ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق: تیری خوبیاں زندہ تیری نیکیاں باقی

 قمراعظم صدیقی

(بھیروپور،حاجی پور،ویشالی،بہار)

 ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کے انتقال کا غم تادیر باقی رہے گا۔ ان کے اچانک اٹھ جانے سے ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ ضلع ویشالی کی اردو آبادی میں بھی غم کا ماحول برپا ہے۔ ان کے انتقال سے گھرکے افراد کو جو صدمہ پہنچاہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ضلع ویشالی کی اردو تحریک میں مشتاق صاحب کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے مستقبل قریب میں اس کی بھرپائی کے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔

 میرے اور مشتاق صاحب کے درمیان استاد اور شاگرد کا رشتہ تھا۔ میٹرک اکزام کے وقت میں ان سے ٹیوشن پڑھتا تھا۔ وہ بہت محنت اورمحبت کے ساتھ اپنے طالب علمو ں کو پڑھاتے تھے۔ مشتاق صاحب بااخلاق، باکردار ،شریف النفس، وخوش مزاج اور ملنسار انسان تھے۔ صبر اور شکر کے وہ پیکر تھے۔ جب بھی کسی سے ملتے مسکراتے ہوئے ملتے۔ نہایت عاجزی اورانکساری کے ساتھ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے۔

 آپ کا اصل نام مشتاق احمد اور قلمی نام مشتاق احمد مشتاق تھا۔ آپ کے والد کا نام ممتاز احمد اور دادا کانام عبدالمجید تھا۔ آپ کا آبائی وطن پاتے پور بلاک کے چک جادو گاؤں میں ہے۔ آپ کی والدہ چونکہ اپنے میکے میں بس گئی تھیں اس لیے مشتاق صاحب بھی نانیہال کے ہی ہوکر رہ گئے اور بالآخر یہیں پیوندِ خاک بھی ہوئے۔

 مشاق صاحب کی ابتدائی تعلیم حافظ عزیز الرحمن صاحب (مرحوم) سابق امام وخطیب جامع مسجد بھیروپور کی زیرنگرانی ہوئی۔ بہترتعلیم وتربیت کی غرض سے انھیں دربھنگہ بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک کی تعلیم شفیع مسلم ہائی اسکول لہریا سرائے،دربھنگہ سے حاصل کی۔ اسی درمیان آپ کے گھر ایک حادثہ پیش آیا اور آپ کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ والدہ اس حادثہ سے بے حد افسردہ تھیں۔ مشتاق صاحب کے نانا نے بیٹی کے غم کو کچھ ہلکا کرنے کے ارادے سے نواسے کو واپس ماں کے پاس بھیج دیا۔ اب مشتاق صاحب کا داخلہ بھیروپور کے قریب جنتا ہائی اسکول پانا پور ، دھرم پور ،ضلع ویشالی میں کرایا گیا۔ اسی اسکول سے انھوں نے میٹرک کا اکزام پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ اور بی اے کی تعلیم آر۔ این کالج حاجی پور سے حاصل کی۔ 1988ء میں بہار یونیور سٹی ، مظفرپور سے اردو میں ایم۔ اے کیا۔ 2003 ء میں بہاریونیورسٹی سے ہی اردو میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سال1990ء میں انھیں حاجی پورکے ایک انٹر میڈیٹ کالج’’ویمنس کالج‘‘میں ملازمت حاصل ہوگئی۔ انتقال کے و قت تک وہ اس کالج میں شعبۂ اردو کے استاد اور صدرشعبۂ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

  مشتاق صاحب کا قد میانہ، رنگ زردی مائل، جسم دبلا پتلا ، کلین شیو دیکھنے میں اچھے بھلے معلوم پڑتے تھے۔ کبھی شرٹ پینٹ ،کبھی کُرتا پاجامہ زیبِ تن کرتے۔ خاص موقعوں پر شیروانی بھی اہتمام سے پہنتے۔ جاڑے کے دنوں میں کوٹ پینٹ میں بھی نظر آتے۔ کبھی کبھی جناح کیپ بھی لگاتے ۔ مشتاق صاحب پہننے کے شوقین تھے۔ ان کے پاس کچھ عجوبہ قسم کی چیزیں بھی ہوتیں۔ مثلاً گھڑی کا ڈیزائن Unique قسم کا ہوتا۔ چھتری بھی عام چھتریوں سے مختلف ہوتی۔ قلم بھی ایسا رکھتے جو پہلی نظر میں ہی دیکھتے بھا جاتا۔ الگ الگ قسم کے خوبصورت جوتے بھی شوق سے پہنتے۔ غرض کہ ان کے پاس کچھ الگ ڈھنگ کی چیزوں کا Collectionرہتا تھا۔

 مشتاق صاحب کو اردو سے حد درجہ محبت تھی۔ کہنا چاہیے کہ اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھی، اردو ان کی ہمسفر تھی، اردو ان کی غذا تھی،اردو ان کی زندگی تھی۔ وہ دیوانگی کی حد تک اردو سے محبت کرتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ، ان کے ٹیبل پر ،ان کی الماریوں میں اردوکی کتابیں ،رسالے ہمیشہ موجود رہتے۔ ان کی آمدنی بہت قلیل تھی ،لیکن اردو اخبارات ،کتابیں اوررسائل کی خریداری کرتے وقت وہ اپنی جیب پر نگاہ نہیں ڈالتے تھے۔ جو پیسے پاس میں ہوتے اس سے یہ چیزیں خرید لیتے۔ خودپڑھتے اوردوسروں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتے۔ مشتاق صاحب نے اپنی اس کیفیت کا بیان اپنی کتاب’’ذوقِ ادب‘‘میں کچھ یوں بیان کیا ہے:

 ’’اردو کی کتاب،اخبارات اور رسائل میرے سچے رفیق ہیں۔ زندگی کے نشیب وفراز اور تلخیوں، محرومیوں ، مصائب و مشکلات کا سامنا میں انہیں رفقاء کے سہارے کرتا ہوں۔ ‘‘

 آپ کی اردو دوستی یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی بار بھوجے والے اور ٹھیلے والے کے پاس بھی اگر اردو کا کوئی اخبار، رسالہ یا کتاب دیکھا تواسے خرید لیا کرتے تھے۔ یہ تھی مشتاق صاحب کے دل میں اردو سے محبت۔ حاجی پور اور پٹنہ کی اردو محفلوں میں وہ لازمی طور پر شرکت کرتے تھے۔

 مشتاق احمد صاحب کی کئی کتابیں منظرعام پر آئیں اوراہل علم کے نزدیک قدرکی نگاہ سے دیکھی گئیں۔ آپ کی پہلی کتاب’’ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی :شخصیت اور خدمات‘‘ کے عنوان سے 2005 ء میں منظرعام پر آئی۔ دوسری کتاب ’’ذکی احمد: شخصیت اور شاعری‘‘کے عنوان سے 2009 ء میں شائع ہوئی۔ تیسری کتاب انھوں نے اپنے استاد محترم ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی شخصیت اور خدمات سے متعلق بعنوان ’’ڈاکٹر ممتاز احمد خاں:ایک شخص ایک کارواں‘‘سال 2015 ء میں ترتیب دی۔ ان کتابوںکے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ذوقِ ادب ‘‘2015 ء میں اشاعت پذیر ہوکرمقبول خاص وعام ہوا۔

 مشتاق صاحب بڑی خوبیوں کے انسان تھے۔ مشتاق صاحب کی ان خوبیوں کی تعمیر و تشکیل میں ان کی والدہ کا بے حد تعاون رہا ہے۔ ان کی والدہ نہایت مہذب،شریف النفس اوردیندارخاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا ،جن کے اچھے اثرات مشتاق صاحب پرمرتب ہوئے۔ پرائیوٹ کالج کی نوکری اورگھر کے بڑے ہونے کی وجہ سے ذمہ داریوں کے بوجھ سے وہ ہمیشہ زیرِ بار رہے ۔ لیکن انھوں نے اپنی پریشانیاں کبھی کسی پر ظاہر نہیں کیں۔ ہنس کر اورمسکرا کر وہ تمام پریشانیوں کوجھیل لینے کے عادی تھے۔ اللہ نے ان کے لیے جتنا رزق مقررکر رکھا تھا اس پر انھوں نے قناعت کیا۔

 میں ان کا شاگرد بھی ہوں اور پڑوسی بھی۔ میری آنکھوں کے سامنے دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنیاد پر مشتاق صاحب کی پرہیزگار ی اور خدا ترسی کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ سرکاری اسکیم ’’اندراآواس‘‘ کے تحت مشتاق صاحب کے گھر کی تعمیر کے لیے پیسہ ایشو ہونا تھا۔ شرط یہ تھی کہ اہلیہ کی تصویر سرکاری کاغذات میں چسپاں کر آفس میں دینا تھا۔ مشتاق صاحب نے یہ شرط ٹھکرادی اورکہا کہ گھر کی تعمیر کے لیے میں اہلیہ کی تصویر سر بازار عام نہیں کرسکتا۔ اس طرح وہ اسکیم کا فائدہ نہ اٹھاسکے۔ دوسرا واقعہ ان کی والدہ کے انتقال کے بعد کا ہے۔ ان کی والدہ پنشن یافتہ تھیں۔ ان کے انتقال کے وقت کچھ پیسے بینک میں پڑے تھے۔ مشورہ ہوا کہ اس پیسے کو نکال لیا جائے۔ مشتاق صاحب نے کہا کہ میں دو بھائی ہوں۔ چھوٹا بھائی روزگار کے سلسلے میں فی الحال سعودی عرب میں ہے۔ اس کی غیر موجودگی میں پیسہ نکال لینا مناسب نہیں ہے۔ بالآخر مشتاق صاحب نے والدہ کے بینک اکاؤنٹ سے پیسہ نہیں نکالا۔

 مشتاق صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ لیکن ان کی یادیں اور باتیں سایہ کی طرح ہمارے ساتھ رہیں گی۔ ہم باشندگان بھیروپور ان کے انتقال سے بہت افسردہ ہیں۔ اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب عطافرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ خاص کر ان کی اہلیہ محترمہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ رحم وکرم کا معاملہ فرماتے ہوئے کسی متبادل کی سبیل پیدا کریں۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔