ڈینگو سے بچاؤ- علاج اوراحتیاطی تدابیر

حکیم نازش احتشام اعظمی

ڈینگو بخار نے تو لوگوں میں ملیریا اور ٹائفائیڈ بخار کے ڈر کو بھی مات دے دی ہے، آج کل ہر کوئی ڈینگو مچھر سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایشیا میں ڈینگو کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ، شدید بارشیں، سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ شروع میں یہ مرض صاف پانی میں پیدا ہونے والے مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ مگر بعد میں گندے پانی میں پیدا ہونے والا مچھر ڈینگو وائرس کے مریض کا خون چوس کر صحت مند افراد کے خون میں منتقل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں، جس سے ڈینگو بخار کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ڈینگو بخار کی عام علامات تیز بخار، جسم میں شدید درد اور منہ اور بازؤوں پر سرخ دھبے پڑنا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق ڈینگو وائرس انسانی خون میں داخل ہو کر سب سے پہلے تلی کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ تلی انسانی جسم کا وہ عضو ہے جو جسم کا خون صاف کرتی ہے۔ تلی کا اہم ترین کام اینٹی باڈیز بنا کر جسم کے اندر جراثیم کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانا اور جسم میں پلیٹ لیٹس کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ جب ڈینگو وائرس جسم میں داخل ہو تا ہے تو پلیٹ لیٹس اور خون کے سفید خْلیے تیزی سے تباہ ہونے لگتے ہیں اور جب ہزاروں کی تعداد میں تباہ شدہ خون کے سفید خْلیے اور پلیٹ لیٹس تلی میں پہنچتے ہیں تو تلی پر ورم ہو جاتا ہے یہ صورتحال نہ صرف انسانی صحت کے لیے بلکہ زندگی کیلئے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ آج کل کی فضا کوڈینگو مچھر کی افزائش کے لئے بہترین ترین ماحول سمجھا جار ہا ہے۔ لوگ پچھلے سال ڈینگوبخارکے کئی مر یضو ں کی ہلاکتیں دیکھ کر خوف زدہ ہیں۔ ذرائع کے مطابق سرکاری اسپتالو ں میں ڈینگو بخار کی علامات کے آنے والے مریض کو ڈینگو بخار کے مریض کے طور پر رجسٹر نہیں کیا جارہا ہے اس کی وجہ میڈیا سے ڈینگو کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو چھپانا ہے۔

بہرحال اس سال بھی ڈینگو کے ڈنک نے لگ بھگ پوری دہلی کو اپنی چپیٹ میں لیا ہے۔ اس بار بھی یہ بیماری گزشتہ سال کی طرح وبا ئی شکل اختیار کرچکی ہے، لہذا یہ سوچ کر ہی دہشت پھیل جاتی ہے کہ ڈینگو نے گشتہ سال2015 میں دہلی میں سینکڑوں گھروں میں ماتم پھیلا دیا تھا۔ اس کے بعد بھی کارپوریشن گزشتہ سال کم اموات ہونے کا دعوی کرتا رہا ہے، لیکن منگل کو دہلی حکومت کے اقتصادی اور شماریات ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے جاری پیدائش اور موت کی سالانہ رپورٹ نے کارپوریشن کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال کے دارالحکومت میں ڈینگو سے 60 نہیں بلکہ 486 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعد میونسپل کارپویشن اس معاملے میں کچھ بھی بولنے کو تیار نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈینگو اور دیگر بیماریوں کے پھیلنے پر افسران معاملے کو دبانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مریضوں کے علاج سے زیادہ انہیں اپنے ریکارڈ کو بہتر بنانے کی فکر ہوتی ہے تاکہ احتساب سے بچ سکیں۔ میونسپل کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2015 میں دارالحکومت میں ڈینگو کے 15,867 کیس سامنے آئے تھے جس میں سے 60 لوگوں کی موت ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔ حکومت بھی یہ اعداد و شمار کو ہی صحیح مانتی رہی ہے، جبکہ پیدائش اور موت کے سالانہ رجسٹریشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 246 مردوں اور 240 خواتین کی ڈینگو سے موت ہوئی تھی۔ اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے ان کی موت کی وجہ ڈینگو بتایا تھا۔ اس لئے رجسٹریشن میں ان لوگوں کی موت کا سبب ڈینگوہی درج ہے۔

اللہ نہ کرے اگر آپ کو یا آپ کے کسی عزیز کو سخت بخار ہو گیا ہو، جسم پر سرخ دھبے ظاہر ہوں، جسم کا درد سے چوروچور ہونا، ہڈیوں، آنکھوں، جوڑوں اورانگ انگ کا درد کرنا پایا جائے، تویہ اشارہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو ڈینگو بھی ہو سکتا ہے، اپنی طرف سے کوئی تشخیص یا فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے فیملی معالج سے مشورہ کریں۔

 یہ بات یاد رکھیں !ڈینگو بخار سخت فلو کی طرح کی ایک بیماری ہے dengue hemorrhagic fever بخار کی ایک قسم ہے جو زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے جس میں تیز بخار، جگر کا بڑھ جانا اور بیماری کی شدت میں circulatory failureکا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس طرح کا بخار اچانک شروع ہوتا ہے اور فلو جیسی علامتیں ظاہر کرتا ہے۔ یہ بخار 2 سے 7 دن تک عموماً رہتا ہے اور درجہ حرارت 104سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ یہ بات کبھی بھی نہ بھولیں کہ’ڈینگو کا کوئی خاص علاج نہیں ہوتا ہے۔ بیماری کی حالت میں مریض کو پانی کا استعمال زیادہ کروایا جاتا ہے۔ ڈینگو بخار ہو جا ئے تو مریض کو فوری طور پر کسی قریبی طبی مرکز پہنچائیں۔ ‘

اس بیماری کی تشخیص اور علاج کسی مستند ڈاکٹر سے ہی کرائیں۔ ڈینگومیں مبتلا مریض کو روز مرّہ غذا کے ساتھ ساتھ زیادہ مقدار میں جوس، پانی، سوپ اور دودھ پلائیں۔ مریض کا درجہ حرارت 102 ڈگری F سے کم رکھیں۔ ڈینگو بخار کے مریض کو مرض کے دوران اسپرین اور بروفین کسی صورت میں استعمال نہ کرائیں۔

سخت بیماری کی صورت میں منہ سے خون آنا

کہا جاتا ہے کہ ڈینگو بخار( Dengue fever)۔ ڈینگو ’’dengue‘‘اسپینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی cramp یا seizure کے ہیں، جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا۔ 1950 میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک میں ایک وبا کی صور ت میں نمودار ہوئی تھی، جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ خصوصاً بچے ہلاک ہو گئے۔ 1990کے آخر تک اس بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ 1975سے1980تک یہ بیماری عام ہو گئی۔ 2002میں برازیل کے جنوب مشرق میں واقع ریاست Rio de Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی اور اس سے دس لاکھ سے زائد افراد جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات عموماًدیکھنے میں آئی ہے کہ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ سے چھ سال میں پھیلتی رہتی ہے۔ سنگا پور میں ہر سال چار ہزار سے پانچ ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو تے ہیں، جبکہ 2003میں سنگاپور میں اس بیماری سے چھ افراد کی ہلاکت بھی ہوئی۔ اور جو افراد ایک مرتبہ اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں وہ اگلی مرتبہ بھی اس بیماری کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے۔ اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔ یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ تاہم2003سے(pediatric dengue vaccine initiative)(PDVI) پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اگرچہ اس ویکسین کے تین ہزار سے پانچ ہزار افراد اور مختلف جانوروں پر تجربے کیے جا چکے ہے جس کے ابھی تک قدرے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ 2002 میں سوئس فارما کمپنی اورSingapore Economic Development boardنے مشترکہ طور پر اس وائرس کے خاتمے کی دوا تیار کرنے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ یاد رکھیں اسلام نے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دے کر انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے، یہ سچ ہے اگر انسان اپنی صفائی کے ساتھ ساتھ گھر محلہ اور ملک کی مجموعی صفائی پر توجہ مرکوز کرے تو آدھی بیماریاں خود بخود نیست و نابود ہو جائیں گئی۔

مچھروں کی افزائش کی روک تھام

اپنے گھر اور آس پاس موجود ڈینگو پھیلانے والے مچھروں کا خاتمہ کریں۔ یہ مچھر عام طور پر پانی میں پرورش پاتے ہیں۔ اپنے گھر کے صحن میں موجود کوڑا کرکٹ اور غیر ضروری سامان جس میں بارش کا پانی جمع ہو سکتا ہو وہ ختم کردیں۔ استعمال شدہ بوتلیں، پرانے برتن، ٹین کے ڈبے اور پلاسٹک بیگ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگا دیں تاکہ ان میں بارش کا پانی جمع نہ ہو سکے۔ ایسے پانی میں مچھر پیدا ہوتے ہیں جو ڈینگو پھیلاتے ہیں۔ صاف پانی جمع کرنے والے برتن مثلا گھڑے، ڈرم، بالٹی، ٹب وغیرہ ڈھانپ کر رکھیں۔ چھت پر پانی والی ٹینکی کو مکمل ڈھانپ کر رکھیں اور پانی کے داخل اور خارج ہونے والے مقام پر جالی کا استعمال کریں۔ گملوں اور پودوں کی کیاریوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں۔ گملوں کے نیچے برتنوں کو بھی خشک رکھیں۔ کیونکہ مادہ مچھر وہاں بھی انڈے دے کر اپنی نسل بڑھا سکتی ہیں۔ گھر کے آس پاس پانی جس کی نکاسی ممکن نہ ہو اس میں مٹی کا تیل ڈالیں۔ پانی کے ٹوٹے ہوئے پائپوں کی فورا مرمت کروا لیں تاکہ ان میں سے پانی کا ٹپکنا اور رسنا بند ہو جائے۔ روم ایئر کولر وغیرہ جو استعمال میں نہ ہوں سے پانی خارج کر دیں۔

آخر میں دو باتیں عرض کرنی ہیں

اول:۔ علاج کسی بھی طریقہ علاج جیسا انگریزی ادویات، دیسی ادویات یا ہومیو پیتھک ادویات سے ممکن ہیں، کیونکہ اسلام نے ہمیں بتا دیا ہے کہ کوئی بھی بیماری لا علاج نہیں، لیکن گزارش ہے اپنا علاج خود مت کریں، اگر آپ نے دم تعویز یا روحانی علاج بھی کروانا ہے تو ماہر با عمل عامل کے مشورے سے کریں، اگر انگریزی علاج کروانا ہے تو کسی بھی تجربہ کار ایم بی بی ایس کے مشورے سے کریں، اگر آپ دیسی ادویات یا حکمت سے علاج کروانا چاہتے ہیں تو نیم حکیم کی بجائے کوالیفائڈ حکیم کا چناؤ کریں اور حکیم صاحب کی ہدایت پر عمل کریں، اگر آپ دنیا کا بے ضرر طریقہ ہومیوپیتھی سے علاج کروانے کو ترجیح دیں تو یہ سب سے بہتر ہے۔ یاد رکھیے کوالیفائڈ رجسٹرڈ ہومیوپتھیک ڈاکٹر ز جو تجربہ و مہارت رکھتا ہو۔

تبصرے بند ہیں۔