ڈاکٹر اسرار احمدؒ

عاصم رسول

نطق کو سو ناز ہے تیرے لب اعجاز پر

محوِ حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر

عالم اسلام کے معروف عالمِ دین، محقق و مفکر، دانشور ومصلح اور مفسرقرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ اس دار ِفانی سے۱۳، ۱۴ اپریل ۲۰۱۰ ؁ء کی درمیانی رات رحلت فرماں گئے۔ اِن کی وفات پر پورا عالم اسلام بالخصوص برصغیرہندوپاک کے مسلمانو ں میں غم والم کی لہر دوڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کی وفات سے عالم اسلام ایک مدبر اور بے باک مبلغ سے محروم ہوگیا اور علماء حق کی صف میں ان کی وفات سے جو خلاء پیدا ہوگیا ہے اس خلاء کو پُر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایمان افروز تقریروں نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دلوں کو بیدار کیا، اِن کے دلوں میں ایمان کی جوت جگائی، لوگوں کو اسلام کے صحیح پیغام سے آشنا کرایا اور اسلام کے تئیں جو مسلمانوں کی ذمہ داریاں ہیں ان کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرتے رہیں۔ اسلام کا جو محدود تصور مسلمانوں کے ذہنوں میں تھا انہیں اسلام کے مکمل ضابطہ حیات سے واقف کرایا۔ ڈاکٹر صاحب پوری زندگی اسلام کو بحیثیت مکمل نظام زندگی لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہیں۔ وہ اسلام کا مذہب کے علاوہ دین ہونے کے زبردست حامی اور داعی تھے۔ خود لکھتے ہیں ’’مذہب ایک جزوی حقیقت ہے۔ یہ صرف چند عقائد اور کچھ مراسم عبودیت کے مجموعے کا نام ہے جبکہ دین سے مراد ایک مکمل نظام زندگی جو تمام پہلوئوں پر حاوی ہو۔ گویا مذہب کے مقابلے میں دین ایک بڑی اور جامع حقیقت ہے۔ اس میں عقائد کا عنصر بھی ہے، ایمانیات ہیں، پھر اس کے مراسم عبودیت ہیں، نماز، روزہ ہے، حج اور زکوۃ ہے لیکن ساتھ ہی اس کا اپنا معاشرتی نظام، معاشی نظام اور سیاسی نظام بھی ہیں چنانچہ صحیح یہ ہوگا کہ یو کہا جائے کہ اسلام صرف مذہب نہیں دین ہے‘‘۔

        ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے عظیم خصوصیات سے متصف کیا تھا۔ چنانچہ انکی شخصیت میں متحرک عنصر پیدا کرنے میں علامہ سرمحمد اقبال ؒ کی انقلاب انگیز شاعری نے اہم کردا ر ادا کیا۔ ابھی ڈاکٹر صاحب پانچویں کلاس میں ہی زیر تعلیم تھے کہ اقبال ؒ کی شاعری سے متعارف ہوئے، تھوڑا بہت ہی سمجھنے کے باوجود علامہ اقبال کے اشعار گنگنانے لگیں۔ ایک جگہ رقمطراز ہیں ’’جذباتی سطح پر راقم کی شخصیت پر سب سے پہلی اور سب سے گہری چھاپ علامہ اقبال مرحوم کے اُردو کلام کی ہے چنانچہ ہائی اسکول کا پورا زمانہ طالب علمی (۱۹۴۱ء تا۱۹۴۷ ء)احقر نے بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز کے اشعار پڑھتے اور گنگناتے ہوئے بسر کیا۔ جس سے ایک جذبہ ملی میرے رگ وپے میں سراعت کرگیا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں سب سے اہم موڑتب آیا جب وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر انگیز اور جذبہ جہاد سے لبریز تحریروں سے متعارف ہوئے، بعد ازاں ایک طویل عرصہ جمعیت طلبہ کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے گزارا اور نہایت خلوص اور تندہی سے جمعیت کے مشن کی آبیاری کرتے رہے اس دوران وہ مولانا مودودیؒ کے کافی قریب رہیں خود لکھتے ہیں ’’مولانا مودودی مرحوم ومغفور کے ساتھ راقم کے وصل وفصل کی داستان نہایت طویل ہے۔

مختصر یہ کہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۷ء تک نہایت قریبی تعلق راقم کو مولانا کے ساتھ رہا ان میں ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۲ء تک کے دو سالوں کے دوران جبکہ راقم اسلامی جمعیت طلبہ کے صف اول کے کارکنوں میں سے تھا، مولانا سے قربت کا یہ عالم تھا کہ راقم جب چاہتا تھا مولاناکی خدمت میں حاضر ہوجاتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض مواقع پر فوری مشورے کے لیے راقم الحروف نے مولانا سے نصف شب کے لگ بھگ اُن کی خوابگا میں بھی ملاقات کی‘‘ متذکرہ بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کس درجہ کی قربت مولانا مودودی ؒ سے رہی لیکن ۵۵ء میں جماعت کے رکن بننے کے کچھ ہی عرصہ یعنی ۵۷ ء میں مولانا اور جماعت کی پالیسی سے شدید اختلاف کی وجہ سے جماعت کی رکنیت سے استفیٰ دے دیا۔ ڈاکٹر صاحب کا اپنا نقطہ نظر تھا کہ جماعت کی تحریک اپنی اصل اساسات سے منحرف ہوچکی ہے۔ لیکن یہ بات ڈاکٹر صاحب کے حق میں جاتی ہے کہ انہوں نے مولانا مودودی ؒ سے اختلاف کرنے کے باوجود وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی کا دامن نہیں چھوڑا اور یہ اختلافات حدود سے متجاوز ہوکر ذاتی تنقیص یا تذلیل تک نہیں پہونچیں، اسکی ایک مثال ملاحظہ فرمائے لکھتے ہیں ’’گذشتہ ڈیڑھ دوسال کے دوران راقم الحروف کے بعض اقدامات اور اس کی بعض تحریروں سے یقینا آپ کو شدید تکلیف پہنچی ہوگی۔ لیکن خدا شاہد ہے کہ دل کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی ان میں سے کسی اقدام یا تحریر سے آ پ کی دل آزاری ہر گز مقصود نہ تھی۔ راقم الحروف کے دل میں اظہار دین ِ حق اور اعلائِ کلمۃ اللہ کا جذبہ آپ ہی کی تحریروں سے پیدا ہواہے‘‘۔

        جماعت سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں میں ڈاکٹر صاحب اکیلے نہیں تھے بلکہ اور بھی مقتدر علماء تھے جنہوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی۔ اسکے بعد ڈاکٹر صاحب اس انتظار میں رہیں کہ جماعت سے علیحدہ ہونے والے کارکن کوئی نئی جماعت تشکیل دیں گے تو میں بھی اس میں شامل ہوجائوں لیکن کافی گفت شنید اور نشستوں کے باوجود جب کو ئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا تو ڈاکٹر صاحب مرحوم نے من بنالیا کہ خود اپنے طور سے ایک نظم تشکیل دیں گے۔ خود لکھتے ہیں ’’میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب کسی ’بڑے‘ کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑے ہونا ہے۔ اور کوئی چلے نہ چلے اور ساتھ دے نہ دے تن تنہا چلنا پڑا تب بھی سفر کا آغاز کرنا ہے۔ اسکے بعد جولائی ۷۴ء میں راقم نے اعلان کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ چھوٹی سی تحریک اسلامی جس کا آغاز ’دعوت رجوع الی القرآن ‘ سے ہوا تھا اور جس نے پہلی تنظیمی ہیت ’انجمن خدام القرآن ‘ کی صورت میں اختیار کی تھی اگلے تنظیمی مرحلے میں قدم رکھے اورٹھیٹھ دینی اصولوں پر جماعت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس سلسلے میں راقم نے اپنی جولائی ۷۲ ء والی تقریر اور تنظیم اسلامی کا ۶۷ء والا خاکہ ایک طویل اداریے سمیت’’میثاق ‘‘ میں شائع کردیا‘‘۔

        بہر کیف ڈاکٹرصاحب نے اپنی پوری زندگی قرآن کی تشہیر، ترویج اور تبلیغ میں صرف کی۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک قرآن کا پیغام سائنٹفک انداز سے پہنچا دینے میں انہیں خصوصی مہارت اللہ تعالیٰ نے عطا کی تھی۔ حکمتِ قرآن کے پہلو کو انہوں نے نہایت جامع اور مدلل انداز میں اُجاگر کیا۔ قرآن کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے انہوں نے جابجا قرآن اکیڈمیز کا قیا م عمل میں لایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو قوتِ لسانی موصوف کو عطا کی تھی انہوں نے وہ قرآن کو عام کرنے میں صرف کی، اس طرح اس نعمت ِ عظمیٰ کا حق ادا کردیا۔ اس دلی تسکین کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں ’’ میرے لیے یہ احساس فی ا لواقع بہت اطمینان بخش ہے کہ’’ دعوت رجوع الی القرآن ‘‘ کے ضمن میں اُس نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و تیسیر اور تائید ونصرت سے  اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا ہے‘‘۔ ان کا ایک خاص وصف تھا کہ جب بھی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے تھے قرآتی آیا ت سے ہی استدلال کرتے تھے، اس سے یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیات قرآنی کے مضامیں اور اسرارورموز ان کے دل پر کس درجہ منکشف کیے تھے۔

         ڈاکٹر صاحب کے مختلف پہلوئوں کو ایک مختصر تحریر میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند کریں اور ان کا دیرینہ خواب ’’ خلافت علیٰ منہاج النبوہ‘‘ کا قیام شرمندہ تعبیر ہوجائے اور اللہ ہمیں استطاعت اور عزم دیں کہ ہم ڈاکٹر صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے اور پائے تکمیل تک پہنچانے میں اپنی بہترین صلاحیتیں وقف کریں۔

ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے

تبصرے بند ہیں۔