ڈاکٹر ریحان غنی: اردو صحافت کا مردِ قلندر

انوار الحسن وسطوی

(جنرل سکریٹری کاروانِ ادب،حاجی پور)

ڈاکٹر ریحان غنی بہار کے موجودہ اورکہنہ مشق اردو صحافیوں کی فہرست کا ایک اہم نام ہے۔ ان کی صحافتی زندگی چاردہائیوں پر محیط ہے۔ بہار کے جن اردو صحافیوں نے ملک وملّت بالخصوص بہار کی اردو آبادی کو اپنی تحریروں سے متاثر کیا ہے ان میں ڈاکٹرموصوف کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ اپنے دبلے پتلے جسم میں چیتے کا جگررکھنے والے ڈاکٹر ریحان غنی اپنی جرات مندی اوراپنی بے باکی کے لیے مشہور ہیں۔ وہ اپنے بے باک، بے لاگ، بے خوف اورجرأت مندانہ اداریوں اورتبصروں کے لیے اپنی مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔ یہ جرأت مندی اوربے باکی انھیں اپنے بزرگوں سے بھی وراثت میں ملی ہے اوراچھی صحبتوں و عمدہ تعلیم کے اثر سے بھی ان کے اندر یہ خوبیا ں پیدا ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر ریحان غنی کے دادامحترم مولانا سیّد عثمان غنیؒ ایک متبحّرعالم دین کے ساتھ ساتھ ایک نڈراوربے باک صحافی بھی تھے۔ محض ۲۶؍سال کی عمر میں ۱۹۲۴ ؁ء میں وہ ’ا مارت شرعیہ‘ کے پہلے ناظم اورامارت کے ترجمان  ہفت روزہ’’ امارت‘‘کے مدیرمقرر کیے گئے تھے۔ ۱۹۲۶ ؁ء میں ’ امارت‘ میں لکھے ان کے ایک اداریہ کو قابلِ اعتراض بتاکر حکومت برطانیہ نے اخبار کو ضبط کرلیا تھااورمولانا موصوف پر مقدمہ قائم کرکے انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا۔ ہفت روزہ ’امارت‘کی اشاعت بند ہوجانے کے بعدامارت شرعیہ نے جب اپنے ترجمان کی حیثیت سے  ہفت روزہ ’’نقیب‘‘ کا اجراء کیا تو اس کے مدیر بھی مولانا عثمان غنی ؒ ہی مقرر کیے گئے۔ وہ نقیب میں بھی حسب سابق اپنے قلم کی جولانی دکھاتے رہے۔ ریحان غنی صاحب کے والد گرامی سیّد شاہ نعمان غنی دیوروی باضابطہ عالم دین یا صحافی تو نہیں تھے لیکن اپنے وقت کے مشہور مذہبی کالم نویس تھے۔ انھیں اسلامیات کا گہرا مطالعہ تھا۔ انھوں نے بڑی جرأت و بے باکی سے قرآن وحدیث کی روشنی میں شرک وبدعات کے خلاف بے شمار مضامین لکھے اوراپنی تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو سنّت نبویﷺ پر گامزن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان مضامین کے تین مجموعے ’’شمع ہدایت‘‘، ’’گنجینئہ ہدایت‘‘اور’’گلدستئہ ہدایت‘‘کے نام سے شائع ہوکر مقبو ل ہوئے۔

ڈاکٹر ریحان غنی نے جب صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کی شروعات انھوں نے غلام سرور صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے مشہور اردو روزنامہ ’’سنگم‘‘سے کی، جہاں انھوں نے صحافت کے گُرسیکھے وہیں غلام سرور صاحب کی صحبتوں میں بیٹھ کر ان سے جرأت مندی وبے باکی بھی سیکھی۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد جب انھوں نے پی ایچ۔ ڈی کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے انھوں نے مولانا حسرت موہانی جیسے جیّد صحافی اورتحریک آزادی کے مجاہد کی حیات وخدمات کا مطالعہ کیااوران کے مشہوررسالہ’’اردوئے معلی‘‘کی ادبی خدمات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ مولانا حسرت موہانی بھی ایک بے باک صحافی تھے۔ وہ ایک ایسے صحافی تھے جنھوں نے قوم وملک سے کچھ لیا نہیں۔ زندگی بھر بوریہ نشین رہے اورقوم وملّت کے لیے اپنی عافیت، اپنا سکون اوراپنی تمام چیزیں قربان کردیں۔ صحافت ان کا پیشہ نہیں تھااورکاروبار بھی نہیں تھا، بلکہ صحافت ان کا نصب العین تھا۔ ایک ایسا نصب العین جس کے تحت قوم وملت کی بھی خدمت کی جاسکے اوراردو ادب کی بھی خدمت کی جائے۔ مولانا حسرت موہانی کی صحافت نگاری کے تعلق سے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے :

’’حسرت موہانی جس بات کو اپنے نزدیک حق سمجھتے تھے اس کو بغیر کسی تامّل کے، بغیر گھٹائے بڑھائے، بغیر ہموارکیے، بغیر مصلحت اورموقع کا انتظارکیے، بغیر پلک چھپکائے، مخاطب افلاطون ہو یا فرعون اس کے سامنے کہہ ڈالنا حسرت موہانی کے لیے معمولی بات تھی۔ ‘‘

ڈاکٹر ریحان غنی نے مولانا حسرت موہانی کی شخصیت سے کتنے سارے اثرات قبول کیے ہیں اوران کے دل ودماغ پر مولانا کی شخصیت کی کتنی گہری چھاپ پڑی ہے اس کا اندازہ آگے کے سطور کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ صحافت ریحان غنی کا بھی پیشہ نہیں بلکہ مشن ہے۔ اس دعوٰی کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ صحافتی دنیا میں چھ برس کا عرصہ گزارلینے کے بعد جب ریحان غنی کو سرکاری ملازمت مل گئی تو مالی منفعت کی خاطر وہ ملازمت میں چلے تو گئے لیکن بمشکل دو سال ہی وہ ملازمت سے منسلک رہ سکے اوربالآخر مستعفی ہوکر پھر صحافت کی دنیا میں واپس آگئے۔ ا س لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحافت ان کا پیشہ نہیں بلکہ مقصدِ حیات ہے۔ ملّت کی سربلندی، صحت مند سماج کی تعمیر وتشکیل، اردو زبان وادب کا فروغ، مسلمانوں میں اتحّاد واتفاق قائم کرنااورملک کی قومی یک جہتی اورسالمیت کو مضبوط کرنا ان کے نصب العین میں شامل ہے۔

ڈاکٹر ریحان غنی سے راقم السطورکی پہلی بالمشافہ ملاقات ۲۱؍اپریل ۱۹۹۶ ؁ء کو حاجی پورمیں اس وقت ہوئی تھی جب موصوف انجمن ترقی ارد ویشالی کی مقامی شاخ استی پور، پھلہرا کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب ’’یوم ِ اقبال‘‘میں شرکت کے لیے بحیثیت مہمان خصوصی تشریف لائے تھے۔ موصوف اس زمانے میں اردو روزنامہ ’’انقلاب ِ جدید‘‘پٹنہ سے منسلک تھے۔ جناب ریحان غنی سے گرچہ یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن میں ان کے نام اورکام سے بہت قبل سے واقف تھا۔ موصوف جب روزنامہ ’’قومی آواز‘‘سے منسلک تھے تو اس زمانے میں انھوں نے میرے متعدد مضامین کو نمایاں طورپر اخبار میں شائع کیا تھا، پھر آکاشوانی پٹنہ کے اردو نیوز ریڈر کی حیثیت سے بھی  انھیں میں بخوبی جانتا تھا اوران کے نشریے کو بشوق سنتا تھا۔ چنانچہ مذکورہ تقریب کے موقع پر جب ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہم دونوں کی شناسائی بہت پرانی ہے۔ موصوف سے میری مذکورہ ملاقات کو دو دہائی سے بھی زائد کا عرصہ گذرچکا ہے، اس لمبی مدّت میں موصوف راقم السطور اورمحبّی ڈاکٹرممتاز احمدخاں کی دعوت پر حاجی پورکے بے شمار ادبی و تحریکی جلسوں کو اپنی شرکت سے رونق بخش چکے ہیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے رابطے میں رہتے ہیں اور اردو کے مسائل پر تبادلئہ خیال بھی کرتے رہتے ہیں۔ بعض باتوں میں ہم دونوں کے درمیان نظریاتی اختلاف بھی ہوجاتے ہیں، لیکن یہ اختلاف ہمارے تعلقات پر کبھی اورایک لمحہ کے لیے بھی اثر انداز نہیں ہوسکے بلکہ روز افزوں اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم دونوں کے تعلقات نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ہم لوگوں کی اگلی نسل میں منتقل ہوچکے ہیں۔ ہم لوگوں کا یہ تعلق کسی حسب، نسب کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی مادری زبان ’اردو‘کے تعلق سے ہے۔ میں بھی اردو کا ایک فدائی ہوں اوروہ بھی اردو کے ایک جانثار ہیں۔ اوریہی وہ پُل ہے جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھا ہے۔

ڈاکٹر ریحا ن غنی کا تعلق جس معزز خانوادے سے ہے اس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں ہوچکا ہے۔ اسی معزز، مذہبی اوردیندار گھرانے میں ریحان صاحب کی پیدائش ۲؍مارچ ۱۹۵۲ ؁ء کو ہوئی۔ پھلواری شریف ہائی اسکول سے میٹرک اورمرزاغالب کالج، گیا سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی۔ این۔ کالج پٹنہ سے ۱۹۷۶ ؁ء میں گریجوئیشن کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۸۰ ؁ء میں انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے (اردو)اور۱۹۸۴ ؁ء میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری سے سرفراز ہوئے۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ’’اردوئے معلی کی ادبی خدمات‘‘تھا اوراس کے نگراں ڈاکٹر ممتاز احمد (سابق صدر شعبئہ اردو پٹنہ یونیورسٹی)تھے۔ ڈاکٹر ریحا ن غنی نے گریجوئشن مکمل کرنے کے بعد ہی ۱۹۷۷ ؁ء میں اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ ’’سنگم‘‘پٹنہ سے کیا تھا، جس کا ذکر قبل آچکاہے۔ روزنامہ ’’سنگم‘‘سے ڈاکٹر ریحا ن غنی کی وابستگی ۱۹۷۷ ؁ء سے ۱۹۸۱ ؁ء تک رہی۔ سنگم کا دفتر صحافتی تجربے کے اعتبار سے ڈاکٹر ریحا ن غنی کے لیے ایک بہترین تجربہ گاہ ثابت ہوا۔ انھیں یہاں غلام سرورصاحب جیسے جیّد صحافی کے ساتھ ساتھ خورشید پرویز صدیقی جیسے باصلاحیت صحافی کی بھی صحبت نصیب ہوئی۔ ۱۹۸۱ ؁ء میں جب روزنامہ’’قومی آواز‘‘کے پٹنہ ایڈیشن کی اشاعت شروع ہوئی تو ڈاکٹر ریحا ن غنی’ سنگم‘ کو چھوڑ ’کر قومی آواز‘ سے وابستہ ہوگئے۔ موصوف کو یہاں سیّد عبدالرافع ؒ جیسے شریف النفس اورجیّد اردو صحافی کی صحبت اوررہنمائی نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر ریحا ن غنی نے یہاں اپنی زبردست علمی وادبی اورصحافی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کی صحافتی دل چسپی یہاں مزید پروان چڑھی۔ ان کی فکر اورسوچ کا دائرہ وسیع ہوا اوران کے اندر حد درجہ خوداعتمادی پیدا ہوئی۔ اسی دوران ۱۹۸۳ ؁ء میں جب محکمہ راج بھاشا حکومت بہار میں اردو مترجم کی حیثیت سے ان کی تقرری سہرسہ ضلع کے صدربلاک میں ہوگئی تو ’قومی آواز ‘کو چھوڑکر وہ اس سرکاری ملازمت سے منسلک ہوگئے، لیکن کلرکی کا یہ پیشہ ان کے مزاج کے موافق نہیں ثابت ہوا۔ انھوں نے ایک معمولی سی بات پر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ بات یہ تھی کہ جس بلاک آفس میں موصوف مامورتھے وہاں اردو کا کوئی کام نہیں ہورہاتھا، اردو میں درخواستیں نہیں آرہی تھیں کہ جس کا جواب اردو میں دیا جاتا یا اردو کی کوئی فائل تیار کی جاتی۔ لہذا بلاک ڈولپمنٹ افسر(B.D.O)نے ریحان غنی کے ذمہ Caste Certificate  بنانے کا کام سونپ دیا۔ ایک دن کسی نے یہ Certificate بنانے کے عوض انھیں کچھ روپیے دیے جو کرانی صاحبان کو یہاں دیے جانے کا دستورہے۔ ریحان غنی صاحب نے پیسہ لینے سے انکار کردیا۔ موصوف نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ملازمت سے مستعفی ہوجانے کا فیصلہ کرلیا۔ بہیترے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ ڈاکٹر ریحا ن غنی فطرتاً جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ عزّت نفس کو ٹھیس لگنا انھیں قطعی برداشت نہیں ہوتا۔ ایسا ہونے پر وہ بھڑک جاتے ہیں۔ موصوف اپنی اس ملازمت سے پہلے سے بددل تھے ہی، اس واقع نے انھیں تلملا کر رکھ دیا۔ لہٰذا انھو ں نے نفع ونقصان کی پرواکیے بغیر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ حالانکہ اس جذباتی فیصلے کی انھیں بڑی قیمت چکانی پڑی۔ ریحان غنی صاحب اردو شعر وادب کے طالب علم رہے۔ اپنے علم وصلاحیت کے اعتبار سے انھیں کسی کالج یا یونیورسٹی میں درس وتدریس کے پیشے سے منسلک رہنا چاہیے تھا لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی اوروہ لکچرر، ریڈراور پروفیسر نہیں ہوسکے۔ لیکن ان کی خود داری نے انھیں کلرکی بھی نہیں کرنے دی۔ غالباً علامّہ اقبالؔ کے اس شعر نے ان کی رہنمائی کی:

اے طائرلاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ڈاکٹر ریحان غنی نے اردو مترجم کی ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد ۱۹۸۵ ؁ء سے ’’قومی آواز‘‘میں دوبارہ اپنی خدمات انجام دینا شروع کیا۔ وہ اب پہلے سے زیادہ یہاں اپنے قلم کی جولانی دکھانے لگے۔ ان کی تحریر کردہ رپورٹوں، گوشوں اورکالم کو عوام وخواص میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیااورایک عوام دوست، بے باک اورمعتبر صحافی کی حیثیت سے ان کی شناخت قائم ہوئی۔ ۱۹۹۲ ؁ء میں جب ’’قومی آواز‘‘پٹنہ سے شائع ہونا بند ہوگیا تو فری لانسر صحافی کی حیثیت سے وہ مختلف اخباروں اوررسالوں کے لیے اپنے کالم لکھنے لگے۔ انھوں نے ’’افکارِ ملّی‘‘دہلی، ’’اقراء‘‘کلکتہ، اور’’نیا اردوسماچار‘‘ناگپورمیں بھی کچھ عرصہ تک اپنے فرائض انجام دیے، جس کے سبب صحافت کی دنیا میں ان کی شناخت قومی سطح پر قائم ہونے لگی۔ موصو ف جس پایہ کے صحافی ہیں اگر وہ چاہتے تو حیدرآباد، بنگلور، دہلی اورممبئی جیسی بڑی جگہوں سے شائع ہونے والے مشہور اردواخبارات سے منسلک ہوکر ملکی سطح پر اپنی صحافتی صلاحیت کا لوہا منوا سکتے تھے، لیکن Home Sicknessکے سبب وہ پٹنہ نہیں چھوڑ سکے۔ دنیا کا یہ دستور ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ جوکھونے کو تیارنہیں ہوگا وہ پا بھی نہیں سکتا ہے۔ یہی معاملہ ریحان غنی صاحب کے ساتھ بھی ہوا۔

۱۹۹۵ ؁ء میں مشہورصحافی ڈاکٹر سیّد شہبازکی ادار ت میں جب پٹنہ سے بڑے طمطراق کے ساتھ روزنامہ ’’انقلاب ِ جدید‘‘کی اشاعت شروع ہوئی تو ریحان غنی صاحب کی اس اخبار میں بحیثیت ایسو شی ایٹ ایڈیٹر تقرری ہوئی۔ یہاں انھیں اپنے صحافتی جوہر دکھانے کا سنہرا موقع ملا۔ موصوف یہاں بطورخاص ’’ادبیات ایڈیشن‘‘کے انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے اس صفحہ کو ایسی انفرادیت بخشی کہ ادبی حلقوں میں یہ اخبار کافی پسند کیا جانے لگا۔ ’انقلاب ِ جدید‘میں ان کا ایک مقبول کالم’’سرگوشیاں ‘‘کے عنوان سے شائع ہوتا تھا جو بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔ جون ۱۹۹۷ ؁ء میں جب ’انقلاب ِ جدید‘کی اشاعت بند ہوگئی تو تقریباً سات برسوں تک ریحان غنی صاحب باضابطہ کسی اخبار سے تو منسلک نہیں رہے لیکن فری لانسر صحافی کی حیثیت سے اپنے قلم کی جولانی دکھاتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ الکٹرانک میڈیا سے بھی وابستہ رہے۔ وہ آل انڈیا ریڈیو، پٹنہ میں جز وقتی نیوز ریڈر اورٹرانسلیٹر کی حیثیت سے برسوں اپنے فرائض انجام دیے۔ دوردرشن کیندر پٹنہ میں ۱۹۹۱ ؁ء سے تاحال جُز وقتی ایسوشی ایٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ہفت روزہ ’’پندار‘‘پٹنہ جو عرصہ قبل سے محترمہ جہاں آرا کی ادارت میں شائع ہورہا تھا اسے ۲۰۰۴ ؁ء میں جب روزنامہ کی شکل دینے کا ارادہ ہوا تواس اخبار کے مالک جناب اے۔ کے۔ احسانی نے جناب ریحان غنی جیسے تجربہ کار اورجیّد صحافی کی خدمات اس کے لیے حاصل کیں۔ جناب ریحا ن غنی نے اپنے لمبے تجربوں کو بروئے کارلاکر اس نووارد اردو روزنامہ کو بہار کے مقبول اردو اخبارات کی صف میں لا کھڑا کیا۔ آج اس اخبار کو اہل علم وادب کا پسندیدہ اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ بلا شبہ ڈاکٹر ریحا ن غنی کی کاوش اورخلوص کا ثمرہ ہے۔ فروری ۲۰۰۴ ؁ء سے ڈاکٹر ریحا ن غنی سینئر ایڈیٹر کی حیثیت سے یہاں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ شروع میں ایک عرصے تک ان کا نام اس اخبار میں چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے چھپتا رہا، لیکن ان کے مخصوص کالم ’’دوٹوک‘‘میں شائع شدہ ان کی ایک تحریر سے جب سیاسی حلقے میں طوفان برپا ہوگیا تو چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے اخبار سے ان کا نام ہٹا دیا گیا۔ اس کے باوجود انھوں نے اخبار سے اپنی وابستگی برقراررکھی اوراسے ’’انا‘‘کا مسئلہ نہیں بنایا۔ ان کی یہ اعلی ظرفی اخبار سے ان کی قلبی وابستگی کی عمدہ دلیل ہے۔ روزنامہ ’’پندار‘‘کے اجراء کو تقریباً ۱۴؍برسوں کا عرصہ گذرچکا ہے، اس عرصے میں اس اخبار سے منسلک جناب شارق اجئے پوری، جناب شوکت فرید اورجناب خورشید عالم کاکوی جیسے جیّد اورمعتبر صحافی یکے بعد دیگرے داعئی اجل کو لبّیک کہہ گئے لیکن ان کے داغِ مفارقت کا ’’پندار‘‘کے معیار پر ڈاکٹر ریحا ن غنی نے کوئی اثر نہیں آنے دیا۔

ڈاکٹر ریحا ن غنی اپنے بے باک، بے لاگ، بے خوف اورجرأت مندانہ اداریوں اورتبصروں کے لیے تو مشہور ہیں ہی، ان کا مخصوص کالم ’’دوٹوک‘‘بھی قارئین کے درمیان بے حد مقبول ہے۔ یہ کالم لکھنے کی شروعات جناب  ریحا ن غنی نے روزنامہ ’’سنگم ‘‘پٹنہ سے کی تھی جہاں یہ کالم ۲۰۰۲ ؁ء سے ۲۰۰۳ ؁ء تک شائع ہوا۔ پھر ۲۰۰۴ ؁ء سے یہ کالم ’’پندار‘‘پٹنہ میں وقفے وقفے سے شائع ہوتا رہتا ہے۔ اس تحریر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بلا کی روانی کے ساتھ ساتھ تُندی وتلخی بھی ہوتی ہے اوربے باکی بھی رہتی ہے۔ جذبات سے مغلوب ہوجانے کے سبب کبھی کبھی ان کا قلم ان کی گرفت سے نکل بھی جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انھیں لوگوں کی خفگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن نہ وہ اس سے ڈرتے ہیں اورنہ گھبراتے ہیں بلکہ اپنے موقف پر سختی سے قائم رہتے ہیں۔ خواہ اس کے لیے انھیں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ ریحا ن غنی کی اسے خوبی کہا جائے یا خامی کہ وہ مصلحت نہیں جانتے اورانھیں منافقت نہیں آتی۔ ان کی اس صفت کے سبب جہاں ان کے مدّاحو ں اورخیرخواہوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے وہیں ان کے بدخواہوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے، جو انھیں زیرکرنے کے لیے موقع کی تاک میں رہتے ہیں، لیکن کھل کر سامنے آنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔

ڈاکٹر ریحان غنی میں لکھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ دوران طالب علمی سے ہی لکھ رہے ہیں اورچھپ رہے ہیں۔ ان کے ابتدائی زمانے کی کچھ تحریریں پٹنہ سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالہ ماہنامہ ’’مسرّت‘‘میں بھی شائع ہوئی ہیں۔ صحافتی کالم کے علاوہ بہت سے تحقیقی وتنقیدی مضامین بھی ان کے قلم سے نکل کر زیورِ طباعت سے آراستہ ہوتے رہے ہیں اورآل انڈیا ریڈیوپٹنہ سے بھی نشر ہوئے ہیں۔ ان کے ادبی مضامین کا ایک مجموعہ ’’قوس قزح‘‘کے نام سے ۱۹۸۷ ؁ء میں شائع ہوچکا ہے، جسے بہار اردو اکادمی نے انعام سے نوازا بھی ہے۔ ان کی دوسر ی تصنیف کا نام ’’اردوئے معلی کی ادبی خدمات‘‘ہے جو ان کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر پٹنہ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز کیا تھا۔ یہ کتاب ۲۰۰۷ ؁ء میں محکمہ راج بھاشا حکومت بہار کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ موصو ف کی مذکورہ دونوں کتابیں ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے تصنیف وتالیف کی جانب کبھی دلچسپی نہیں دکھائی، ورنہ وہ کئی کتابوں کے مصنف ومؤلف ہوتے۔ انھوں نے اب تک جتنا کچھ لکھا ہے انھیں اگر کتابی شکل دی جائے تو کم از کم چارکتابیں تو ضرور ہی تیار ہوسکتی ہیں۔ جن میں ان کے لکھے کالم’’دوٹوک‘‘، کتابوں پر لکھے ان کے تبصرے (میرا مطالعہ)، مشاہیر سے لیے گئے انٹر ویوزاوران کے خطوط کے مجموعے شامل ہیں۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ اپنی طبیعت کی قلندری کے سبب یہ کام وہ خود نہیں کرسکتے۔ البتہ ان کے لائق وفائق فرزند عزیزی کامران غنی صباؔجو شاعر وصحافی بھی ہیں اورپرنٹ میڈیا وسوشل میڈیا میں بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے والد گرامی کی خاطر تھوڑا وقت نکالیں اورتھوڑی محنت کرنے کی زحمت گوارہ کریں تو  ریحان غنی صاحب کی جملہ تحریروں کو مجتمع کرکے انھیں کتابی شکل دی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر ریحان غنی کو رسالہ کی ادارت کا بھی تجربہ اورسلیقہ ہے۔ ان کی ادارت میں ایک کثیر لسانی ماہنامہ’’وائس آف بہار‘‘۲۰۱۲ ؁ء میں پٹنہ سے شائع ہونا شروع ہواتھا، جس کے مالک دربھنگہ کے رہنے والے عمر حجازین تھے، جن کا مشرق وسطی کے کئی ممالک میں بڑا کاروبار ہے۔ اپنی پیش کش اورمواد کے اعتبار سے یہ ایک معیاری رسالہ تھا۔ اس کی صوری ومعنوی دونوں صورتیں دیدہ زیب تھیں۔ لیکن افسوس کہ ڈھیڑسارے اردو رسائل کی طرح یہ رسالہ بھی قارئین کی تلاش میں گُم ہوگیااورمشکل سے اس کے چار۔ پانچ شمارے ہی منظرعام پرآسکے۔ اگر یہ رسالہ جاری رہتا تو ملک گیر سطح پر اس کی شناخت قائم ہوسکتی تھی۔

  ڈاکٹرریحان غنی صرف اردو کے صحافی و ادیب نہیں، اردو کے بڑے تحریک کار، اردو تحریک کے بڑے مجاہد اورعلمبرداربھی ہیں۔ اردو تحریک سے ان کی سرگرم وابستگی دوران طالب علمی سے ہی رہی ہے۔ انھوں نے پہلے الحاج غلام سرور کی قیادت میں ریاستی انجمن ترقی اردو، بہار کے پلیٹ فارم سے اردو تحریک میں حصّہ لیا۔ بعدہٗ اردو کی دیگر تنظیموں سے بھی منسلک ہوکر وہ اردو تحریک کو مضبوط کرنے کی کاوشو ں میں حصّہ لیتے رہے ہیں۔ اردو ان کی کمزوری رہی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اردو کے نا م پرکوئی سرکاری یا غیر سرکاری جلسہ ہو اور ریحان غنی صاحب وہاں دکھائی نہ دیں۔ راقم السطور نے انہیں اکثر ایسی محفلوں میں سامعین کی صفوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے جبکہ بے شمار اردو کے ایسے ادیب، ناقد، شاعر، صحافی اورعلمائے دین حضرات ہیں جن کی شرکت ایسی محفلوں میں صرف اسی وقت ہوتی ہے جب انھیں محفل کا مہمان خصوصی یا کم از کم مہمان اعزازی بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ریحان غنی کی یہ انفرادیت ہے کہ وہ ڈائس شیئر کی تمنا نہیں رکھتے۔ وہ اکثر اردو کی محفلو ں میں اپنے خرچ سے شرکت کرنے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔ ایسی فیاضی بھی بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ ۱۹۹۷ ؁ء میں حاجی پور میں اردو ٹیچرس یونین کے زیر اہتمام منعقدہ ’’اردو ٹیچرس کانفرنس‘‘میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے جب راقم السطور نے انھیں حاجی پورآمدورفت کا کرایہ دینا چاہا تو انھوں نے اسے لینے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے توایسی کانفرنسوں میں چندہ دینا چاہیے۔ اگر میں یہ فرض ادا نہیں کرسکتا تو کم از کم اتنا تو کروں کہ اپنے خرچ سے حاجی پور آمدورفت تو کرلوں۔ ‘‘اردو والوں کے یہاں ایسی مثالیں خال خال ہی  ملیں گی۔ موصوف اپنی تحریروں اورتقریروں کے ذریعہ اردو کاز کی آواز بغیر کسی ڈر، خوف اورمصلحت کی پروا کیے بغیر بلند کرتے رہتے ہیں، اوراردو کے تعلق سے اردو آبادی کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ وہ سرکاری وغیرسرکاری ادبی اداروں کے سربراہ ہوں، اردو اخبارات کے مدیران اورمالکان کے ساتھ ساتھ ادیبوں، دانشوروں حتیٰ کہ حکومت کو بھی آئینہ دکھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ یو ں تو اللہ تعالی نے ہر انسان کے منھ میں زبان دی ہے اوربے شمار لوگوں کو قلم کی طاقت بھی دے رکھی ہے، لیکن مصلحت کے مارے بیشتر لوگ اللہ کی دی ہوئی زبان اورقلم کی طاقت کا استعمال کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے ہیں۔ ایسے عالم میں ڈاکٹر ریحان غنی صاحب کی ذات مجھے غنیمت نظر آتی ہے اوریہ شعر بے ساختہ زبان پر آجاتا ہے:

ہواہے گو تُند وتیز لیکن چراغ اپناجلا رہا ہے

وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

تبصرے بند ہیں۔