ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی اب نہیں رہے!

نئی دہلی:11؍جنوری 2017 (جاوید رحمانی)  معروف ماہرِ تعلیم، مجاہدِ آزادی اور سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کا10جنوری 2017 کو دہلی کے اپولو اسپتال میں  انتقال ہوگیا۔ اُن کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) نے ایک تعزیتی قرار داد پاس کی جس میں  اُن کی گوناگوں  علمی، تہذیبی اور سیاسی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کے انتقال کو ملک و قوم کے لیے ایک ایسا خسارہ قرار دیا گیا جس کی تلافی ممکن نہیں  ہے۔

  ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی 1921 میں  پیدا ہوئے تھے۔ انھوں  نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 1948 میں  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات میں  اُن کا لکچرر کی حیثیت سے تقرر ہوا اور یہاں  سے 1982 میں  وہ سبک دوش ہوئے۔ اُن کے شاگردو ں میں  نائب صدر جمہوریۂ ہند جناب محمد حامد انصاری کا نام نمایاں ہے۔ ان کے سینکڑوں  شاگرد ملک و بیرونِ مملک میں  مختلف شعبوں  میں  خدمت انجام دے رہے ہیں۔  ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی زندگی بھر تصنیفی و تالیفی خدمات انجام دیتے رہے۔

  ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی 1984 سے 1990 تک راجیہ سبھا کے رکن ہے جہاں  وہ بڑی جرأت اور بیباکی سے ملکی اور قومی مسائل پر اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔  ڈاکٹر ہاشم قدوائی وسیع المطالعہ شخص تھے۔ اُن کا شمار اردو اور انگریزی کے معروف اور ممتاز تبصرہ نگاروں  میں  ہوتا تھا۔ اُن کے اہم علمی اور سیاسی موضوعات پر اردو اور انگریزی اخبارات میں  مراسلے شائع ہوتے رہے ہیں۔  مختلف موضوعات پر اُن کی متعدد کتابیں  بھی شائع ہوئی ہیں۔  اُن کی کتاب نیشنلسٹ مسلم (آپ بیتی بہ زبانِ انگریزی) کا رسمِ اجرا گزشتہ دنوں  نائب صدر جمہوریۂ ہند جناب محمد حامد انصاری کے ہاتھوں  عمل میں  آیا۔

 انجمن ترقی اردو (ہند) محسوس کرتی ہے کہ ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کی وفات سے ہم ایک اہم علمی، سماجی اور سیاسی رہنما سے محروم ہوگئے ہیں  اور امید کرتی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور حکومتِ اترپردیش اُن کے شایانِ شان کوئی اہم یادگار قائم کرے گی۔

آخر میں  انجمن دعا گو ہے کہ خدا مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں  جگہ اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔