃ تحلیلیۃ ونقدیۃ‘‘پرگراں قدر مقالہ لکھ کرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،یہ اعلیٰ ترین تحقیقی وتنقیدی مقالہ بعد میں مکتبہ توبہ سعودی عرب سے کتابی شکل میں بھی شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اس کا انگریزی ترجمہ بھی عن قریب مکمل ہونے والاہے۔ ڈاکٹراعظمی کی باقاعدہ عملی سرگرمیاں 2003ء سے شروع ہوئیں ،تب سے 2008ء تک جواہر لال یونیورسٹی میں گیسٹ لیکچرر رہے، 2009ء میں وشوبھارتی یونیورسٹی مغربی بنگال میں عربی ، اردو،فارسی اور اسلامیات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسرہوگئے اور وہاں مسلسل پانچ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ،2014ء میں ان کا تقرر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ عربی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ہوا اور تب سے اب تک یہاں درس و تدریس میں مشغول ہیں ،2015ء میں عربی و اسلامی علوم میں نمایاں خدمات کے عوض صدرجمہوریہ ایوارڈ سے بھی نوازاجاچکاہے۔عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سرگرم صحافتی رول بھی اداکررہے ہیں اور ان کے قیمتی ادبی وتحقیقی مقالات ملک و بیرونِ ملک کے مختلف اہم رسائل و مجلات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ،اس کے علاوہ ان کی ادارت میں 2009ء سے مولاناآزادآئیڈیل ایجوکیشنل ٹرسٹ، بولپور، مغربی بنگال سے ایک وقیع عربی میگزین ’’مجلۃ الہند‘‘شائع ہورہاہے،جس کا2014-15ء میں شبلی صدی کے موقع پر کم و بیش چودہ سو صفحات پر مشتمل دوضخیم جلدوں میں ’’ شبلی نمبر‘‘ شائع ہوکر عالمی پیمانے پر مقبولیت حاصل کرچکاہے،ساتھ ہی جنوری2016ء سے ’’دی انڈین جرنل آف عربک اینڈاسلامک اسٹڈیز‘‘کے نام سے ایک سہ ماہی انگریزی مجلہ بھی نکال رہے ہیں اور یہ بھی اربابِ علم و نظر کے طبقے میں مقبول ومتداول ہے۔

ڈاکٹراعظمی کی باضابطہ تصنیفی و تالیفی سرگرمیوں پر گوکہ بہت زیادہ مدت نہیں گزری ہے ،مگران کے سیال قلم سے اب تک پچاس سے بھی زائدقیمتی تصنیفات ،تالیفات،تراجم وغیرہ منظرِ عام پر آچکے ہیں ،ان کی کئی کتابیں ہندوستان کے علاوہ سعودی عرب ،لبنان ،شام ، پاکستان اوربرطانیہ وغیرہ کے موقر اشاعتی اداروں سے شائع ہوئی ہیں ،ان کے علاوہ دوسو سے زائد مختلف علمی،ادبی،تحقیقی و اسلامی موضوعات پر ان کے مقالات ہندوبیرونِ ہندکے عربی اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں ،تعلیمی اداروں کی غیرعلمی سرگرمیوں سے مکمل انقطاع اور خلوت نشینی و یکسوئی کے ساتھ اپنی علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رہنا ڈاکٹر اعظمی کی خاص شناخت ہے،مطالعہ وکتب بینی سے بے پناہ شغف ، علمی ذوق کاوفور، ادبی ہنرمندی اورتحقیقی انہماک کے حوالے سے ان کی ذات بلاشبہ قابلِ رشک ہے۔مختلف اکابراہلِ علم و فکر کی تصانیف اوران کے افکار و سوانح کو عربی زبان میں منتقل کرنا ان کا ایک خاص نصب العین ہے اوراس کے تحت وہ کئی اہم اہلِ علم و فضل مثلاًعلامہ محمد فاروق چریاکوٹی،مولانافیض الحسن سہارنپوری، مولاناغلام علی آزادبلگرامی،علامہ حمیدالدین فراہی،قاضی اطہر مبارکپوری، علامہ ابومحفوظ الکریم معصومی، مولاناصدرالدین اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی،مولانا محمود حسن قیصر امروہوی، پروفیسر وزیر حسن، پروفیسر فیضان اللہ فاروقی وغیرہ میں سے بعضوں کے سوانح اوربعضوں کی تصنیف کردہ مختلف کتابوں کاعربی ترجمہ کرچکے ہیں ۔عربی شاعری کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور ان کے متعدددلچسپ عربی قصائداس پر شاہدِ عدل ہیں ،ہندوستان کے عربی شعراپرانھوں نے ایک منفرداوروقیع کام کیاہے ،چھ سو صفحات پرمشتمل ہندوستان کے پانچ سوعربی شعراکی ڈائریکٹری’’الطلح المنضودفي شعراء العربیۃ الہنود‘‘ تیارکی ہے،ان میں مرحومین و موجودین سبھی شامل ہیں اور ڈاکٹراعظمی نے ان شاعروں کی محض فہرست مہیانہیں کی ہے؛بلکہ نام کے ساتھ ان کے کلام کے نمونے بھی درج کیے ہیں ۔

ترجمہ کافن اور ڈاکٹراورنگ زیب کی ترجمہ نگاری:

 کسی بھی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مترجم دونوں زبانوں میں مہارت رکھتا ہو،دونوں زبانوں کے اسالیبِ بیان، استعارات ، کنایات،تشبیہات واشارات اور تعبیرات کی مختلف شکلوں سے نہ صرف آگاہ ہو؛بلکہ انھیں برتنے کے مواقع سے بھی کماحقہ واقف ہو،آج کے عہد میں ایک مترجم کے لیے یہ بھی ضروری سمجھاجاتا ہے کہ اصل متن کاایسا ترجمہ کیا جائے،جو نہ مکمل لفظی ہوکہ اس میں الجھاؤاور پیچیدگی پیدا ہوجائے اور نہ بالکل ہی آزاد ہوکہ متن کی روح بھی باقی نہ رہے،علمی،ادبی و لسانی دیانت داری کابھی ترجمہ نگاری میں خاصا حصہ ہے؛کیوں کہ بسااوقات مصنف کے لکھے گئے لفظ کااصل مفہوم کچھ ہوتااور مترجم کچھ اور لکھ دیتا ہے،اس سے صاحبِ تحریر کی مراد تومشتبہ ہوتی ہی ہے،اس کے ساتھ ساتھ معنی کے بگڑنے یاعلمی و ادبی سقم کے پیداہونے کاساراالزام بے چارے مصنف کوجھیلنا پڑتاہے؛لہذامترجم کے لیے صاحبِ علم ہونے کے ساتھ اس باب میں اس کا امین و دیانت دار ہونا بھی ضروری ہے۔ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی دونوں زبانوں میں نکتہ ورانہ صلاحیت کے حامل ہیں ، اب تک کئی کتابوں اورپچاسوں علمی و ادبی مقالات کا عربی ترجمہ کیا ہے، جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے ترجمہ کے فن کوتمام تراصول وضوابط کالحاظ رکھتے ہوئے اور مکمل مہارت،دیانت اور علمی بصیرت کے ساتھ برتا ہے، ان کے ترجموں میں نہ تو پیچیدگی ہے،نہ ابہام ہے،نہ اصل عبارت اور صاحبِ تصنیف وتحریرکی مرادکوخلط ملط کیا ہے اور نہ اپنی طرف سے رنگ آمیزی کی ہے۔ان کے ترجمے کی خاص بات سلاست،شفافیت اور ادبی لطافت ہے۔جیساکہ مذکورہواانھوں نے دسیوں اہلِ علم کی تحریروں کوعربی کے قالب میں ڈھالا ہے،مگر انھیں شبلی اور شبلیات سے خاص شغف ہے ؛ چنانچہ ان کے ذریعے اب تک شبلیات کے قابلِ ذکر حصے کاعربی ترجمہ ہواہے ،ذیل کے صفحات میں ہم انہی تراجم اوران کے متون کا مختصرتعارف پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

الحرکۃ العلمیۃ وکیف طورہا الإسلام:

 اسلام کا آغازہی تعلیم و تعلم کے ربانی تصور سے ہواہے،سواسلام دنیا میں علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کے سب سے بڑے داعی کے طورپر ابھرااوراس نے مختلف ادوار میں علوم و فنون کی بیش بہاخدمات انجام دی ہیں ،نبی اکرمﷺکی سرپرستی و نگرانی میں مختلف علوم کی داغ بیل پڑی اور اس کے بعد مختلف اسلامی حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں ان میں اضافے کیے،خلفاے بنوعباس کا عہد اس اعتبار سے بڑا ترقی یافتہ اور مشہور سمجھا جاتا ہے کہ اس عہد میں نہ صرف عربی واسلامی علوم و فنون کی شاخوں کو پہلے سے زیادہ ثمر بار کیاگیا؛بلکہ اس کاایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس عہد میں اُس وقت دنیا میں پائے جانے والے دیگر بے شمار علوم و فنون کو بھی اپنا نے،ان کا ترجمہ کرنے اور ان کو فروغ دینے کا مضبوط سلسلہ شروع ہوا،خود مسلم علما،ادبا،مفکرین و محققین اور سائنس دانوں کی ایک ایسی بڑی کھیپ سامنے آئی،جس نے نئے نئے موضوعاتِ علم و فکر و تحقیق کا اکتشاف کیا اور ان کی پرتوں کودنیا والوں کے سامنے کھولا۔کم و بیش ہزار سالہ عروج کے بعد جب مغربی تہذیب و اقوام کی ترقی و عروج کا دور شروع ہوا،تواس میں محض تعصب اور جانب داری کی وجہ سے دیگر خدمات کے ساتھ اسلام کی علمی خدمات پربھی خطِ نسخ پھیرنے کی کوشش کی جانے لگی،اسی احساس کے زیر اثراور سرسیداحمد خاں مرحوم کی تحریک پر علامہ شبلی نعمانی نے پچاسوں علمی،تاریخی اور سوانحی تصانیف سے رجوع کرکے’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘‘پر نہایت عرق ریزی،دیدہ وری اورجاں فشانی کے ساتھ یہ قیمتی تحقیقی مقالہ تحریر کیا،جومسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے اجلاس (منعقدہ 27؍دسمبر1887ء،لکھنؤ)میں پڑھاگیا،لوگوں نے اسے غیرمعمولی ستایش وتحسین کی نگاہ سے دیکھا اور انھیں محسوس ہوا کہ شبلی نے بر وقت مسلمانوں کی علمی تاریخ پرکیے جانے والے اشکالات و شبہات کا ازالہ کیا ہے ،پھر اس کی افادیت کو مزید عام و تام کرنے کی غرض سے اسے مستقل کتابچے کی شکل میں شائع کیا گیا ۔اب یہ مقالہ’’ مقالاتِ شبلی ‘‘کی تیسری جلد میں شامل ہے۔

 اس مقالے میں علامہ نے قرآن و حدیث کے مقام و مرتبہ پر گفتگو کرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں ان کی اہمیت و عظمت پر پرمغزکلام کیا ہے، اس کے بعدعلمِ کلام،بیان و بلاغت،منطق و فلسفہ،طب،ادب و شعروغیرہ میں مسلمانوں کی گراں قدر خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ،ان علوم و فنون کی نشان دہی کی گئی ہے،جنھیں خاص مسلمانوں نے ایجاد کیا،عباسی دور میں سائنس اور فلسفہ کے حوالے سے مسلمانوں کی گراں قدر خدمات اور یونانی و سنسکرت اور دیگر مختلف زبانوں کے علوم کوعربی میں منتقل کیے جانے کی تحریک پر روشنی ڈالی گئی ہے،ابتدائی صدیوں میں مملکتِ اسلامی کے مختلف خطوں میں قائم ہونے والے مدارس،دارالعلوموں کی خدمات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیاہے،ان اداروں کے ذمے داروں ،اساتذہ اور وہاں سے فارغ ہوکر نکلنے والے ان افراد کا ذکر کیاگیا ہے،جنھوں نے مستقبل میں علم و تحقیق اور فکر و تدقیق کے شعبے میں اپنی خدمات کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل کی اور جن کے نام اور کام اب بھی معروف و مشہور ہیں ،آپ نے ثبوتوں اور شواہد کی روشنی میں لکھا ہے کہ علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں اسلامی حکومتیں خاص دلچسپی کا مظاہرہ کرتی تھیں اوراربابِ علم کے لیے خصوصی وظائف کا انتظام کیا جاتا تھا؛تاکہ وہ مسائلِ معاش سے مستغنی ہوکر پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے علمی مشاغل کو سرانجام دیں اور مسلمانوں کی علمی تربیت و تہذیب میں مصروف رہیں ۔

 ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی نے اس اہم ترین علمی ،تاریخی و تحقیقی مقالے کا عربی ترجمہ کرکے ایک اہم ضرورت کی تکمیل کی ہے،انھوں نے نہایت شستہ اور سلیس اسلوب میں ترجمہ کرنے کے ساتھ ضرورت کے مطابق ذیلی عناوین بھی لگائے ہیں ،یہ ترجمہ’’الحرکۃ العلمیۃ وکیف طورہا الإسلام‘‘کے نام سے مستقبل کتابی صورت میں ’’دارالکتب العلمیہ‘‘بیروت سے زیرِطبع ہے ۔فاضل مترجم نے اصل کتاب سے پہلے اس کے اردومتن کے تعارف و تجزیہ پر مشتمل ڈاکٹرظفرالاسلام اصلاحی کے مقالے ’’علامہ شبلی کے ایامِ علی گڑھ کی اولین تصنیف ‘‘(ط:معارف ،شبلی نمبر،نومبر-دسمبر2014ء)کاترجمہ بھی شامل کردیا ہے ؛ تاکہ قارئین کتاب کے پس منظراوراس کے علمی قامت ومعنویت سے بخوبی طورپر واقف ہوسکیں ۔ موضوع کی اہمیت اور مقالے کے مشمولات کی وقعت اس بات کی متقاضی ہے کہ طالب علم ہی نہیں ،ہر محقق اور عالم کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اسے اپنے پاس رکھنا چاہیے،اس سے تاریخی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اورماضی کے روشن کارناموں سے تحریک پاکر حال میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔

1 تبصرہ
  1. زبیریہ نیرہ کہتے ہیں

    میں نایاب حسن صاحب کی رائے سے متفق ہوں۔ واقعی ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی نے ہمیں علمی و ادبی وراثت اور عظیم علمی شخصیتوں سے روشناس کرایا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی جیسی عظیم شخصیت اور ان کے علمی اور ادبی کارنامے جو صرف اردو داں طبقے تک ہی محدود تھے، یہ ڈاکٹر صاحب کی علم سے محبت اور کاوش کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے ان کے علمی کارناموں کو عالم ادب تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے اہم افسانوں اور کتابوں کے بھی عربی اور انگریزی ترجمے کرکے بیرون ملک تک پہنچانے کا کام انجام دیا۔ ان کے ترجمے نہایت شستہ، سلیس اور دل کش ہوتے ہیں۔ ان کے علمی کارناموں سے آج پوری دنیا کے محققین اور شائقین برابر مستفیض ہورہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔