ہر لفظ ہے ابہام، نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

ادریس آزاد

 ہرلفظ ہے ابہام، نہ چِیدہ نہ چُنیدہ
کوئی نہیں پیغام، نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

جو ماہ ترے غم میں گزرجائے مبارک
ہے صورتِ ایّام نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

گاہے یہ نہ گہنائے تو مرجائے قسم سے
سُورج کی کوئی شام نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

بس ایک تری راہ کو تکنے کے سوا اور
دنیا میں کوئی کام نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

تُو آئے کہ میں جاؤں خداؤں کی بلاسے
ہے تیرامرانام نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

ہم یار کے، اغیار کے، ہونٹوں پہ دھرے ہیں
تم پر کوئی الزام نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

آغازِمحبت پہ تو دونوں کی رضا تھی
کیسے ہواانجام نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

ہم یوں تو بہت خاص تھے پر عمر بسرکی
لوگوں کی طرح عام، نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

۔

آزاد بھی نیلام ہوا ہے سرِبازار
جس دم نہ کوئی دام نہ چِیدہ نہ چُنیدہ

تبصرے بند ہیں۔