ایس پی۔ بی ایس پی، بی جے پی پر بھاری

رویش کمار

ببوا تو بُوا کو لے کر سيرييس ہے. تبھی تو جیت کے بعد ببوا بُوا کے گھر پہنچ گیا. سیاست میں نعرے اور شبیہ کتنی جلدی بدلتے ہیں. گزشتہ سال راہل اور اکھلیش کی جوڑی یوپی کے لڑکے کہلائے، نہیں چلے تو اب بُوا۔ ببوا کا نعرہ چل نکلا ہے. اکھلیش یادو گلدستہ لے کر بی ایس پی لیڈر مایاوتی کے گھر ملنے پہنچ گئے. یوپی کی سیاست میں اس سے طویل مدت کے لیے مساوات بننے والی ہے. اس جوڑے کو وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سانپ چھچھوندر جوڑا کہہ دیا. ان کی یہ بات نہ تو بُوا کے گھر والوں کو پسند آئی اور نہ ہی بھتیجے کے گاؤں والوں کو. یوگی سانپ چھچھوندر تو بول رہے تھے لیکن انہیں بھی پتہ نہیں چلے گا کہ اسی سانپ والی پارٹی سے ایک نیتا نکل کر ان کی پارٹی میں آ رہا ہے جو کبھی وہسکی میں وشنو بسے اور رم میں بسے شری رام ٹائپ کا نعرہ دے چکا ہے. جب رام کے تئیں بھدا تبصرہ کرنے والا جے شری رام والوں کی پارٹی میں آ سکتا ہے تو ببوا، بُوا کے گھر تو جا ہی سکتا ہے. ہندوستانی سیاست میں ایک دوسرے کو سانپ اور چھچھوندر کہنے کی سے اچھا ہے خاموش رہنے کا غرور پال لینا.

اپوزیشن کی صفوں میں ضمنی انتخابات کے نتائج کا جوش سمجھ آسکتا ہے. کئی بار ہندوستان کی سیاست ذیلی انتخابات ہی میں آنے والی تبدیلی کا اشارہ دے چکی ہے مگر کئی بار ان کا سارا پیغام اگلے انتخابات میں لاپتہ ہو جاتا ہے. گو رکشک پیٹھ کے مہنت، ہندو یُوا واہنی چلانے والے یوگی کو گورکھپور میں کوئی شکست دینے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا. یوگی وہاں صرف مقبول ہی نہیں ہیں یا تھے بلکہ ان کے سامنے کسی کو کوئی امیدوار ہی نظر نہیں آتا تھا. ان کے وزیر اعلی بننے پر گودی میڈیا ان کی گوشالا تک چلا گیا، ہفتوں چینلز پر یوگی یوگی چلا اور اسی بہانے عوام کے عام سوالوں کو میڈیا نے آرام سے غائب کر دیا جیسے ملک میں کوئی مسئلہ ہی نہ ہو. گورکھپور میں رہیں گے تو یوگی یوگی کرنا ہوگا. یہ سوال یوگی خود سے پوچھ رہے ہوں گے کہ گورکھپور میں رہنے کے لئے انہیں کیا کہنا ہوگا. گورکھپور میں ان کی مقبولیت ہی تھی جو انہیں یوپی کی قیادت تک لے گئی. وہ بھی تب جب یوگی اپنی سیاسی زندگی کے سنہری دنوں میں ہیں تب گورکھپور میں بی جے پی ہاری ہے. پھر بھی آپ جوش میں یہ سمجھنے کی بھول نہ کریں کہ گورکھپور میں یوگی ختم ہو گئے یا کمزور ہوئے ہیں، اس کے بجائے یہ سمجھیں کہ گورکھپور میں یوگی ہار سکتے ہیں تو ہندوستانی سیاست میں اب بھی وہ امکان باقی ہے کہ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے.

28 سال سے گورکھپور کی سیٹ گؤ رکشک پیٹھ کے پاس رہی ہے. پہلے مہنت اویدھ ناتھ اور پھر یوگی آدتیہ ناتھ. جو لوگ یوپی کی سیاست کو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یوگی ہونے کا کیا مطلب ہے. گوركھپور کے گورکھناتھ خانقاہ کے بوتھ پر بی جے پی کو 43 ووٹ ملے ہیں، سپا کو 1775 اور کانگریس کو 56 ووٹ ملے ہیں.

بی جے پی کی طرف سے کہا گیا کہ حکومت کا پیغام عوام تک نہیں پہنچا. آپ فلم بھی دیکھنے جائیں تو وہاں دوسری مصنوعات سے زیادہ حکومت کا اشتہار ہے. اخبار سے لے کر شہر، ہورڈنگز سے بھرے ہیں. ٹوئٹر سے لے کر فیس بک پر حکومت کا اشتہار ہے. گودی میڈیا کے چینل اور اخبار دن رات یہ کام کر رہے ہیں. مسلسل ہندو مسلم ٹاپک پر بحث چل رہی ہے، آپ گزشتہ دنوں کا ٹی وی کا حساب نکالیں تو پتہ چلے گا کہ گودی میڈیا نے چار سال اپوزیشن پر حملہ کرنے اور ہندو مسلم ٹاپك پر ڈبیٹ میں ہی نکال دیا. وهاٹس اپ اور ٹی وی کے ذریعہ نوجوانوں میں زہر بھرنے کی کوشش ہوئی تاکہ نوجوان ڈاکٹر نہ بنیں فسادی بن جائیں. کل تک آپ اخبارات میں پڑھ رہے تھے کہ بی جے پی تنظیم والی پارٹی ہے، اس کی تنظیم دن رات بیدار رہتی ہے، ایک ہار سے سننے لگے کہ تنظیم بکھر گئی. وہاں گورکھپور میں تو بی جے پی کے علاوہ ہندو یُوا واہنی بھی کم فعال نہیں تھی.

آپ  اس شخص کو نہیں جانتے جس نے یوگی کو گورکھپور میں شکست دے کر تاریخ بنائی ہے. یوگی 26 سال کی عمر میں گورکھپور سے ممبر پارلیمنٹ بنے تھے، پروین کمار نشاد 29 سال کی عمر میں گورکھپور سے سانسد بنے ہیں. میکینکل انجینئر ہیں. ان کے والد ڈاکٹر سنجے کمار نشاد نے 2016 میں قومی نشاد پارٹی بنائی تھی. کبھی باپ کو انتخابی کام یابی نہیں ملی، ضمنی انتخابات کے وقت ایس پی نے سنجے نشاد کو حصہ داری کی تجویز دی. جب پروین کو ٹکٹ دیا گیا تو سنجے نشاد مان گئے. کیا یوپی میں بی جے پی کی کامیابی کے پیچھے گھٹ بندھن کی یہی ترکیب کام نہیں کر رہی تھی. کیا آپ کو یاد ہے اسمبلی میں بی جے پی نے کتنے جماعتوں سے اتحاد کیا.

اکھلیش کی ایک بات پر غور کیجئے. جب یوگی نے کہا تھا کہ میں ہندو ہوں عید نہیں مناتا. یہ مناسب نہیں تھا. چار سال تک اپوزیشن پارٹی ایسے بیانات سے ڈرتے رہے کہ کہیں ہندو بن چکا ووٹر ناراض نہ ہو جائے مگر انہوں نے ہندو ووٹر کو کم سمجھا. وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہولی دیوالی اور عید سب کی ہے. ہندو ووٹر کب سے اتنا گھمنڈی ہو گیا کہ وہ عید نہ منانے کی بات پر سینہ پھلائے گا. آئینی عہدے پر رہتے ہوئے یہ کہنا کہ میں ہندو ہوں، عید نہیں مناتا، اس سے کس کا بھلا ہوتا ہے.

ہار جیت کا اصول ایک روایت ہے. کہا گیا کہ برہمن ووٹر ناراض ہے مگر ٹکٹ تو برہمن امیدوار اوپیندر دت شکلا کو دیا گیا جو گورکھپور سے راجیہ سبھا سانسد شیو پرتاپ شکلا کے قریبی ہیں. شیو پرتاپ شکلا کو راجیہ سبھا میں بھیجا ہی اس لیے گیا تھا تاکہ برہمن ووٹر بی جے پی کے پالے میں رہیں. یہ کہنا کہ اوپیندر شکلا بغیر یوگی کے منظوری کے امیدوار بن گئے ہوں گے، یہ بات اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوتی اور نہ یہ بھی کہ بی جے پی کی تنظیم یوگی کے گورکھپور میں فعال نہیں تھی. پھر امت شاہ کی بی جے پی، آر ایس ایس کا گھیرا یہ سب تھیوری کیا گورکھپور میں نہیں چلی.

ایک چیز اور دیکھیے۔  گورکھپور میں نشاد اور پھولپور میں پٹیل امیدوار کی جیت ہوئی ہے. یہ دونوں ہی سماج بی جے پی کے لئے لوک سبھا اور اسمبلی میں جیت کی بنیاد ہیں. انوپريا پٹیل کے طور پر ان کے پاس نوجوان پٹیل لیڈر اور وزیر ہے. ہار کی وجہ عوام کی زندگی میں پائے جاتے ہیں. گورکھپور کا چینی مل ابھی تک نہیں بنا ہے. وزیر اعظم بھی بھاشن دے چکے ہیں، یوگی آدتیہ ناتھ بھی بھاشن دے چکے ہیں. گورکھپور ریلوے کا اہم مرکز ہے. ریلوے کی گھٹتی ملازمتوں نے اس امتحان کی تیاری کر رہے طالب علموں کو کچھ تو سمجھا دیا ہوگا کہ 2 لاکھ 22 ہزار عہدے خالی ہیں اور ریلوے پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی سے کہتا ہے کہ تمام عہدوں کو بھرنے کا ارادہ نہیں ہے. صحافی منوج سنگھ نے دی وائر کے لئے ایک دلچسپ تجزیہ پیش کیا ہے.

یوگی کو گورکھپور میں دو بار ہی سخت چیلنج ملا ہے. 1998 اور 1999 میں دونوں بار ایس پی کے جمنا نشاد نے ہی چیلنج کیا تھا. ایک بار یوگی 26000 سے جیتے تھے اور 99 میں سات ہزار سے زیادہ ووٹوں سے جیتے تھے. اسی کے بعد ہندو یُوا واہنی بنائی اور 1998 سے ان کی جیت کا فرق بڑھتا چلا گیا. دو بار نشاد امیدوار سے ہارتے-ہارتے یوگی آخر میں تیسری بار ہار ہی گئے. گورکھپور میں نشاد ووٹر کی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے اور یادو اور دلت کی تعداد دو لاکھ ہے. جبکہ برہمن ڈیڑھ لاکھ. اس جیت نے گورکھپور میں نشاد سیاست کی تسلط کی شروعات کر دی ہے. ان کے پاس اس علاقے میں ایک اسمبلی بھی ہے. غور سے دیکھئے تو امیدوار نہ تو ایس پی کا تھا، نہ بی ایس پی کا نہ کانگریس کا. مگر ایس پی ۔ بی ایس پی کے ساتھ آنے بھر سے کھیل ہو گیا.

بُوا۔ ببوا زندہ باد کے نعرے کیا لگے کہ انہوں نے 28 سال سے جیت رہے یوگی کو گورکھپور میں ہرا دیا. اتر پردیش کے مسائل تو ختم نہیں ہوتے، سیاست بدل جاتی ہے. دونوں میں کوئی تعلق نہیں ہے. راہل گاندھی نے اس جیت پر تمام امیدواروں کو مبارک باد دی ہے. نتائج سے صاف ہے کہ ووٹروں میں بی جے پی کے تئیں بہت غصہ ہے اور وہ اس غیر بھاجپائی امیدوار کے لئے ووٹ کریں گے جس کے جیتنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوں. کانگریس یوپی میں نونرمان کے شوقین ہے، یہ راتوں رات نہیں ہو گا. تو کیا یوپی میں سماجوادی پارٹی کانگریس کی جگہ ایس پی بی ایس پی کا اتحاد کھیل پلٹ سکتا تھا. یا اب یہ تینوں کے آنے کا امکان مضبوط ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ باقی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی طرح ایس پی اور بی ایس پی کے رہنماؤں کے یہاں چھاپے ماری تیز ہو جائے گی اور گرفتاری سے کھیل بدلہ جانے لگے گا.

ارریہ، کشن گنج اور پورنیہ یہ سب ایک بیلٹ ہے. ارریہ لوک سبھا سیٹ آرجے ڈی رکن پارلیمنٹ تسليم الدين کے انتقال سے خالی ہوئی تھی. اس سیٹ پر سرفراز عالم نے بی جے پی کے پردیپ سنگھ کو 61 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرا دیا. بھبھوا اسمبلی میں بی جے پی کی امیدوار رنکی رانی پانڈے کانگریس کے امیدوار شمبھو سنگھ پٹیل سے جیت گئی ہیں. 14 ہزار سے زائد ووٹ سے. جہان آباد اسمبلی میں آر جے ڈی کے کرشن موہن یادو نے جے ڈی یو کے ابھیرام شرما کو 29 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی ہے. بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کا اتحاد آر جے ڈی کانگریس اور جتن رام مانجھی کے اتحاد کو خاص چیلنج نہیں دے سکا ہے.

کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ بی جے پی ضمنی انتخابات ہار جاتی ہے مگر الیکشن جیت جاتی ہے ایسا کیوں. 2019 کی جیت اور ہار کے مساوات اس میں دیکھے جائیں گے، مگر جو سیاست کا کھلاڑی ہوتا ہے وہ خاموشی کچھ اور کر رہا ہوتا ہے. بات یہ ہے کہ آپ کی ہماری زندگی بدلتی تو نہیں ہے، ہم اور آپ انہی کھلاڑیوں کے تجزیہ کو ہی سارا کھیل سمجھ کر الجھے رہتے ہیں.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. اردو گلشن ممبئی کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب رویش کمار صاحب

تبصرے بند ہیں۔