ہندوستان میں اقامت دین کا روڈ میپ

ساجد عباسی

اقامت دین کا مفہوم:

 اقامتِ دین سے مراد دین اسلام کا قیا م ہے۔ اس کو اقامت صلوٰۃ کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ اقامت ِ صلوٰۃ سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ نماز کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ جس میں مسجد کی تعمیر، موذن، امام اور خطیب کا تقرر ہو اور پانچ وقت دن میں اذان کے ذریعے نماز کے لئے منادی ہو وغیرہ۔ دین ِ اسلام اپنے اندر مکمل نظام ہائے حیات رکھتا ہے اسلئے اقامت ِ دین میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں عملا نافذ ہو۔

سوال یہ ہے کہ کون اس فریضہ کا مکلّف ہے؟اسکو سمجھنے کے لئے پھر وہی اقامتِ صلوٰۃ کی مثال کی طرف ہم لوٹیں گے۔ نماز ہر فرد پر فرض ہےلیکن مسجد کی تعمیر تک نماز پڑھنا ترک نہیں کیا جاسکتا۔ مسجد کی پکی عمارت تعمیر ہونے تک عارضی جگہ پر بھی کچھ لوگ جمع ہوکر باجماعت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہےکہ ہر فرد اقامتِ دین کا مکلّف اس طرح سے ہے کہ سب سے قبل وہ اپنی ذات پر دین کو قائم کرے۔ پھر اپنے خاندان کی سطح پر دین ِاسلام کے احکا م کو نافذکرے۔ اسکے بعد معاشرہ میں اسلامی احکام کو نافذکرنے کی اسکے اندر شدید خواہش ہو۔ اگر وہ ایک مسلمانوں کی اکثریت والے ملک میں رہ رہا ہو تو وہ افہام و تفہیم کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے اپنی کو شش جاری رکھے گا کہ اسلامی نظام اس معاشرہ میں نافذہو۔ مسلمانوں میں کا م کے دو رخ ہیں۔ پہلا رخ یہ ہے کہ : جن افراد کے ایمان میں ضعف ہو ان کے اندر یقین کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کیجائے۔ اور ان کو اخروی فلاح کا طالب بنایا جائے۔ اور ساتھ میں ان کو یہ بھی سمجھا یا جائے کہ اسلام آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا وی امور و مسائل کا بھی بہترین حل پیش کرتا ہے۔ کام کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی حقانیت پر سچے دل سے ایمان لائیں انکو منظم کرکے ایک ایسی اجتماعی طاقت بنا ئی جائے جو پر امن جمہوری طریقوں کو بروئے کا ر لاتے ہوئے صالح انقلاب لانے کی کوشش کرے۔

اور اگر وہ ایسے ملک میں رہ رہا ہو جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں تو وہاں سارا زور اس بات پر صرف ہونا چاہیئے کہ بندگانِ خدا کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی جائے۔ اور اس جذبہ سے دی جائے کہ ان کی آخروی زندگی کامیابی سے ہمکنار ہواور وہ دوزخ کے عذاب سے بچ جائیں۔ یہ انبیاء کا طریقہ رہا ہے کہ ان کی اولین ترجیح یہ تھی کہ اللہ کے بندوں کو آخرت کے عذاب سے خبر دار کیا جائے۔ ضمناََ یہ کا م بھی کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے اصولوں کو واضح کرکے ان کو بتلایا جائے کہ اسلام ان کے دنیاوی مسائل کا بھی حل اپنے اندر رکھتا ہے۔ مگر یہ اندازِ دعوت ثانوی درجے میں ہو۔ اولین درجے میں ہماری دعوت یہ ہو کہ ان کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی جائے اور انکی آخرت برباد ہونے سے قبل انکو پر سوز طریقے سے خبر دار کیا جائے۔ یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے کہ صرف اسلام کے حق میں عقلی دلائل کو جان کر اور اسلام کی برکات کو سن کو لوگ اپنے باطل دین سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ آخرت کا خوف، دوزخ کے عذاب کا ڈر ہی ان کے اندر سنجیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ قرآن کا یہی اسلوب ہے دلوں کو پگھلانے کے ضمن میں۔ اس لئے قرآن کو اور قرآنی دلائل کو دعوت کے لئے استعمال کیا جائے۔ وجاھد ھم بہ جہاد کبیرا۔ ۔ ۔

 ساتھ میں یہ کام بھی کیا جائے کہ جو مسلمان ہیں ان کی بھی اصلاح ہو۔ ان کے عقائد کی اصلاح ہو۔ اور یہاں بھی یہی اصول ملحوظ رکھا جائے کہ اخروی فلاح کو اصلاح کا محرّک بنا یا جائے۔ اور جو لوگ اسلام کو انفرادی زندگی میں اختیار کریں انکے اندر دعوتی شعور بیدار کیا جائے اس مقصد کے ساتھ کہ ایک ایک مسلمان اپنی جگہ پر داعی الی اللہ ہو۔ اس سے معلوم ہو تا ہے اقامت ِ دین مطلقاََ ہم پر فرض نہیں ہے بلکہ اقامت ِ دین کی کوشش فر ض ہے۔ اور اقامت ِ دین کی کوشش کا آغاز دعوت ِ دین یا دعوت ِ الی اللہ سے ہوتی ہے اور یہ دعوت الی اللہ اقامتِ دین کے حتمی طور پر قائم ہو نے تک جاری و ساری رہتا ہے۔

جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور رسل بھی اقامت ِ دین کے مکلّف نہیں تھے بلکہ اقامتِ دین کی سعی کے مکلّف تھے۔ کئی انبیاء دعوتِ دین کے مرحلے سے آگے نہ جاسکے۔ عیسیٰ علیہ السلام تو عین جوانی کی عمر میں ہی یہودیوں کی سازش کا شکار ہوئے اور اللہ کے پاس بلالئے گئے۔ حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیھما السلام دونوں کو قتل کیا گیا۔ موسی علیہ السلام نے شریعت کو نافذکرنے کی انتھک کوشش کی مگر ان کی قوم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ان کو بہت اذیّت پہونچائی۔ سلیمان و داوؤد علیھما السلام نے شریعت کو نافذکیا مگر ان کو فوق الفطری قوتوں سے نوازا گیاتھا۔ جس شان کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ نے انسانی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے شریعت کو نافذکیا یہ واقعہ ساری انبیائی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے جو اسلئے ظہورپذیر ہواکہ اللہ تعالیٰ قیامت تک کے لئے شریعتِ محمدی ؐ کو دین ِ کا مل کے طورپر محفوظ کرنا مقدّر کردیا تھا۔ اور رہتی دنیا تک سارے انسانوں کے لئے اس حقیقت کو ثابت کردیا جائے کہ اسلام تمام وقتوں اور قوموں کے لئے قابل ِ عمل ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ منجملہ تمام انبیاء کے دعوت الی اللہ تو قدرِ مشترک ہے لیکن اقامت ِ دین کے معاملے میں سعی و کوشش بھی قدرِ مشترک ہے لیکن بالفعل اقامت ِ دین کے انبیاء بھی مکلّف نہیں رہے۔ اور دعوتِ الی اللہ ہی وہ راستہ ہے جو اقامت ِ دین کی منزل تک لے جاتا ہے۔ اس لئے دعوت ِ دین دراصل اقامت دین ہی کی کاوش ہے۔ سورہ شوری ٰ کی اٰیت میں ان اقیموالدین۔ ۔ کے حکم سے مراد اقامت ِ دین کی سعی مراد ہے۔ اسلئے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے تو اقامت ِ دین کی منزل تک پہنچ نہ سکے لیکن آخری وقت تک دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ اقامتِ دین کی کوشش ہی دراصل مطلوب ہے اسلئے کہ اس دنیامیں جہاں حق و باطل کی کشمکش مسلسل جاری ہے اور اللہ نے امتحان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے باطل طاقتوں کو بھی فساد برپاکرنے کے یکساں مواقع عطا فرمائے ہیں۔ بسا اوقات امتحان کی مصلحت کی خاطر اللہ کی مشیّت سے باطل طاقتوں کو کا فی ڈھیل دی جاتی ہے۔ اہل باطل اکثر دھوکے اور فریب سے کامیابیا ں حاصل کرتے ہیں اور انکو وقتی کامیابی ملتی ہے۔ اور اہل حق دھوکے اور فریب کے طریقوں کو اختیار نہیں کرتے اس لئے انکو بظاہر دنیاوی اعتبار سے کامیابی نہیں ملتی یا پھر ان کی کامیابی عین وقت پر کسی سازش کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس لئے دعوت الی اللہ کے تو ہم مکلف ہیں اور اقامت ِ دین کی سعی کے بھی مکلف ہیں لیکن حتمی اقامتِ دین کے نہ ہم مکلف ہیں نہ ہی انبیاء کر ام تھے۔

مزید یہ کہ اقامتِ دین کی حتمی شکل کے رونما ہونے میں جب ناکامی کی صورتحال پیش آتی ہے تو تحریکی افراد پر مایوسی کے احساسات پیداہوتے ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ لیکن بسا اوقات یہ مایوسی تحریک کی فعالیت پر بہت منفی اثرات مرتّب کرتی ہے۔ یہ اس وقت شدّت اختیار کرتی ہے جب تحریک میں افراد اس مفروضے کو اختیار کرتے ہیں کہ اقامتِ دین انکی ذمداری ہے۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ اقامت ِ دین کی سعی ان پر فرض ہے نہ کہ اقامتِ دین۔

اقامتِ دین ہندوستان میں :

 اقامت دین کو حکومتِ الہیہ کے قیام کے معنوں میں لیا جائے تو اس کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہوگا جب اس ملک کی اکثریت دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں اسلام کی آغوش میں آجائے جس کا امکا ن بہت ہی کم نظر آتا ہے۔ اس کا اگر کچھ امکان تھا تو اس وقت تھا جب ہندوستان میں مسلم حکومتیں تھیں اور وہ وسیع پیمانے پر دعوتِ دین کے وسائل استعمال کرتے ہوتے۔ اس ملک میں اقامت ِدین کی اصطلاح کو بطور نصعب العین اختیار کرنے پر بھی از سرِ نو بحث کی جاسکتی ہے۔ امت ِ مسلمہ کے مقصدِ وجود کی کئی تعبیریں قرآن میں بیا ن ہوئی ہیں جیسے شہادتِ حق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، دعوت الی اللہ، دعوت الی الخیر اور اقامتِ دین۔ ان تمام میں بہت ہی واضح تعبیر ہے شہادتِ حق کی۔ اور امت مسلمہ کو امت وسط کہ کر اس کا منصب بھی بیا ن کردیا گیا ہے کہ ان کا منصب ہے شہادت ِ حق۔ یعنی انسانوں تک اسلام کا پیغام پہونچانا۔ ہم ان تمام تعبیروں میں وہ تعبیر کیوں نہ اختیار کریں جو ہندوستان کے تناظر میں زیادہ معقول ہو جہاں امت مسلمہ ہندو اکثریت کے سمندر میں اقلیت کے طور پر رہ رہی ہو۔ اور یہ تعبیر ہندوستان کے دستور سے بھی مناسبت رکھتی ہے۔ ایسے حالات میں جب امت مسلمہ کے افراد کو اقامت ِ دین کا مفہوم سمجھانا مشکل ہو وہاں اگر ایک غیر مسلم کے لئے اس نصعب العین کو سمجھانا کتنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اقامتِ دین کا وہ تصوّر جس میں حکومتِ الہیہ کا قیام ہو تو اس تصوّر سے ہی ایک غیر مسلم اس تحریک سے بد ظن ہوجائے گا کہ یہ دستور ہند کے مغائر ہے جو ایک سیکولر تصوّر ِ حکومت پر مبنی ہے۔ اس تحریک کو وہ ہندو فسطائی تنظیم کی صف میں کھڑا کرے گا کہ وہ ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہ مسلم راشٹر۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اقامت ِ دین کے تصوّر کو وہی بہتر سمجھے گا جو اسلام کی برکتوں سے واقف ہو گا۔ میڈیا نے ماحول کو اب اسلام کے لئے اتنا مکدّرکردیا ہے کہ اسلام کو قائم کرنا تو درکنار ایک مسلمان ہونا بھی آجکل قابل مطعون ہو چکا ہے۔ اقامت ِ دین کا نصعب العین ان ممالک کے لئے بہت مناسب ِ حال ہے جہاں مسلم اکثریت میں ہوں۔ وہاں بھی مسلمانوں کو اس تصوّر سے روشناس کرانا بہت بڑا چیلنج ہے۔

دعوت ِ دین کا فریضہ ادا ہونے سے قبل اقامتِ دین کا نعرہ بہت مشکلات کھڑے کرسکتا ہے۔ اکثریت کے اس ہجوم کو اسلام کو سمجھانے سے قبل اسلام کو قائم کرنے کی بات کرنا بہت ہی قبل ازوقت بھی ہے اور غیر منطقی بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندو اکثریت نے ہمارے نصعب العین کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اسلام کو سمجھنے سے قبل اگر وہ ہمارے اس نصعب العین سے واقف ہوں تو وہ خواہ مخواہ کے ایک غیر ضروری عناد میں مبتلا ہوجایئنگے۔ یہ گھوڑے سے آگے گاڑی باندھنے والی بات ہے۔ اگر کو ئی غیر مسلم ہم سے یہ پوچھے کہ آپکی تحریک کا مقصد کیا ہے؟ آپ یہ سوچ میں پڑ جائیں گے کہاں سے بات شروع کی جائے۔ جس مقصد کو ہمارے مسلمان بھائی نہ سمجھتے ہوں یہ کیسے سمجھیں گے۔ آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ جب تک آپ اسلام کو نہیں سمجھیں گے ہمارے مقصد کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے۔ کیوں نہ ہم وہ تعبیر اختیار کریں جو شہادت حق یا دعوت الی اللہ کا سادہ مفہوم رکھتی ہو جو مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے لئے قابلِ فہم بھی اور قابلِ ہضم بھی۔ اور بیک وقت قرآن کے عین مطابق بھی ہو۔ مولانا مودودی رح کے ہندوستان میں دیئے گئے آخری خطبات جو خطبات ِ مدراس سے موسوم ہیں اس میں غیرمسلموں میں دعوت الی اللہ اور انکی زبانوں میں تراجم کو کلیدی نکات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ عقیدت کے جذبے کے تحت جماعت کے کارکنان اور ارکان نے اقامت ِ دین کے نصعب العین کو قبول تو کیا اس لئے کہ یہ قرآن سے ماخوذ ہے مگر اکثر و بیشتر یہ سمجھ نہیں پارہے تھے ایسے ملک میں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے وہاں اقامت ِ دین کیسے ہوسکتا ہے۔

روڈمیپ:

اب سوال یہ ہے کہ کس طرح وسیع پیمانے پر ہندوستان میں پیغمبرانہ مشن کا کا م کیا جائے۔ اس سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کا م انتہائی منظّم طریقے سے ہی ہوسکتا ہے۔ میری ایک ادنیٰ رائے یہ ہے کہ تعلیمی ماہریں اور علماء مل کر ایک دعوہ کورس کی تدوین کریں۔ دو دو یا تیں سالہ کو رس ہو۔ اس کو گرائجویشن اور پوسٹ گرائجویشن کی سطح پر ڈیزائن کیا جائے۔ اس کورس کے اجزائے ترکیبی یہ ہوسکتے ہیں :

1۔ مقامی زبان میں مہارت 2۔ انگریزی زبان میں مہارت 3۔ انسانی نفسیات کا علم 4۔ ہندو مذہب کی کتابوں میں توحید، رسالت اور آخرت کے حوالے جات پر عبور 5۔ عیسا ئیت کی کتاب بائیبل میں توحید، رسالت اور آخرت کے حوالے جات پر عبور6۔ تقریری صلاحیت پیدا کرنے کے عوامل 7۔ قرآن کا مطالعہ دعوتی نقطہ نظر سے۔ 8 حدیث کا مطالعہ دعوتی نقطہ نظر سے 9۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ دعوتی نقطہ نظر سے 10۔ ہندوستان کی قدیم و جدید تاریخ پر گہری نظر۔ 11۔ دعوتی ورکشاپش وغیرہ وغیرہ

اس کورس کو معیاری بناکر کثیر تعداد میں دعاۃ تیا کئے جائیں اور انکو فل ٹائیم یا پارٹ ٹائیم کی حیثیت سے وسیع پیمانے پر۔ جامعہ دارالہدی میں ایسا پروجکٹ شروع کیا جاسکتا ہے۔

اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ دعوت الی اللہ کی جان توڑ کو شش کے نتیجے میں یہاں کی اکثریت مسلمان ہوجائے گی۔ سوال یہ ہےکہ اس وقت وہ کیا روڈ میپ ہوگا جو اسلامی ریاست کے خواب کو پورا کرنے والا ہو۔

اسلامی انقلاب کے سلسلے میں دو طریقوں اور راستوں کی بات ہوسکتی ہے۔ ایک ہے خونی انقلاب اور دوسرا ہے پرامن جمہوری انقلاب۔ جہاں تک پہلے طرز انقلاب کا معاملہ ہے اسلام دشمنوں نے اس طریقے کو مہمیز دی ہے تاکہ مسلمانوں کے اندر خانہ جنگی ہو، اسلام کو بدنام کرنے کا موقعہ مل جائے اوردشمنانِ اسلام کو اس گروہ کی سر کوبی کرنے کے بہانے مسلم ممالک کو فوجی مداخلت کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کا ذریّن موقع فراہم ہوگیا۔ اس گروہ نے اسلامی تاریخ میں اسلام کو جتنا نقصان پہونچایا کسی اور گروہ نے نہیں پہونچایا۔ اس گروہ نے اسلام کو ساری دنیا کے سامنے ایک مذاق اور قابل ِ مطعون شئے بنادیا۔

دوسر ا راستہ ہے عوام کے اندررہ کر ان کی فہمائش کرکے، رائے عامہ کو ہموار کرکے اور ان کی خدمت کرکے پر امن طریقے سے انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس راستے کے خدوخال مولانا سید ابوالاعلی مودددی رح نے پچھلی صدی میں مدلل طریقے سے پیش کیا اور ایک تجربہ بھی کیا کہ اس دور میں جہاں سیاست سب سے زیادہ فساد کا شکار ہے وہاں اصلاح ممکن ہے۔ چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگ جائے یہی ایک پر امن طریقہ ہے انتقال ِ حکومت کا بھی اور اسلامی انقلاب کا بھی۔

سوال یہ ہے کہ وہ کیا تدابیر ہیں جو اس جمہوری طرزِ انقلاب کو تیزی کے ساتھ منزل تک لیجا سکتی ہیں۔

تدابیر کے سلسلے میں ہمارے سامنے ترکی کی مثال ہے جس میں اسلام پسندوں کے لئے کئی اسباق ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ انتہائی نا موافق حالات میں بھی انقلاب اور تبدیلی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ اسکے لئے بیدار مغز قیادت درکار ہے۔ حکمت و فراست سے اس طویل راستے کو مختصر کیا جاسکتا ہے۔ جو کا م جسم کے بس کا نہیں وہ عقل سے انجا م دیا جاسکتاہے۔ اس کے لئے عوام کی نفسیات کو جاننا بہت ضروری ہے۔ مارکیٹنگ ریسرچ میں بھی کنزومرس کی نفسیات کو جان کر اس کے مطابق حکمتِ عملی تیار کی جاتی ہے۔ ترکی کے اسلامی جمہوری سفر کے دو ادوار ہیں۔ ایک دور اربکان سے شروع ہوتا ہے۔ اور دوسرا دور اردگان سے شروع ہوتا ہے۔

پہلا دور وہ ہے جب اربکان صاحب جرمنی سے پر تعیش زندگی کو چھوڑکر ایک ایسے عزم کے ساتھ لوٹے کہ ترکی کو الحاد کے دلدل سے کیسے نکالا جائے۔

جب وہ ترکی میں اپنے کا م کا آغاز کرتے ہیں تو اس وقت ترکی سیکولر نہیں بلکہ الٹرا سیکولر ملک تھا۔ بلکہ وہ صحیح معنوں میں مخالف اسلام ملک تھا۔ کمال اتاترک نے چن چن کر اسلامی شعار کی ترکی کی معاشرت سے بیخ کنی کردی تھی۔ ایسے ماحول میں عوام کی خدمت کرکے انہوں سے سب سے قبل بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد حکومت کے فنڈز کو ایمانداری سے استعمال کرکے رفاہ عامہ کے کاموں کو اس طریقے سے انجام دیا جسکی ترکی میں ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ اس کے بعد پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے لئے راہیں ہموار ہوجاتی ہیں۔ مگر حکو مت کے اعلی عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ترکی کی فوج کو یہ ہرگز گوارا نہیں تھا کہ ایک اسلام پسند حکمرانی کے منصب پر براجمان ہو۔ فوجی کا روائی کے نتیجہ میں ان کو وزیر اعظم کے عہدہ سے سبکدوش ہونا پڑا۔

اس کے بعد 2002 میں اردگان کا دور شروع ہوتا ہے جب کہ اردگان نے مذہبی پہجان کو ابھارے بغیر عوام سے اس وعدہ پر کہ وہ ملک کو ترقی سے ہمکنار کریں گے۔ رشوت کا خاتمہ کریں گے۔ اور یورپی یونین میں ترکی کو شامل کروائینگے۔ اس بات پر عوام نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی پارٹی کو کامیاب کیا اور مسلسل کا میابی کا سفر جاری ہے جبکہ سازشوں کے ذریعے انکی حکومت کو ختم کرنے کی جو حالیہ کو شش تھی اس میں بھی دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ بندۂ مومن کو اللہ اسلام کی عزّت کا نشان بنائے۔ کا میابی کے اس سفر میں پر امن انقلاب لانے والوں کے لئے کئی اسباق ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں یہ نہیں چاہتے کہ اسلام کا جمہوری ماڈل کامیابی کے ساتھ دنیا کے مسلمانوں کے لئے مثال نہ رہنے پائے۔ راقم الحروف کو دو مرتبہ ترکی جانے کا اور وہا ں کچھ دن رہنے کا موقعہ ملا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ اردگان سے صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیکولر افراد اردگان سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اردگان کا طریق ِ کار یہ ہے کہ اوپر سے نہیں بلکہ اندر سے لوگوں کے افکار اور سوچ کو بدلنے کی کو شش کی جارہی ہے اس سلسلے میں جمعہ کے خطبوں کو انتہائی موثّر بنا دیا گیا ہے۔ روزبروز مسجدوں میں مصلّیوں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اور اسکارف پہننے والی خواتین کا بھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ تمام مسلم اکثریت والے ممالک کے لئے ترکی اس دور میں ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔