ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کی کتاب کی تقریب رسم اجراء

کامران غنی صبا

داؤد حسن ایک عام انسان ہوکر بھی بہت عظیم تھے۔ ان میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ انہیں اسلام اور دین کا گہرا شعور تھا۔ وہ مذہب کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ ان کے اندر احترامِ آدمی کا درجہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ وہ مضبوط قوتِ ارادی کے انسان تھے۔ یہ باتیں اتوار کو باغ ملی حاجی پور کے دہلی پبلک اسکول کے احاطے میں ’’داؤد حسن۔زبان خلق کے آئینے میں ‘‘ (مرتب ڈاکٹر عارف حسن وسطوی) کی تقریب رسم اجراء سے خطاب کرتے ہوئے علماء اور دانشوروانِ علم و ادب نے کہیں۔ اس سے قبل مہمانوں نے اس کتاب کی رسم اجراء ادا کی۔

تقریب کی صدارت سابق صدر مدرس مدرسہ امدادیہ ابابکر پور ویشالی مولانا سید مظاہر عالم شمسی نے کی اور نظامت کا فریضہ جواں سال شاعر کامران غنی صبا نے ادا کیا۔اپنی صدارتی تقریر میں مولانا مظاہر عالم شمسی نے ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کو اپنے دادا پر کتاب ترتیب دینے اور اسے شائع کرنے کے لئے مبارکباد دی۔انہوں نے کہا کہ یہ کتاب داؤد صاحب مرحوم کے لئے باعث برکت کے اور ہم سب کے لئے باعث عبرت ہے۔ کاروان ادب کے صدر اور ممتاز ناقد ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے کہا کہ داؤد حسن صاحب سچے اور سادہ انسان تھے اور سب کا احترام کرتے تھے۔ عارف حسن وسطوی کی اپنے دادا پر یہ کتاب بہت سی خوبیوں کی حامل ہیں۔ ان میں شامل تحریریں اعلیٰ، اخلاقی اور انسانی قدروں کی تبلیغ کا کام کریں گی۔ اردو ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ داؤد حسن صاحب کی یہ صالحیت ہی ہے جس نے ان کے پوتے عارف حسن وسطوی کو اپنے دادا کے تعلق سے اتنی عمدہ اور بامعنی کتاب ترتیب دینے کی سعادت بخشی۔ یہ داؤد حسن صاحب کی صالحیت ہی تھی جس نے ان کی اولاد کو آدابِ فرزندی سکھائی۔ انہوں نے اس موقع پر نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے لوگوں کو تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا مشورہ دیا اور اردو کو فروغ دینے کے لئے سرگرم ہونے کی اپیل کی۔ امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ جو لوگ اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں دنیا ان سے محبت کرتی ہے۔

مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی کیسابق پرو وائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم نے داؤد حسن صاحب کی وثیقہ نویسی کے حوالے سے باتیں کیں اور کہا کہ وثیقہ نویسی ایک بڑافن ہے جو اب دم توڑ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے اپنے دادا پر کتاب شائع کرکے جس عقیدت کا اظہار کیا ہے وہ قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر مفتی محمد ثنا الہدیٰ قاسمی نے کہا کہ ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کی یہ کتاب داؤد حسن صاحب کی زندگی کی کہانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صالح لوگوں کی زندگی کے احوال کو بیان کیاجانا چاہیے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ انہوں نے اس موقع پر داؤد حسن صاحب کی دردمندی، صالحیت اور قوتِ ارادی کے کئی واقعات بھی سنائے۔ اردوکونسل ہند کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کہا کہ داؤد حسن صاحب نے اردو کی تین نسلوں کی آبیاری کی ہے۔ وہ لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اس کتاب میں ان کی چند نعتیں شامل ہیں۔

ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے اپنے دادا کے تعلق سے کتاب ترتیب دے کر قابل تحسین کام کیا ہے، میں انہیں اس کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کی اس کتاب میں کئی علما اور دانشوروں کی قیمتی آرا کے ساتھ داؤد حسن صاحب کے بعد کی تین نسل کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داؤد حسن صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی، وہ ایک دردمند انسان تھے۔ انہوں نے کہا کہ خدا ترس اور خدا شناس ہونے کے لئے کسی مدرسہ اور اسکول کی سند کی ضرورت نہیں ہوتی۔ داؤد حسن صاحب خدا ترس اور خدا شناس انسان تھے۔ ان میں صوفیائے کرام کی تمام صفات موجود تھیں۔ تقریب سے سابق جج الحاج عبدالقیوم انصاری اور صدر شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی پروفیسرمحمد ظفیرالدین انصاری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اس موقع پر جواں سال شاعر مظہر وسطوی نے داؤد حسن مرحوم کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا اور مولانا نظرالہدیٰ قاسمی اور ڈاکٹر بدرمحمدی نے مقالے پْڑھ کرسنائے۔ اس سے قبل ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ میرے دادا علیہ رحمہ کے اندر احترام آدمی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ وہ سماج کے آخری صف کے انسان کا بھی احترام کرتے تھے۔ مجھے اپنے دادا اور ان کی زندگی پر رشک ہے۔

تقریب رسم اجراء کا اختتام داؤد حسن مرحوم کے لائق و فائق فرزند، مجاہد اردو انوارالحسن وسطوی کے اظہار تشکر پر ہوا۔ تقریب رسم اجرا میں دہلی پبلک اسکول کے ڈائرکٹر آشکار احمد خاں، آفتاب عالم مفتاحی، مولانا عبدالقیوم، مولانا قمر عالم ندوی، مولانا صدر عالم، سید مصباح الدین،ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق، پروفیسر آفتاب عالم قاسمی، ماسٹر محمد عظیم انصاری، ذاکر حسین،شمیم الدین صدیقی،ضیاء الحسن، انظار الحسن، قمر اعظم صدیقی، اکبر اعظم صدیقی، نیر اعظم سمیت سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔

تبصرے بند ہیں۔