ڈاکٹر ذاکر نائک کے پیچھے حکومت کیوں؟

عبدالعزیز

            بنگلہ دیش کے ایک ہوٹل میں چند جنونی نوجوانوں کی دہشت گردی اور ان میں سے کسی ایک کا یہ بیان کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی تقریروں سے متاثر تھا ہماری مسلم دشمن حکومت کو یہ سنہرا موقع ہاتھ آگیا کہ ذاکر نائک کو نہ صرف بدنام کیا جائے بلکہ ان کے سارے کاموں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جائے۔

            ذاکر نائک کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ موحد ہیں۔ حق پرست ہیں، شرک و بدعت کے سب سے زیادہ مخالف ہیں اور دین حق کے اس وقت سب سے پُر اثر مبلغ ہی نہیں بلکہ بہت بڑے وکیل اور ترجمان ہیں۔ ان کی ہر بات کو ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ غور و فکر سے سنتے ہیں اور اثر قبول کرتے ہیں۔ باطل کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق کو آسانی سے برداشت نہیں کرتا کیونکہ باطل اندھیرا ہوتا ہے۔ اسے حق کی روشنی سے سب سے زیادہ ڈر اور خوف ہوتا ہے۔ روشنی اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کے وجود کو مٹا دیتی ہے، اس کی زندگی کے نام و نشان کا اتہ پتہ نہیں رہتا۔ دوسرا قصور یہ ہے کہ وہ مصلحت اور سمجھوتہ کو راہ نہیں دیتے۔ باطل سے کسی قسم کا سمجھوتہ یا لچک ان کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ اگر وہ شری شری روی شنکر کی طرح خدانخواستہ ہوتے اور مودی کی جے جے کار کرتے اور بھائی چارہ کی بھی نمائش بھی کرتے تو پھر ان کیلئے ہندستان کی جگہ تنگ نہیں کی جاتی۔ کئی بار نہیں سیکڑوں بار اسلام کو یا تو باطل سمجھنے والے یا تمام مذاہب میں سے ایک مذہب سمجھنے والوں سے ڈاکٹر ذاکر نائک کا مکالمہ اور مناظرہ ہوچکا ہے اور نہایت پر امن اور سنجیدہ ماحول میں۔ کسی نے انگلی بھی نہیں اٹھائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے دلائل کی روشنی میں اپنی باتیں پیش کیں اور ان کے مذاہب کی کتابوں سے حوالے دیئے اور اس قدر معلوماتی باتیں پیش کیں حوالے کے ساتھ کہ مد مقابل کو بھی اپنے مذہب کی چیزوں سے ڈاکٹر ذاکر نائک سے بہت کم معلومات کا اعتراف و اقرار کرنا پڑا۔ بسا اوقات عیسائی مُناظر اپنی شکست کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہتے اور ان کی اسلام سے دوری بھی کم ہوجاتی ہے۔

            ان کا تیسرا قصور یہ ہے کہ سامعین یا ناظرین میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان کی باتوں سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز کفر کو بھلا کیسے برداشت ہوسکتی ہے، مگر ہندستان میں جمہوریت ہونے کی وجہ سے آسانی سے کوئی انھیں کسی قانون کی گرفت میں نہیں لے سکتا تھا مگر جب سے مودی سرکار آئی آزادی رائے (Freedom of Expretion) کو کئی خطرے لاحق ہوگئے ہیں۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے وہ محض اس لئے کہ دہلی میں پولس باطل پرستوں کے ہاتھ میں تھی۔ انھیں ملک دشمن اور غدار وطن کہا گیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا گیا۔ گزشتہ روز جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ باطل پرستوں کی قوم پرستی کا ڈھونگ فلاپ ہوگیا۔ مشہور مصنف راما چندر گوہا نے اپنی نئی کتاب جمہوریت پسند اور انحراف پسند (Democrates and Dissenters) میں آزادی تقریر و تحریر پر آٹھ بڑے خطروں کی نشاندہی کی ہے۔ گوہا نے لکھا ہے کہ جو لوگ حکمراں ہوتے ہیں وہ اپنے مخالفین کو دبانے اور اپنے رائے دہندگان کو خوش کرنے کیلئے کالے قانون کا استعمال کرتے ہیں جو برٹش حکومت کے زمانے کے بنائے ہوئے ہیں ان کا بھی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

            ڈاکٹر ذاکر نائک کا مسلمان ہونا اور ملت اسلامیہ سے تعلق بھی باطل پرستوں کی نظر میں عرصہ دراز سے کھٹکتا تھا۔ اب انھیں طاقت اور اقتدار ملا ہے اور بنگلہ دیش جیسی انسان دشمن اور اسلام دشمن حکومت کا اشارہ بھی ملا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر ذاکر نائک پر ہاتھ ڈالنے میں انھیں کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ اس وقت ایسے لوگ بھی موجودہ حکومت کے شکار ہیں جو حق گوئی اور بیباکی سے کام لے رہے ہیں۔ کئی ایک کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ محض اس لئے کہ وہ توہم پرستی اور غلط رسم و رواج کے مخالف تھے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک نے ہمیشہ ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور ہر قسم کی دہشت گردی کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اب انہی کی تقریروں کے سیاق و سباق سے الگ کرکے بعض جملوں کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے انھوں نے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی ہو۔ باطل پرست ان کے اداروں کو بھی تہس نہس کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں محض اس لئے کہ ان اداروں سے مسلم بچے اور بچیوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کا یہ کہنا سو فیصدی صحیح ہے کہ ان پر جو حملے کئے جارہے ہیں یا ان کو پھنسایا جارہا ہے محض اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ آج ڈاکٹر ذاکر نائک کو نشانہ بنایا جارہا ہے، کل کسی اور مسلمان کو بھی یا کسی مسلم ادارہ یا جماعت کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو اس وقت ڈاکٹر ذاکر نائک کے ساتھ نہ صرف ہمدردی سے پیش آنا چاہئے بلکہ مضبوطی سے ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے کیونکہ ذاکر نائک پر حملہ یا یلغار نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں پر حملہ اور یلغار ہے۔ حق و باطل کی کشمکش ہر زمانے میں ہوئی ہے ہوتی رہے گی  ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز … چراغ مصطفوی ؐسے شرار بولہبی

            مگر بولہبی اور کفر کی یہ ہنسی کبھی دیر پا ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اسے ہمیشہ ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے  ؎

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن … پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

………………

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے … وہ شمع کیا بجھے گی جسے روشن خدا کرے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔