کاروان اردو  قطرکی جانب سے پروفیسر شہپر رسول کو حاصل حیات ایوارڈ

  5/اپریل 2019 کی شب  قطر کے شائقین اردو کے لیے ایک تاریخی اور یادگار شب تھی، "ہندوقطر جشن ثقافت 2019”  کے پر مسرت موقعے پر کاروان اردو قطر  کے زیر اہتمام "جشن شہپر رسول  وعالمی مشاعرہ 2019″منعقد ہوا۔ پروفیسر شہپر رسول معاصراردو ادب کے منظرنامے پر ایک معتبر نام ہے۔ اردو زبان و ادب کی خدمت میں پانچ دہائیوں سے مصروف یہ شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے،  آپ  تدریس کے موقر شعبے سے وابستہ ہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہء اردو میں پروفیسر ہیں اور حال ہی میں صدر شعبہ کی میعاد پوری کی ہے، دہلی اردو اکادمی کے وائس چیرمین  ہیں، اردو شاعری اور تنقیدنگاری کے میدان  میں اپنی خدمات کے لیے متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز وصول کر چکے ہیں، نصف درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں شعری مجموعوں کے علاوہ  اردو تنقید و تاریخ کے موضوعات پر کئی وقیع تصنیفات شامل ہیں۔ شعری پیش کش اور مشاعروں میں شرکت کے حوالے سے آپ کی ایک خاص پہچان ہے، نرم اور دھیمے لہجے کی شاعری کرتے ہیں، استعارات اور کنایوں میں زندگی اورسماج  کی بڑی سے بڑی حقیقتوں کو آشکار کرنا آپ کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔ معاصر  اردو دنیا میں آپ  کا نام بے حد احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے، آپ شہرت اور نام و نمود کے تعاقب میں نہیں رہتے ، لیکن”جادو  وہ جو سر چڑھ کر بولے ”  کے مصداق، اپنی معیاری شاعری اور قابل قدر تحریروں کی بدولت  آپ نے اردو ادب کی تاریخ میں بھی اپنا مقام  محفوظ کر لیا ہے۔

صاحب جشن  پروفیسر شہپر رسول کے علاوہ جن دوسرے  شعرا  اور شاعرات نے اس مشاعرے کی رونق میں اضافہ کیا ان کے ناموں پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس انتخاب کے پس پردہ کسی قابل جوہری کا فن جھانک رہا ہے۔ یہ  جوہری کوئی اور نہیں، کاروان اردو قطر کے بانی صدر اور ہمارے قافلہ سالار جناب عتیق انظر ہیں۔ ڈاکٹر نواز دیوبندی، ڈاکٹر نزہت انجم، جناب ابرار کاشف، جناب  عزم شاکری، جناب احمد علوی، جناب محمد علی ساحل، جناب  سہیل عثمانی  کی شرکت نے واقعی اس تقریب کو چار چاند لگائے۔ مذکورہ مہمان شعرا کے علاوہ دوحہ کےمقامی شعراء میں کاروان اردو قطر  کے بانی صدر جناب عتیق انظر، جناب احمد اشفاق، جناب شکیل احمد، جناب راشد عالم راشد اور ڈاکٹر وصی  بستوی نے بھی  اپنی بھرپور شرکت سے  مشاعرے کے وقار میں اضافہ کیا۔

’ ڈی پی ایس ماڈرن  انڈین اسکول ‘ کے پرشکوہ اور وسیع آڈیٹوریم میں شام ساڑھے آٹھ بجے  سے شروع ہو کر رات ڈیڑھ بجے تک جاری رہنے والی اس پروقار ادبی تقریب کی صدارت پروفیسرشہپررسول نے فرمائی، مشاعرےکی نظامت  معروف شاعر اور کامیاب ناظم مشاعرہ جناب  ابرار کاشف نے اور تقریب کے نثری حصےکی نظامت کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری  جناب محمد شاہد خان نے  کی۔ عزیز القدر عبدالرحمن سلمہ نے سورہ قلم کی تلاوت کرکے پروگر ام کا  مبارک آغاز کیا، جس کے بعد کاروان اردو قطر کے چیرمین جناب عظیم عباس نے خطبہ استقبالیہ پیش فرمایا۔ اس کے بعد شعرائے کرام اور معزز مہمانوں کی خدمت میں گلدستے پیش کرکے ان کا روایتی استقبال کیا گیا۔

 اس تقریب میں انڈین ایمبیسی دوحہ کے فرسٹ سکریٹری جناب ایس آر ایچ فہمی اور وزارت داخلہ قطر کے کمیونٹی پولیسنگ ڈیپارٹمنٹ سے کرنل غانم سعد الخیارین  مہمانان اعزازی کی حیثیت سے شریک ہوے، ان کی خدمت میں کاروان اردو قطر نے میمنٹو پیش کیے، لکھنؤ سے اس تقریب  کی شان اور شوبھا بڑھانے کے لیے حکومت اترپردیش کے سابق ڈی جی پی جناب رضوان  احمد  اور خدمت فاؤنڈیشن کے چیرمین جناب نسیم اختر صاحبان تشریف لائے تھے، کاروان اردو قطر نے ان کی خدمت میں بھی  میمنٹو پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔  اس کے علاوہ پروگرام کے کلیدی اسپانسرز     کامرشیل بینک اور  ایس ٹی ایس گروپ کی خدمت میں بھی      میمنٹو پیش  کئے گئے۔ صاحب جشن کی خدمت میں،حاصل حیات ایوارڈ،اور ایک لاکھ روپے کاچیک  پیش کیا گیا۔ اردو کے فروغ کے لیے انجمن محبان اردو ہند قطر کے چیئرمین دوحہ کے مشہور و معروف ادب دوست اور بے لوث سماجی خدمت گزار جناب حسن چوگلے کی خدمت میں بھی  حاصل حیات ایوارڈ پیش کیا گیا۔

اس کے بعد  کاروان اردو قطر کی سالانہ میگزین   کی رسم رونمائی ہوئی اور کاروان کے بانی صدر جناب عتیق انظر کے نئے مجموعہ کلام    ’دوسرا جسم‘  کی رسم اجرا عمل میں آئی۔

کاروان اردو قطر کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر محمد اسلم خاں نے مہمان اعزازی جناب حسن عبد الکریم چوگلے کی شخصیت اور خدمات   پر ایک تعارفی خاکہ پیش کیا، اور کاروان اردو قطر کے میڈیا سکریٹری ڈاکٹرنشاط احمد صدیقی  نے صاحب جشن  پروفیسر شہپر رسول کی  شخصیت اور شاعری پر ایک مختصر مضمون پیش کیا۔

مہمان اعزازی  کرنل غانم سعد الخیارین نے اپنی گفتگو میں کاروان اردو قطر  کا شکریہ ادا کرتے ہوے اس طرح کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت قطر کی پالیسی پر روشنی ڈالی، انھوں نے فرمایا کہ ہم اس طرح کی سرگرمیوں کی بڑی قدر کرتے ہیں اور ان  میں برابر شریک ہوتے ہیں، قطر میں ہندوستانی کمیونٹی کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کنٹری بیوشن کو ہمیشہ سراہا جاتا ہے۔  دوحہ کی معروف ادبی اور سماجی شخصیت جناب عبید طاہر نے  مہمان اعزازی  کرنل غانم سعد الخیارین  کی عربی تقریر کا فی البدیہ اردو زبان میں ترجمہ کیا اور سامعین کو ان کے خیالات سے واقف کرایا۔

مہمان خصوصی جناب رضوان  احمد  اور مہمان اعزازی جناب حسن عبد الکریم چوگلے صاحبان  نے اپنے قیمتی تاثرات اور دلچسپ انداز بیان سے سامعین کو محظوظ فرمایا، اور صاحب جشن و صدر مشاعرہ نے اپنی صدارتی  تقریر میں کاروان اردو قطر اور  دوحہ کے باذوق سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوےمشاعرے کی اہمیت اور اردو زبان و تہذیب کے فروغ میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی۔

جناب ابرار کاشف کی بیدار مغز نظامت میں یہ مشاعرہ بتدریج خوب سے خوب تر کا سفر طے کرتا رہا، پروگرام کے کسی بھی حصے میں یہ محسوس نہیں ہوا کہ اسٹیج اور سامعین کے درمیان کوئی خلا پیدا ہو رہا ہے، پروگرام کی اس  کامیابی کا سہرا ناظم مشاعرہ، شعرا  اور سامعین کے تکون کے سر بندھتا ہے جنھوں نے اپنے اپنے حصے  کی ذمہ داری بہ حسن و خوبی انجام دی۔

 اس  روداد کا اہم ترین حصہ  وہ غزلیں اور  نظمیں ہیں   جنھوں نے  اس تقریب  کو بام عروج تک پہونچانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ ’ مشتے از نمونہ خروارے ‘ کے مصداق مشاعرے میں پسند کیا گیا  منتخب کلام قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

ڈاکٹر وصی  بستوی:

سفر میں دشت بھی آئیں گے اور دریا بھی

جو با شعور ہیں جائیں گے کاروان کے ساتھ

ہمیں بھی شوق تھا طوفان سے الجھنے کا

سو چھوڑ آئے ہیں کشتی بھی بادبان کے ساتھ

راشد عالم راشد:

یہ فیصلہ ہے تو یہ بھی نظر میں رکھا جائے

مری خطا کو حدودِ بشر میں رکھا جائے

یہ بات اہل سیاست ہی خوب جانتے ہیں 

کسی خبر کو بھی کیسے خبر میں رکھا جائے

سیدشکیل احمد:

کسی سفر میں نہ اندیشۂ سفر میں ہیں

ابھی تو چاک پہ ہیں دست کوزہ گر میں ہیں

فقیر ایسے کہ دنیا سے کج کلاہی رہی

اسیر ایسے کہ اپنے ہی بال و پر میں ہیں

بڑا کرم ہے کہ رکھا ہے تونے دل میں ہمیں

نوازشیں ہیں کہ اب تک تری نظر میں ہیں

سہیل عثمانی:

تو اپنی آن کھو ئے گا تو اپنی شان  کھو ئے گا 

کبھی تو مسکرائے گا کبھی جی بھر کے روئے گا 

محبّت اور سیاست کا یہی تو کھیل ہے پیارے 

جو تیرے ساتھ رہتا ہے وہی تجھ کو  ڈبوئے گا 

احمد اشفاق:

لذت ہجر مکمل نہیں ہونے دیتا

اپنی آنکھوں سے وہ اوجھل نہیں ہونے دیتا

سانپ کی طرح لپٹ جاؤں نہ اس سے اک روز

جسم کو اپنے وہ صندل نہیں ہونے دیتا

محمد علی  ساحل:

حسن تپتی ریت کی مانند تھا  جلتا رہا

عشق پاگل تھا وہ ننگے پاؤں ہی چلتا رہا

رفتہ رفتہ خواہشوں کے قد بڑے ہوتے رہے

رفتہ رفتہ آفتاب زندگی ڈھلتا رہا

میں ہوں ساحل مجھ میں ہر اک موج پاتی ہے پناہ

میرا ہونا اس لیے طوفان کو کھلتا رہا

احمد علوی:

بدن پہ سوٹ اردو کا گلے میں ٹائی اردو کی

انھیں معلوم ہے گہرائی اور گیرائی اردو کی

بجاتے ہیں ہر اک محفل میں یہ شہنائی اردو کی

کہ ساری عمر کھائی ہے فقط بالائی اردو کی

پروفیسر یہ اردو کے جو اردو سے  کماتے ہیں

اسی پیسے سے بچوں کو یہ انگریزی پڑھاتے ہیں

اتنا  عاجز آ چکے ہیں بے سری آواز سے

عید جیسا جشن ہو گا تیرے مر جانے کے بعد

صرف دو ہی وقت سوتے ہیں پڑوسی چین سے

اک ترے گانے سے پہلے اک ترے گانے کے بعد

عتیق انظر:

نظم بہ عنوان   "ڈھونڈھ رہا ہوں میں انسان”

دھرتی کس کی کھوج میں پھرتی رہتی ہے

سورج کس کی یاد میں جلتا رہتا ہے

امبر کی گہری نیلی چادر پر

چاند ستارے

کس سے ملنے کی خواہش میں

اونگھتے رہتے ہیں

ذرہ ذرہ دنیا کا

ہے کس کے واسطے  گردش میں

مجھ کو کیا معلوم

کہ میں  تو خود ہی کتنی صدیوں سے

دھرتی، سورج، چاند، ستاروں کے مانند

پریشاں ہوں

اپنی کھوج میں رقصاں ہوں

اس دھرتی پر صرف فرشتے ملتے ہیں

یا پھر شیطان

ڈھونڈھ رہا ہوں میں انسان

ڈھونڈھ رہا ہوں میں انسان

عزم شاکری:

لہو آنکھوں میں آکر جم گیا ہے

یہ دریا بہتے بہتے تھم گیا ہے

یہ آنکھیں پھر برسنا چاہتی ہیں

ابھی برسات کا موسم گیا ہے

—-  

جب ہم اپنے گھر آئے

آنکھ میں آنسو بھر آئے

چڑیا  رو کر کہتی ہے

کیوں بچوں کے پر آئے

اندر دم گھٹ جائے گا

اس سے کہو باہر آئے

ابرار کاشف:

 اب کے ہم ترک رسومات کرکے دیکھتے ہیں

بیچ والوں کے بنا  بات کر کے دیکھتے ہیں

اس سے پہلے کہ کوئی فیصلہ تلوار کرے

آخری بار ملاقات کر کے دیکھتے ہیں

—-

طریقے اور بھی ہیں اس طرح پرکھا نہیں جاتا

چراغوں کو ہوا کے سامنے رکھا نہیں جاتا

محبت فیصلہ کرتی ہے پہلے چند لمحوں میں

جہاں پر عشق ہوتا ہے وہاں سوچا نہیں جاتا

ڈاکٹر نزہت انجم:

میں حادثات کو اکثر جھنجھوڑ دیتی ہوں

ہوا کے رخ کو تری سمت موڑ دیتی ہوں

تری کریمی پہ نازاں ہوں میں ہمیشہ سے

میں خود کو تیرے بھروسے پہ چھوڑ دیتی ہوں

—-

زخموں کو میرے ہنسنے کی عادت نہیں رہی

اب زندگی سے کوئی شکایت نہیں رہی

اتنے فریب کھائے محبت کی راہ میں

اب مجھ کو ہم سفر کی ضرورت نہیں رہی

ڈاکٹر نواز دیوبندی:

پانی بانٹا لہریں بانٹیں سارے دھارے بانٹ دیے

ہم بھی ایسے دریا دل  تھے دونوں کنارے بانٹ دیے

اس کو زعم امیری پر تھا،  ہم  کو ناز فقیری پر

اس نے شہر میں پیسے بانٹے، ہم نے تارے بانٹ دیے

تمھاری آنکھوں کی خوش بیانی کو کون سمجھے

خموش لفظوں کی ترجمانی کو کون سمجھے

یہ لوگ دریا کواور سمندر کو جانتےہیں

ہماری پلکوں پہ ٹھہرے  پانی کو کون سمجھے

نمک چھڑک  کر یہ دوستوں نے ہرے رکھے ہیں

ہمارے زخموں کی باغبانی کو کون سمجھے

جن پر لٹا چکا تھا میں دنیا کی دولتیں

ان وارثوں نے مجھ کو کفن ناپ کر دیا

پروفیسر شہپر رسول:

بستیاں بستی گئیں  جنگل فنا ہوتے گئے

لوگ پاس آتے گئے لیکن جدا ہوتے گئے

لوگ جب سحر  ریا میں مبتلا ہوتے گئے

جن کو بندہ بھی نہ ہونا تھا خدا ہوتے گئے

—-

خوش یقینی میں یوں خلل آیا

کچھ نکلنا تھا کچھ نکل آیا

میں نے بھی دیکھنے کی حد کر دی

وہ بھی تصویر سے نکل آیا

—-

میری نظر کا مدعا اس کے سوا کچھ بھی نہیں

اس نے کہا کیا بات ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں

جس سے نہ کہنا تھا کبھی جس سے چھپانا تھا سبھی

سب کچھ اسی سے کہہ دیا مجھ سے کہا کچھ بھی نہیں

اب کے بھی اک آندھی چلی اب کے بھی سب کچھ اڑ گیا

اب کے بھی سب باتیں ہوئیں لیکن ہوا کچھ بھی نہیں

ہر ایک شخص ہی جب سے عظیم ہو گیا ہے

 عظیم لفظ تو جیسے یتیم ہو گیا ہے

یہ سچ کی دائمی بے قامتی کا وقت ہے کیا

ہر ایک جھوٹ لحیم و شحیم ہو گیا ہے

مجھے ہمیشہ مجھ ہی سے لڑاتا رہتا ہے

نہ جانے کون یہ مجھ میں مقیم ہو گیا ہے

تبصرے بند ہیں۔