ڈاکٹر ذاکر نائیک: اندھیرے کا چراغ

عبدالعزیز
جب بھی دنیا میں کوئی دعوتِ حق لے کر اٹھے گا اسے مزاحمتوں اور عداوتوں کا سامنا کرنا پڑے گا مگر جو دعوت کا کام کرتے ہیں وہ مولانا محمد علی جوہر کی طرح ببانگ دہل کہتے ہیں ؂
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے ۔۔۔ یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لئے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف ۔۔۔ کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
حقیقت میں داعی حق اندھیرے کا چراغ ہوتا ہے ۔وہ اندھیرے میں چراغ جلاتے جلاتے دنیا سے رخصت ہوتا ہے وہ جانتا کہ حق کبھی ناکام نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ داعی حق یہی سمجھتا اور یہی کہتا ہے کہ :
’’حق کا ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے۔ دنیا کا ماننا یا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔ اگر دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا۔ مصائب حق پر نہیں اہل حق پر آتے ہیں لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ انھیں بہر حال حق پر ہی قائم رہنا اور اسی کا بول بالا کرنے کیلئے اپنا سارا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے وہ مصائب تو ضرور مبتلا ہوسکتے ہیں لیکن ناکام کبھی نہیں ہوسکتے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انبیائے کرامؑ ایسے گزرے ہیں جنھوں نے ساری عمر دین حق کی طرف دعوت حق دینے میں ساری عمر کھپا دی اور ایک آدمی بھی ان پر ایمان نہ لایا۔ کیا ہم انھیں ناکام کہہ سکتے ہیں؟ نہیں؛ ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انھیں رد کر دیا اور باطل پرستوں کو اپنا رہنما بنایا۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا میں وہی بات چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں لیکن لوگوں کا رد و قبول ہر گز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہر حال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں، خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی، اس احسان کا شکر یہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مر جائیں‘‘۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ پکے موحد ہیں۔ ہر طرح کے جلی اور خفی شرک کے خلاف ہیں۔ انھوں نے شرک کے معاملے میں کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے شرک سے جن کا بھی تھوڑا بہت لگاؤ ہے وہ کسی بھی توحید پرست یا حق پرست کو برداشت نہیں کریں گے خواہ کچھ بھی ہوجائے۔
دوسرا سب سے بڑا قصور ہے کہ ان کی باتوں اور تقریروں میں غیر مسلموں کیلئے زبردست کشش ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم ان کے قریب آتے ہیں اور حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ چیز غیروں کو کسی حال میں قابل برداشت ہو ممکن نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس سے منسلک تمام تنظیمیں اور آر ایس ایس سے متاثر تمام نیوز چینلز اور اخبارات ڈاکٹر ذاکر نائیک کی صدائے حق کو بند کر دینا چاہتے ہیں۔
مسلکی اختلاف: دعوت کی یہ بھی خاصیت ہے کہ سب سے پہلے اپنے لوگ مخالف ہوتے ہیں۔ خاص طور سے وہ لوگ جن کے دنیوی مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ چار بڑے مسلک ہیں ، ان میں بھی اختلاف ہے۔ ایک زمانہ سے کم علم داں جن کا علم ناقص ہوتا ہے، وہ زیادہ بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن ا نھیں شاید معلوم نہیں ہے کہ ائمہ اربعہ اور ان کے شاگردوں میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ آج چھوٹے بڑے علماء میں جو چیز مفقود ہوگئی ہے وہ داعیانہ جذبہ اور داعیانہ کردار ہے۔ جب کوئی داعی کا کام کرتا ہے تو اس کی دنیا وسیع ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر کشادہ دلی اور توسیع پسندی آجاتی ہے وہ فروعی اور جزوی معاملات کو بنیادی اصولوں پر ترجیح نہیں دیتا ہے اس کو منزل اور مقصد کا شعور ہوتا ہے۔ ہمارے اندر کے لوگ جو مخالفت کر رہے ہیں وہ محض فروعی اور جزوی معاملات کی وجہ سے مگر وہ بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سر قلم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ان کی آوازۂ حق کو بند کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کو اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں وہ آخر کیوں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو خاموش کر دینا چاہتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت سے بہت پہلے امت مسلمہ کو آگاہ کیا تھا ؂
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز ۔۔۔ چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی
حضرت نعیم صدیقیؒ نے بابری مسجد کی شہادت پر کہا تھا ع دشمن کے سامنے بھی ہیں ہم جدا جدا
یہ جدائی شاید اس لئے ہے کہ ہم بھی شرک و کفر کے رنگ میں رنگ گئے ہیں اور آہستہ آہستہ ہم میں دشمن اور دوست کی تمیز بھی باقی نہیں رہی۔
اسلام دہشت گردی کا سب سے مخالف ہے: جو شخص بھی دنیا کو اسلام کی دعوت دے گا وہ اسلام کا سب سے بڑا پیرو اور مبلغ ہوگا ، جس طرح اسلام دہشت گردی کا سب سے بڑا مخالف ہوگا وہ بھی دہشت گردی کا سب سے بڑا مخالف ہوگا۔ ذاکر نائیک حق کے جتنے بڑے حامی ہیں ، بدامنی کے اتنے ہی بڑے مخالف ہیں۔ وہ امن عالم کے حامی ہیں اسی لئے ان کے چینل کا نام ’’پیس ٹی وی‘‘ ہے۔ Peace TV محض نام کی پیس ٹی وی نہیں بلکہ اسم بامسمّٰی ہے۔ ان کے لیکچر، ان کے انٹرویو سے کوئی ایک جملہ، ایک عبارت ایسی نکال کر نہیں دکھایا جا سکتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے حق میں ہو یا دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ہو۔ اگر کسی نے ان کی تقریر کا غلط مطلب نکالا اور وہ غلط کاموں میں ملوث ہوگیا تو آخر مقرر یا مبلغ پر اس کی ذمہ داری کیسے آسکتی ہے؟ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی ناقابل برداشت ہے اور انتہائی قابل مذمت ہے بلکہ اس کی مذمت جس قدر کی جائے کم ہوگی۔ ان دہشت گردوں میں سے کسی بدنصیب نے اگر ذاکر نائیک کی تقریر سن کر انسانی قتل کو اپنا مقصد بنالیا تو وہ بڑا ظالم اور بڑا بدنصیب ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قرآن کی یہ بات ایک بار نہیں ہزاروں بار مجمع عام میں کہی ہے اور اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ
’’جس نے نا حق کسی شخص کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا جس نے کسی کو ناحق قتل ہونے سے بچالیا، اس نے ساری انسانیت کو قتل ہونے سے بچالیا ‘‘۔ اس قرآنی بات کو ساری دنیا کے مسلمان مانتے ہیں۔ اگر کوئی بدنصیب اس کے خلاف عمل کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں حیوان ہے بلکہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کمزور سہی مگر جمہوریت ہے، عدلیہ کمزور سہی مگرعدلیہ ہے۔ جمہوریت میں سب کو اپنی صفائی کا موقع دینا چاہئے۔ عدلیہ میں بات جائے گی تو بغیر کسی Specific Proof کے۔ کسی کو مورد الزام ٹھہرانا عدلیہ اسے قطعاً منظور نہیں کرے گی۔
میرے خیال سے داعی پر اسی طرح کے حالات آتے ہیں مگر اس طرح کے الزامات اور بہتان طوفان کی طرح آتے ہیں اور سیلاب کی جھاگ کی طرح ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ جھوٹ اور باطل کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں، وہ پائیدار نہیں ہوتیں۔ وہ ایک جھٹکے میں پانی کے بلبلے کی طرح نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔ داعی اس طرح کے طوفانوں سے گھبراتا نہیں۔ اس کا قادر مطلق پر غیر معمولی یقین ہوتا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے داعی اسلام کو ہر موڑ پر اور ہر منزل پر تسلی دی ہے کہ دشمن جتنی بڑی چال چلتے ہیں اللہ اس سے کہیں بڑی چال چلتا ہے۔ تم اپنے کام میں سچائی اور خلوص کے ساتھ لگے رہو اور ان کو ہم پر چھوڑ دو۔ ہم ان سے سمجھ لیں گے۔
’’قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی اور (نباتات اگتے وقت) پھٹ جانے والی زمین کی یہ ایک جچی تلی بات ہے۔ ہنسی مذاق نہیں ہے۔ یہ لوگ کچھ چالیں چل رہے ہیں اورمیں بھی ایک چال چل رہا ہوں پس چھوڑ دو۔ اے نبی! ان بے ایمان والوں کو ایک ذرا ان کے حال پر چھوڑ دو‘‘ (الطارق:11-17)۔
یعنی میں یہ تدبیر کر رہا ہوں کہ ان کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے پائے اور یہ آخر منہ کی کھاکر رہیں گے اور نور پھیل کر رہے گا جسے یہ بجھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ انھیں ذرا مہلت دو کہ جو کچھ یہ کرنا چاہیں کر دیکھیں۔ زیادہ مدت نہ گزرے گی نتیجہ ان کے سامنے خود آجائے گا اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ میری تدبیر کے مقابلے میں ان کی چالیں کتنی کارگر ہوئیں ؂
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن ۔۔۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فانوس بن کے جن کی جس کی حفاظت ہوا کرے ۔۔۔ وہ شمع کیا بجھے  جسے روشن خدا کرے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔