ڈاکٹر ذاکر نائیک پر یلغار

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
عبدالعزیز
ڈاکٹر ذاکر نائیک تقریباً 20 سال سے نہ صرف ہندستان میں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام ٹیلیویژن اسکرین پر اور کانفرنسوں کے ذریعہ جس شفافیت (Transparancy) کے ساتھ کرتے رہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ کوئی بھی شخص کسی بھی مذہب کا ہو بغیر کسی روک ٹوک کے ان سے الٹا سیدھا، اچھا برا سوال کرسکتا ہے اور وہ نہایت بردباری اور سنجیدگی سے دلائل اور حوالوں کے ذریعہ جواب دیتے ہیں، ہزاروں بلکہ لاکھوں مجمع عام میں بھی کسی شخص کو یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ سائل کو روکے اور ٹوکے وہ بے دھڑک اور بے خوف و خطر سوال کرسکتا ہے یا کرسکتا تھا۔ ہندستان جیسے ملک میں کوئی معمولی سے معمولی جلسے میں ریاست اور مرکز کے خفیہ محکمہ کے لوگ ایک دو نہیں کئی افراد ہوتے ہیں جو مقرر کی باتوں کو نوٹ کرتے ہیں یا ٹیپ کرتے ہیں۔ بمبئی جو مہاراشٹر کی راجدھانی ہے جہاں 20 سال کے اندر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ہزاروں جلسہ عام کھلے میدان میں ہوئے۔ بمبئی کی پولس اور خفیہ محکمہ کی موجودگی میں مگر حکومت مہاراشٹر کی طرف سے محکمہ پولس یا کسی اور محکمہ کی جانب سے انھیں کبھی بھی تحریری یا غیر تحریری نوٹس نہیں دی گئی کہ فلاں تاریخ اور فلاں وقت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے نفرت پھیلانے یا طبقاتی کشمکش کی بات کہی۔ اس کے برعکس ان کا کوئی ایسا جلسہ نہیں ہوا جس میں ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے ان سے مناظرہ نہ کیا ہو۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے جلسوں میں سیاسی اور غیر سیاسی ہر قسم کے افراد شریک ہوتے تھے اور سوال کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب مسکراتے ہوئے جواب دیتے تھے اور شاید ہی ایسا کوئی ہوتا تھا جو غیر مطمئن ہوکر ان کی مجلس سے جاتا ہو۔ بعض لوگ جو ادھورے سوال یا جواب کی وجہ سے وقت کی کمی کی وجہ سے چلے جاتے تھے وہ دوسرے روز آکر خود کہتے تھے کہ انھوں نے رات بھر غور و فکر کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ڈاکٹر صاحب کی ہر بات سچائی اور صداقت پر مشتمل تھی اور اسے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتے ہیں۔ جو لوگ ان کی سچائی اور صداقت پر یقین کرتے تھے پولس کے پاس ریکارڈ ہے کہ بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے کوئی قابل اعتراض بات انھوں نے نہیں کی ہو۔ اب تک ڈاکٹر صاحب پر کئی مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہوتے۔
پنڈت شری شری روی شنکر کی جس نے بھی ان کے مناظرہ میں تقریر سنی اور دیکھی ہوگی اسے ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے دلائل اور حوالے کے بغیر کوئی بات کہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خود ہندو دھرم کی کتابوں سے حوالے دیئے اور دیتے ہیں۔ پنڈت روی شنکر نے نہیں کہا کہ ان کا فلاں حوالہ غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی دیگر مذاہب میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو ہر مذہب کی کتابوں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی طرح گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہو اور کیا بھی ہو تو ہر سطر اور ہر عبارت اس قدر یاد ہو جس قدر ڈاکٹر صاحب کو یاد رہتا ہے۔ ان کی قدرت اور صلاحیت کو دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے ؂
اللہ اگر توفیق نہ دے تو انسان کے بس کی بات نہیں ۔۔۔ فیضانِ محبت عام سہی، عرفان محبت عام نہیں
انسان ہو یا حکومت جب اس کے پاس دلائل نہیں ہوتے تو اسے شکست خوردگی ستاتی ہے پھر اپنے مد مقابل کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، مگر یہ بھول جاتا ہے کہ کوئی اور ہستی ہے جو ہر چیز کی نگہبانی کر رہی ہے اور دیکھ رہی ہے۔ اسی نے سب کو پیدا کیا ہے اور اسی کے پاس سب کو ایک دن جانا اور اپنا حساب و کتاب پیش کرنا ہے۔ وہی ہے جو عزت و ذلت دیتا ہے۔ قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے ۔ شیطان یا شیطانی صفت کے انسانوں کو ایک مقررہ وقت تک ڈھیل دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کی رسی کھینچ لیتا ہے۔
مہاراشٹر کی حکومت ہو یا مرکز کی حکومت دونوں کے کارندوں کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف کوئی ایسی قابل اعتراض چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ قانونی گرفت میں آسکتے ہوں۔ بنگلہ دیش کے ایک ہوٹل میں دہشت گردی کرنے والے چند لڑکوں میں سے کسی نے اگر کہہ دیا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر ہے یا اسے مارپیٹ کر کہلوایا گیا تو کیا اس سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا جرم ثابت ہوتا ہے۔ آخر جب ایک لڑکا متاثر تھا اور باقی لڑکے کس سے متاثر تھے؟ پھر کسی برے یا اچھے انسان کا متاثر ہونا آخر ڈاکٹر ذاکر نائیک کیسے اور کیونکر مورد الزام ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے دنیا میں بیس کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہیں ان میں کوئی ایک دو اگر غلط حرکتیں کرتے ہیں تو دو افراد کم بیس کروڑ افراد تو اچھے ہیں۔ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے عقیدت مند ہیں ۔ کیا وہ بھی قابل گردن زدنی ہیں کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چاہنے والوں میں سے ہیں۔
جس سے کوئی متاثر ہوتا ہے وہ کسی سے کسی طرح بھی جرم و سزا کا باعث نہیں بنتا جب تک کہ وہ غلط کام یا غلط حرکت نہیں کرتا۔ پہلے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کا میڈیا ٹرائل ہوا پھر حکومت نے ان پر فرد جرم عائد کرنا شروع کیا پھر بتایا کہ کسی دہشت گرد کو ان کے ادارے کو اسکالر شپ دی گئی۔ اس طرح کی باتیں گڑھی گئیں اور ان کو ہر طرح سے گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ اب ان کے اسکولوں کو بند کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے جہاں ہزاروں لڑکے لڑکیاں پڑھتے ہیں۔ حکومت حقیقت میں مسلمانوں کے کسی بھی شخص کو ابھرتے یا بڑھتے نہیں دیکھ سکتی اور وہ جو باطل کو چیلنج کرے یا للکارے آخر اسے کیسے برداشت کرے گی؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک حق کے مبلغ ہیں۔ حق کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا بلکہ ناکام وہ دنیا ہوتی ہے جو اسے ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کل بھی اپنے مقدور بھر اللہ کے کاموں میں لگے رہے اور آج بھی انشاء اللہ لگے رہیں گے۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی۔ کسی داعی حق کے کام کے دائرے کو تنگ کر دینے سے داعی کا کام ختم نہیں ہوتا۔ دنیا بہت کشادہ ہے تنگ نہیں ہے۔ وہ جہاں بھی رہیں گے کام کرتے رہیں گے۔ ان کے ہزاروں جلسے کی تقریریں تو لوگوں کے سینے میں محفوظ ہیں اور ہزاروں تقریریں Social Media میں لوگ سن رہے ہیں اور دیکھ رہے۔ ان کے عقیدت مند جو دنیا بھر میں پھیلے ہیں وہ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے رہیں گے۔ جیسے کوئی فرد یا حکومت ہوا، پانی یا دیگر قدرتی چیزوں کو نہ بند کرسکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے۔ اسی طرح حق کی طاقت اور قوت کو دنیا کی کوئی قوت وطاقت نہیں روک سکتی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سیکڑوں ذاکر نائیک اپنی کوششوں سے بنا چکے ہیں۔ انشاء اللہ ان کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں جاری و ساری رہے گا ؂
نور خدا سے کفر کی حرکت ہے خندہ زن ۔۔۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔