ڈیرہ غازی خان کے ماورائے عدالت قتل کے ملزم آزاد

عتیق الرحمن

 پاکستان وہ مملکت خداد ہے جس کو دوقومی نظریہ (اسلام اور ہندوں الگ قومیں ہیں) کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔ اور اس کیلئے ہزاروں مائوں کے دامن اجڑے، کئی عورتوں کے سہاگ اور سیکڑوں بچے یتیم ہوئے۔ حصول پاکستان کا مقصد وحید یہ تھا کہ متحدہ ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ بدترین استحصالی رویہ رکھا جارہاتھا۔ اس ظالمانہ رویہ کے خلاف مسلمانوں نے متحد ہوکر آزادی کی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں آج اس ملک پاک میں ہم آزادانہ طور پر نقل و حمل کرسکتے ہیں۔ تاہم جس نظریہ پر یہ مملکت خداد حاصل کی گئی وہ نظریہ اسلام تھا۔

اسلام اس بات کو بنیادی اہمیت دیتا ہے کہ مظلوم کسی بھی قوم و فرقہ اور مذہب و مسلک سے تعلق رکھتا ہوکو برابر انصاف دیاجائے اور کسی کے ساتھ امتیازی و نارواسلوک نہ رکھا جائے۔ سوئے اتفاق ہے کہ ملک پاکستان میں قوم پرستی اور عصبیت کا جن بے قابو ہوچکا ہے کہ عوام تو عوام بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے شعبہ پولیس ملک میں ماورائے عدالت قتل کی بدترین مثالیں رقم کررہے ہیں۔ جس کا بدیہی نتیجہ ہے کہ جہاں پر مظلوموں میں ناامیدی و مایوسی جنم لے رہی ہے وہیں پر عوام الناس میں شدت و انتہاپسندی بھی فروغ پارہی ہے۔ چونکہ جب کسی بھی بیگناہ انسان کا خون بہایا جاتاہے اور حصول انصاف کی تمام کوششیں اور کاوشیں مسدود ہوجائیں تو ردعمل کے طورپر لاقانونیت و فرقہ واریت کو شہ ملتی ہے۔

 موجودہ حالات میں پاکستان کے اندر لاقانونیت کا طوفان بدتمیزی برپا ہوچکی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون، فیض آباد دھرنا، کراچی میں ایس پی رائوانوار نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے4سوسے زائد شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کردیا۔ اسی پر معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہواکہ مقصود اور انتظار کو بھی کراچی میں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ باوجود اس کے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے کے باوجود بھی یہ ظالمانہ سلسہ رکا نہیں بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہورہاہے جس کی عملی مثال جنوبی پنجاب کے پسماندہ ڈویژن ڈیرہ غازی خان کے موضع کوٹ ہیبت میں طارق خان کو سرمایہ دارطبقوں کے ایماء پر تھانہ صدر پولیس نے زیر حراست تشدد کرکے انہیں شہید کردیا۔

مقتول کے والدحاجی جلال نے اسلام آباد /ترنول میں نقیب محسود کے تعزیتی کیمپ میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مورائے عدالت قتل کی ریت پنجاب پولیس نے متعارف کروائی جس میں ہزاروں بیگناہ شہریوں کو قتل کردیا جاتاہے جبکہ ان پولیس افسران کیخلاف کوئی تادیبی و تحقیقی کاررائی بھی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ میرا بیٹاکم سن اکلوتی بیٹی کا باپ تھا کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرکے اس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا جس کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ جان کی بازی ہار گیا۔ اب حصول انصاف کیلئے احتجاج کرنے پر خود میرے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرکے مجھے پابند سلاسل رکھا گیا اور عزیز و رشتہ داروں کیخلاف جھوٹے مقدمات درج کرکے حراساں کیا جارہاہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے دردمندانہ اپیل کرتاہوں کہ وہ فراہمی انصاف کو یقینی بناوائیں اور تھانہ صدر ڈیرہ غازیخان کے عملہ کیخلاف شفاف تحقیقات کا حکم جاری کریں۔

   وفاقی و صوبائی حکومتوں پر ضروری ہے کہ ملک کو انتشار و فساد کے سدباب کے خاتمے کیلئے اپنے ماتحت اداروں کو قانون کی پاسداری کا حکم دیں کہ وہ کسی بھی فرد کو بغیر جرم کے ثبوت اور عدالت میں قانونی چارہ جوئی مکمل کیے بغیر قتل کرنے سے احتراز کریں کیونکہ اس کے سبب شہریوں میں خوف و ہراس پیدا ہونے کے ساتھ ناامیدی و مایوسی بھی پیدا ہوتی ہے اور اپنی جان و مال کے تحفظ کی خاطر وہ قانون شکنی کی ریت بھی پڑجاتی ہے۔ ایسے میں ملک میں انارکی اور دہشت گردی فروغ پاجاتی ہے۔ اہل صحافت اور دانش وروعلماء و مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو سیاسی ومذہبی، لسانی و علاقائی عصبیت کی تردید میں مذکور قرآن وسنت کی ہدایات و تعلیمات کے مطابق حوصلہ شکنی کرتے ہوئے رواداری، امن و محبت اور بھائی چارگی کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کریں تاکہ ملک و ملت دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی منازل طے کرسکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔