ڈَرٹی پولیٹِکس

جان محمد

چناوی موسم دستک دے رہاہے،2019میں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں جن کیلئے زمین تیارکی جانے لگی ہے، ریاست جموں و کشمیرمیں سبز۔ زعفرانی اتحاداپنے تین برس مکمل کرنے لگاہے، بھاجپاجشن منانے کی روایت بھی پوری کررہی ہے،سیاستدانوں کے اندرسے کھوکھلے پن اوردوغلے پن نے ان کے پاس کوئی مدعانہیں چھوڑاہے۔ پانی۔ بجلی۔ سڑک کے بوسیدہ نعرے بلندکرنے سے ان کاکام نہیں بنتالہٰذااب یہ سیاست کے اس قدرگِرے ہوئے معیارپراُترآئے ہیں کہ ان کی سیاسی چالوں کو’ڈرٹی پوولیٹِکس‘یعنی ’گندی سیاست‘  کہاجائے توبیجانہ ہوگا،چونکہ ’ڈرٹی پولیٹیکس‘نام کی ایک ہندی فلم بھی 2015میں بنی جس میں سیاست کی گندگی کو اُجاگر کیا گیا لیکن اب سیاست نہ صرف گندی بلکہ بھیانک رُخ اختیارکررہی ہے۔

صوبہ جموں اِن دِنوں عجیب وغریب صورتحال سے دوچارہے، یہاں سرگرم سیاسی جماعتیں وہندوانتہاپسندتنظیمیں اہلیانِ جموں کو ڈرااوردھمکارہی ہیں ، ایک ایسی فضاقائم کی جارہی ہے جہاں ہرہندومسلمان کواپنے لئے خطرہ تصورکرے اور ہرمسلم ہندوکواپنے لئے خطرہ تصورکرے، سرعام اعلاناً کہاجارہاہے کہ اپنے آس پاس مسلمانوں کوبسنے نہ دیاجائے، جن علاقوں میں اقلیتی طبقہ کے اِکادُکاگھرانے ہیں وہاں شرپسندنعرے بازی کرنے لگے ہیں ،اورہندوستان کی دیگرریاستوں والی آگ سے یہاں کے چمن کوراکھ کرنے کی نت نئے فتنے تلاش کرنے لگے ہیں، کہیں ’یہاں رہناہے تورام رام کہناہے‘کے نعرے بلندہورہے ہیں توکہیں وزرأ کسی فرقہ پرست تنظیم کی چھترچھایامیں جاکربھاشن دے رہے ہیں ،پہلی مرتبہ اقتدارسے لطف اندوزہونے والی بھاجپا جس جوش اوراندازمیں فتحیاب ہوئی اور25نشستوں پرکامیابی حاصل کی ان کی کامیابی کے پیچھے بہت ساری طاقتوں کاہاتھ ہے جنہوں نے اہلیانِ جموں کو بھاجپالانے کیلئے ذہنی طورپرتیارکیا۔

بھاجپانے بڑے بڑے وعدے کئے تھے لیکن آج ہرطرف اِسے منہ کی کھانی پڑرہی ہے،پارٹی کے خلاف غصے کی لہربڑھتی جارہی ہے، ایسے میں نازک معاملات کواُچھالنااورسستی شہرت پاناان کاشیوہ بن چکاہے،ہیرانگرمیں ننھی آصفہ کی عصمت ریزی وقتل کے معاملے کو بھاجپااپنے لئے نئی آکسیجن کے طورپراستعمال کرنے کی بھرپورکوشش کررہی ہے، گذشتہ چنائو میں کئے گئے بڑے وعدوں کووفاکرنے میں ناکامی کے بعد اب لوگوں کے بیچ جانے کیلئے مسلم قبائل کوایک بڑے خطرے کے طورپرپیش کیاجانے لگاہے، بھاجپاکی ہم خیال تنظیمیں زمین تیارکرنے لگی ہیں ، وہ مسلم آبادی کواہلیانِ جموں کیلئے بڑاخطرہ قرار دیتے نہیں رکھ رہے ہیں ، انہیں لگتاہے کہ جموں شہرکے گردونواع آبادمسلم بستیاں ان کیلئے خطرہ ہیں ، انہیں سدھڑاسے لیکر بٹھنڈی، سنجواں وچواہدی سے آگے تک کے علاقے بارود سے بھرے پہاڑ نظرآتے ہیں، جموں کے مسلم طبقے میں اکثریت گوجرطبقے کی ہے اوریہی طبقہ فرقہ پرست عناصرکی آنکھ میں بُری طرح کھٹک رہاہے، اِسے خوفزدہ کرنے کیلئے انسانیت کوشرمسارکردینے جیسی حرکت تک کربیٹھنے کے بعد بھی کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہ ہونے پرہرطرف بوکھلاہٹ کاسایہ ہے جوانہیں اندرہی اندرکھائے جارہاہے۔

اہلیانِ جموں کوفرقہ وارانہ بنیادوں پہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑاکرنے کیلئے زمین تیارکی جارہی ہے،چونکہ چناوی دورطویل ہے، پارلیمانی چنائوہونگے ، پھرریاست میں اسمبلی چنائوہونگے ،ایسے میں ماحول کوگرمائے رکھنے کیلئے نفرت کے بیج جتنے بوئے جاسکتے ہیں ، انتہائی شدت کیساتھ بوئے جارہے ہیں ، اکثریتی طبقے کوایسے خوف و دہشت سے دوچارکیاجارہاہے کہ وہ تعمیروترقی، خوشحالی جیسے سبزباغ بھول جائیں ، گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کئے گئے وعدوں کوبھو ل جائیں اوران کاذہن اس قدرواشکیاجائے کہ وہ یہ جان جائیں کہ اگرانہیں محفوظ رہناہے توبھاجپاکوہی پھرسے لاناہے،آصفہ معاملے نے بہت سارے چہروں پرسے نقاب اُتارپھینکاہے، ننھی بچی کی شہادت رنگ لائی ہے، کون کتناپانی میں ہے اور کون کتناغلیظ سو چ کامالک ہے ، یہ سب کے سامنے عیاں ہے۔

 گندی سیاست بے نقاب ہونے کے بعد اب ہرکوئی نفرت کاننگاناچ ناچنے لگاہے، جموں شہرکی صبح گوجروں سے ہوتی ہے، صبح ہرکوئی اپنے گھرکے دروازے کی طرف تکتاہے کہ دودھ آئے گاتوہم چائے پئیں گے، لیکن اب یہی گوجرطبقہ قبائلی حملہ آوروں اورقابضوں کی طرح پیش کیاجارہاہے، اس کے ساتھ ایسابدترین سلوک کیاجارہاہے جیسے وہ اس ریاست کاحصہ نہیں ہیں ، انہیں مال مویشی پالنے کاحق نہیں ، موسمی نقل مکانی ان کی مجبوری ہے لیکن شرپسندعناصراب آنے والے اس سیزن میں ان کاجینامحال کردیں گے،جگہ جگہ ان کاراستہ روکاجائیگا،ان کیساتھ مار پیٹ کی جائیگی، ان سے مال مویشی چھین لیاجائیگا، پولیس بھی فرقہ پرست سوچ کی نمائندگی کرے گی اور غیرقانونی اسمگلنگ کالیبل لگاکر اس طبقے کی زندگی بھرکی کمائی کوہتھیالے گی۔

ایک منصوبہ بندسازش اوربیمارذہنیت کے تحت ایسے وقت میں یہ ماحول تیار کیا جارہاہے جب اگلے ہی ماہ یارواں ماہ کے آواخرمیں گوجربکروال طبقہ میدانی علاقوں سے ہجرت کرتے ہوئے پہاڑوں کی جانب کوچ کرے گا،جموں کی نام نہادسِول سوسائٹی بھی اس طبقے کے پیچھے ہاتھ دھوکرپڑنے والے عناصرکی پیٹھ تھپتھپارہی ہے، خانہ بدوشی کی اس ذلت سے نجات دلوانے کیلئے ریاستی حکومت نے ایک جامع ٹرائبل پالیسی بنائے کااِرادہ ہی کیاہے توبھاجپاکی ہم خیال ہندوانتہاپسندتنظیمیں اِسے ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازش قرار دیکرواویلاکرنے لگے ہیں ، یعنی مسلم طبقہ یہاں آبادبھی نہیں ہوناچاہئے، وہ ہجرت بھی نہ کرے ، دوسری طرف وادی کشمیرسے مشترکہ مزاحمتی قتادت اگرگوجربکروال طبقہ کے حقوق پرکبھی کبھارکب کشائی کردے توبھی فرقہ پرست عناصرکاپیٹ خراب ہوجاتاہے اورپھر بوکھلاہٹ کاشکارہوتے ہوئے گوجروں کو سچاہندوستانی اور ’دیش بھگت‘کہتے ہوئے اپنی مکاری کابرملااِظہارکرتے ہیں۔

مجموعی طورپرنفرت کی آندھی میں اُڑتی فرقہ پرست ذہنیت ایک عجیب وغریب کشمکش میں مبتلا ہوکررہ گئی ہے، ایک طرف جہاں کچھ عناصر جموں میں مسلم طبقے کے تئیں جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی نفرت سے بھری ذہنیت کوسامنے لارہے ہیں وہیں کچھ ’سمجھدار‘مسلم طبقہ میں عدم احساس کارجحان پیداکرنے کوبڑے خطرے سے تعبیرکرتے ہوئے اس خوف میں مبتلاہوجاتے ہیں کہ ایساہواتویہ تحریک ِ آزادی کشمیرکیساتھ اپنے کنیکشن جوڑیں گے ،علیحدگی پسندی سوچ پروان چڑھے گی، اورتحریک صوبہ جموں میں اپنے پائوں پسارے گی،سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پرکئی معروف وکلاء نے ایسی فکرمندی کااِظہارکیاہے، بارایسوسی ایشن جموں کے صدر نے گذشتہ روز پریس کانفرنس بلاکرواضح کیاکہ گوجرقوم ملک سے محبت کرنے والی قوم ہے، اس میں سبھی کو مویشی اسمگلر کہناغلط ہے،یعنی اُنہوں نے کسی حد تک نفرت کے بیج بونے والوں کے داغ دھونے کی ناکام کوشش کی۔

صوبہ کے ذیلی خطے بھی نفرت کی اس آندھی سے پاک نہ ہیں ، ایسے میں صوبہ جموں ہی نہیں بلکہ ریاست بھرکیلئے آنے والاوقت انتہائی کٹھن اورطرح طرح کے چیلنجوں سے بھراہوگا۔ صوبہ جموں کی مسلم آبادی کے سامنے بڑاچیلنج فرقہ پرستوں کے منصوبوں سے باخبررہنااور ڈٹے رہناہوگا، ششماہی ہجرت کے نام پرزمین سے اپنے پائوں اُکھاڑنے سے بہترہے کہ آصفہ کی معصومیت ،آصفہ کی تکلیف، آصفہ کی چیخ وپکارکومحسوس کیاجائے اور شرپسندوں کی تمام ترسازشوں کوناکام بنایاجائے، ورنہ ہمت ہارگئے توننھی آصفہ کوکیامنہ دکھائوگے۔

معروف شاعر بقول ذولفقارنقویؔ کے دواشعارکیساتھ میں قارئن سے اجازت چاہوں گا۔

دیکھ، بدلاہے رُخ ہواؤں کا

اپنی دستارباندھ لے کر کس

روندتے آئے ہیں چھالوں سے کئی زنجیرہم

اب تمہارے خارکوئی راستہ روکیں گے کیا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔