کاروان اردو قطر کے زیر اہتمام الوکرہ میں تاریخ ساز ادبی تقریب

ڈاکٹر نشاط احمد صدیقی

(میڈیا سکریٹری۔ کاروان اردو قطر۔ دوحہ)

۱۲جنوری ۲۰۱۸کی شب دوحہ کے شائقین ادب کے لیے ایک یادگار شب ثابت ہوئی، اس رات اردو شعروادب کے مہ و انجم دوحہ کے شبنمی افق پر اس تابانی کے ساتھ جلوہ افروز ہوے کہ ہم لوگوں نے یہاں ایک ادبی کہکشاں کو چلتے پھرتے محسوس کیا۔ سال گذشتہ کی روایت کوآگے بڑھاتے ہوے کاروان اردو قطر نے اس برس اپنادوسرا عالمی مشاعرہ  ’’جشن ڈاکٹر راحت اندوری‘‘  کے عنوان سے  منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ڈاکٹر راحت اندوری اس وقت اردو شاعری کا ایک بڑا نام ہے اور یہ نام انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے بنایا ہے۔ تقریبا  نصف صدی پر محیط ان کے ادبی سفر کی داستان بڑی دلچسپ اور چشم کشا ہے اوربجا طور پر انھیں احتجاجی لہجے کا شاعر کہا جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مشاعرے راحت اندوری کی پہلی شناخت بنے، لیکن انھوں نے اپنے شعری مواد، اپنی طرز پیش کش اور اپنے اچھوتے مضامین اور افکار و خیالات کے ذریعے مشاعروں کی تہذیب اور روایت میں جو تیکھا اضافہ کیا ہے وہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔

 اس بزم کی رونق میں جن دیگر شعراء  اور شاعرات نے اضافہ کیا ان کے ناموں پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس انتخاب کی اوٹ سے کسی قابل جوہری کا فن جھانک رہا ہے۔ لاریب یہ جوہری کاروان اردو قطر کے بانی صدر اور ہمارے قافلہ سالار عتیق انظر صاحب ہیں ۔ اقبال اشہر، معین شاداب، عنبرین حسیب عنبر، لیاقت جعفری، ابرار کاشف، شرف نانپاروی، دنیش باورا اور ستلج راحت نے اس تقریب کو چار چاند لگائے، دوحہ کے مقامی شعراء میں کاروان کے بانی صدر عتیق انظر، ندیم ماہر، قیصر مسعود، وصی بستوی اور راشد عالم راشد نے اپنی بھرپور شرکت سے سامعین کا دل جیتا۔ اس خوبصورت، تاریخی اور یادگا تقریب کی ایک مختصر روداد مندرجہ ذیل سطور میں قلمبند کی گئی ہے تاکہ اس مسرت میں زیادہ سے زیادہ اردو عاشقوں اورادب  دوستوں کو شریک کیا جائے۔

تقریب کا آغاز کرتے ہوے کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں نے تمام حاضرین کا پر جوش استقبال کیا، کاروان کے چیرمین عظیم عباس، بانی صدر عتیق انظر، تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد علیم تھرڈ سکریٹری سفارت خانہ ہند، مہمان اعزازی جناب محمد عتیق چیرمین سرپرست کمیٹی مجلس فروغ اردو دوحہ قطر کو اسٹیج پر مدعو کیا اور مقامی و مہمان شعرا سے اسٹیج کو سجانے کے بعد تلاوت کلام اللہ کے لیے کاروان کے ممبر جناب محمد فاروق آسامی کو  دعوت دی۔

  تلاوت کلام اللہ کے بعد دوحہ کی معروف سماجی شخصیت، مختلف ثقافتی وادبی تنظیموں کے سرپرست اور کاروان کے چیئرمین جناب عظیم عباس نے خطبہء استقبالیہ پیش کیا اور مشاعرے کے معاونین کا شکریہ ادا کیا، اس کے بعدمقامی اور مہمان شعرا کو میمنٹو پیش کیے گئے، تمام مقامی شعرا نے صاحب جشن ڈاکٹر راحت اندوری کے مبارک ہاتھوں سے میمنٹو وصول کیے جبکہ مہمان شعرا کی خدمت میں دوحہ، قطر کی مختلف ادبی اور سماجی شخصیات نے میمنٹو پیش کیے۔

  اپنی اس یادگار اور تاریخی تقریب سے کاروان اردو قطر نے ایک اور نئی روایت کی بنا ڈالی، یعنی آف اسکرین کام کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجلس فروغ اردو کے سرپرست جناب محمد عتیق کی خدمت میں حاصل حیات ایوارڈبرائے فروغ اردو  پیش کیا، دوحہ میں اپنی طویل اور مسلسل اردو نوازی کے پیش نظر  یقینا وہ اس ایوارڈ  کے مستحق ہیں ، انھوں نے صاحب جشن ڈاکٹر راحت اندوری کے مبارک ہاتھوں سے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اپنی تاثراتی تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ مجلس فروغ اردو اپنے مشہور عالمی سالانہ مشاعرے  کے علاوہ مسلسل بائیس برسوں سے نثری ادب تخلیق کرنے والوں کی خدمت میں سالانہ ایوارڈ پیش کرتی آرہی ہے، ہر سال دو نثرنگاروں کی خدمت میں یہ ایوارڈ پیش کیا جاتا ہے جن میں سے ایک کا تعلق ہندوستان سے ہوتا ہے اور دوسرے کا پاکستان سے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ مجھے جب جب کوئی اعزاز یا ایوارڈ دینے کی کوشش کی گئی تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اچھا ادب تخلیق کرنے والوں کو ہم ایوارڈ دیتے تو ہیں لیکن ایوارڈ لیتے نہیں ، البتہ کاروان اردو قطر کا یہ ایوارڈ میں اس لیے قبول کر رہا ہوں کہ اپنی مختصر مدت عمل میں ان حضرات نے اردو کے بڑے شائستہ اور سنجیدہ پروگرام منعقد کیے ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ بہت دنوں تک چلے گا لہذا جب محترم عظیم عباس نے مجھے کاروان کے اس فیصلے سے آگاہ کیا تو میں انکار نہ کر سکا۔

 اس تقریب کی ایک خصوصیت  یہ بھی رہی کہ اس میں کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری محمد شاہد خان ندوی کی ترتیب کردہ کتاب ’ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ۔ یادوں کے جھروکے سے‘ کی رسم اجرا عمل میں آئی۔ تقریب کے ناظم اور جدید لب ولہجے کی معروف آواز جناب عتیق انظر نے فرمایا: کہ اس کتاب کے مصنف ہمارے عزیز دوست اور کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں ندوی صاحب ایک علم دوست اور لکھنے پڑھنے سے گہرا تعلق رکھنے والے شخص ہیں ، وہ مترجم بھی ہیں اور اس سے پہلے کئی کتابوں کا ترجمہ کر چکے ہیں ، ان کی یہ نئی کاوش برصغیر کے مشہور عالم دین مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے بار ے میں ہے، اس موضوع پر مزید اظہار خیال کے لیے میں کاروان اردو قطر کے نائب صدر جناب حسیب الرحمن کو زحمت دوں گا۔

حسیب الرحمن صاحب نے کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف کراتے ہوے فرمایا کہ جناب محمد شاہد خاں کی یہ تازہ ترین کاوش حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ سے متعلق ہے، حضرت مولانا کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے، ان کی شخصیت گذشتہ صدی میں اپنی نظیر نہیں رکھتی، شاہد صاحب نے اس عظیم شخصیت سے جڑی اپنی یادوں کو اس کتابچے میں قلمبند کیا ہے اور بجا طور پر دریا کو کوز ے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے حضرت مولانا کے تربیتی اسالیب کو خاص طور سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، حضرت مولانا ایک بات اکثر فرمایا کرتے تھے اور جس کا تذکرہ اس کتاب میں بھی ہے کہ دنیا میں دو چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، ایک اخلاص اور دوسرے اختصاص، اگر کوئی انسان اپنے اندر یہ دو خوبیاں پیدا کرلے، یعنی کسی فن میں اسپیشلائزیشن حاصل کر لے اور اپنے اس فن سے وہ ڈیڈیکیشن کی حد تک مخلص بھی ہو تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ وہ کبھی ناکام نہیں رہے، اگر وہ سات پردوں کے پیچھے بھی جا کر کہیں چھپے گا تو یہ دنیا اسے ڈھونڈ  نکالے گی، کیونکہ وہ اس دنیا کی ضرورت بن چکا ہوگا۔

 حسیب الرحمن صاحب نے مزید فرمایا کہ: جن لوگوں کے پاس ضخیم کتابیں پڑھنے کی فرصت نہ ہو وہ جناب محمد شاہد کی اس کتاب سے بھی حضرت مولانا علی میاں کی شخصیت کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔ میں اس آڈیٹوریم میں موجود تمام خواتین و حضرات سے گزارش کروں گا کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں ۔ جناب حسیب الرحمن صاحب کی اس گفتگو کے بعد ممتاز شاعر اور ادیب ڈاکٹر راحت اندوری کے ہاتھوں اس کتاب کی رسم اجراء عمل میں آئی۔

  مذکورہ بالا کارروائیوں کے بعد کاروان اردو قطر کے نائب صدر ڈاکٹر ابو سعد نے صاحب جشن کی شخصیت پر ایک پر مغز مقالہ پیش کیا اور مشہور شاعر ابرار کاشف نے ان کی شاعری کے مابہ الامتیاز پہلوؤں کو سامعین کے سامنے اجاگر کیا، اس کے بعد مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد علیم تھرڈ سکریٹری سفارت خانہ ہند، کے ہاتھوں ، کاروان اردو قطر کے چیرمین عظیم عباس، بانی صدر عتیق انظر،  جنرل سکریٹری  محمد شاہد خاں اور کاروان کی منتظمہ کمیٹی کے تمام ارکان کی شرکت سے  صاحب جشن اور صدر مشاعرہ ڈاکٹر راحت اندوری کی خدمت میں حاصل حیات ایوارڈ  اور مبلغ ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا گیااور ایک ہزار سے زیادہ لوگوں نے کھڑے ہوکر تالیوں کی گونج میں صاحب جشن کا استقبال کیا اور ایوارڈ کی تائید وتصدیق کی۔

اس کے بعد مشہور ناظم مشاعرہ  اور شاعر ڈاکٹر معین شاداب نے نظامت کی مسند سنبھالی اور دوحہ کے معروف وہردلعزیز شاعر ڈاکٹر وصی بستوی نے اپنی منفرد شاعری اور خوبصورت ترنم سے شائقین کے کانوں میں رس گھولنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر وصی کے بعد مقامی شعرا میں ڈاکٹر راشد عالم راشد، قیصر مسعود، ندیم ماہر اور عتیق انظر نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا، جبکہ مہمان شعرا  کی فہرست کچھ یوں رہی: ستلج راحت، دنیش باورا، شرف نانپاروی، ابرار کاشف، ڈاکٹر لیاقت جعفری، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر، ڈاکٹر معین شاداب، اقبال اشہر اور صاحب جشن ڈاکٹر راحت اندوری۔ ان تمام شعرا نے مل کر شائقین دوحہ کی خدمت میں ایک خوبصورت اور یادگار مشاعرے کی سوغات پیش کی، مشاعرے کی کامیابی اور ناکامی دونوں میں ناظم مشاعرہ کا ایک اہم رول ہوتا ہے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس مشاعرے کی بے مثال کامیابی کا ایک راز معین شاداب کی بیدار نظامت میں بھی مضمر رہا۔ ہماری کوشش ہوگی کہ آئندہ سال بھی ہم لوگ دوحہ کے شائقین ادب کی خدمت میں ایک اور یادگار مشاعرہ لے کر حاضر ہوں ، تب تک کے لیے اجازت، یار زندہ صحبت باقی۔

  البتہ روداد کا اہم ترین حصہ ابھی باقی ہے، یعنی وہ غزلیں اور نظمیں جنھوں نے  اس تقریب کی کامیابی میں  سب سے اہم کردار ادا کیا، مشاعرہ میں پیش کیا گیاپورا شعری مواد تو یہاں نقل کرنا ممکن نہیں ہے، ـپھر بھی  ــمشتے نمونہ از خروارے ‘ کے مصداق منتخب کلام سے قارئین کو محروم رکھنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ملاحظہ ہوں مشاعرہ کی ترتیب سے تمام شعرا کے چیدہ چیدہ اشعار :

ڈاکٹر  وصی بستوی

لب پہ تھا نام ایک کافر کا

روح بھی کیسے اے خدا نکلی

ایک کردار کیا وصی نکلا

پھر کہانی ہی بے مزہ نکلی۔

شعلہ و قت سے آہن بھی پگھل جاتا ہے

وقت کے ساتھ یہ سنسار بدل جاتا ہے

اے سیاست یہ ترا رنگ ہے کتنا گہرا

جو بھی آتا ہے اسی رنگ میں ڈھل جاتا ہے

کاش یہ بات عقابوں کی سمجھ میں آتی

جو بھی سورج سے الجھتا ہے وہ جل جاتا ہے

 راشد عالم راشد

دوست  مانا  تھا  جسے  اس  نے  کنارا  کر  لیا

میں نے    بھی  اس   کے بغیر  اپنا گذارا کر لیا

وہ سمجھتا ہے کہ میں مجبور ہوں اس کے بغیر

پرتعلق  توڑ کر  اس نے خسارا  کر لیا

کتنے چہرے  ایک چہرے پر لیے

بولتے ہیں خنجر و نشتر لیے

قیس آیا ہے گلی میں شور ہے

لوگ نکلے ہاتھ میں پتھر لیے

 قیصر مسعود

آپ یاروں کی مہربانی سے

ہم نکالے گئے کہانی سے

کچی مٹی سے میں بنا ہوا ہوں

اس لیے ڈر رہا ہوں پانی سے

زندگی ہے کہ بار ہے مجھ پر

جیسے کوئی ادھار ہے مجھ پر

خوب صورت یونہی نہیں ہوں میں

تیرے غم کا نکھار ہے مجھ پر

ان لبوں سے ادا ہوا تھا میں

بدعا تھا دعا ہوا تھا میں

کاش تم پر ہی خرچ ہو جاتا

یہ جو تھوڑا بچا ہوا تھا میں

شرف نانپاروی

کہاں اورکوئی عبارت لکھیں گے

محبت لکھا ہے محبت لکھیں گے

رہ عشق میں جو فنا ہو گئے ہیں

ترے نام ان کی امامت لکھیں گے

مرے دل سے نکلنا چاہتے ہیں

یہ غم اشکوں میں ڈھلنا چاہتے ہیں

وہ سارے لوگ میرے ساتھ آئیں

جو یہ منظر بدلنا چاہتے ہیں

محبت کا کانوں میں رس گھولتے ہیں

یہ اردو زباں ہے جوہم بولتے ہیں

پھلے پھولے کیسے یہ گونگی محبت

نہ وہ بولتے ہیں نہ ہم بولتے ہیں

ستلج راحت

محبت کے معانی جانتا ہے

وہی میری کہانی جانتا ہے

یہ دریا پار کر رکھا ہے میں نے

مرے غصہ کو پانی جانتا ہے

حسن کی دسترس میں رہنا بھی

ہاں مگر اپنے بس میں رہنا بھی

لیتے رہنا منافقت کے مزے

ایسے دوچار دس میں رہنا بھی

 ندیم ماہر

بس اتنی بات تھی، کہتے تو ہم، ترمیم کر لیتے

سفر کو بانٹ لیتے ہم، تھکن تقسیم کرلیتے

اگر ہم سے شکایت تھی، تو پھر اظہار کرنا تھا

معافی مانگ لیتے ہم، خطا تسلیم کر لیتے

ایک تماشا دیکھ رہا ہوں

خود کو تنہا دہکھ رہا ہوں

چاروں جانب بھیڑ ہے لیکن

سب کو تنہا دیکھ رہا ہوں

ابرار کاشف

خواب کی طرح حقیقت میں بنا جائے مجھے

کوئی مشکل کی گھڑی ہو تو چنا جائے مجھے

صرف آواز ہی پہچان نہیں ہے میری

میری آواز سے آگے بھی سنا جائے مجھے

منزلوں کی کون جانے رہگزر اچھی نہیں

اس کی آنکھیں خوبصورت ہیں نظر اچھی نہیں

دن میں مل لیتے کہیں رات ضروری تھی کیا

بے نتیجہ یہ ملاقات ضروری تھی کیا

مجھ سے کہتے تومیں آنکھوں میں بلا لیتا تمہیں

بھیگنے کیلئے برسات ضروری تھی کیا

گھر کی تقسیم میں انگنائی گنوا بیٹھے ہیں

پھول گلشن سے شناسائی گنوا بیٹھے ہیں

بات آنکھوں سے سمجھ لینے کا دعوی مت کر

ہم اسی شوق میں بینائی گنوا بیٹھے ہیں

عتیق انظر

اس نے برباد کیا  ایسا کہ چھوڑا  نہیں کچھ

پھر بھی کچھ لوگ یہ کہتے ہیں خسارہ نہیں کچھ

باغ  مہکے  گا  کلی  چٹکے  گی  آئے  گی  بہار

اب کسی کو ترے وعدوں کا بھروسہ نہیں کچھ

تاج  کے حسن کو وہ  داغ  بتاتا  ہے  جو

خود  زمیں پر کسی دھبے  سے زیادہ نہیں کچھ

دوستی  اس کو  نہ آئی  تو  کوئی بات نہیں

دشمنی  کا بھی  سلیقہ اسے  آیا  نہیں کچھ

لے لے پتوار مرا چھین لے کشتی  میری

تیرنے والے کے آگے کوئی دریا نہیں کچھ

ڈاکٹر معین شاداب

موجوں سے لڑتے وقت تو میں اس کے ساتھ تھا

ساحل پہ اس کے ہاتھ میں کوئی اور ہاتھ تھا

اداس جھیلوں میں مہتاب ڈال دیتا ہے

وہ میری آنکھوں میں کچھ خواب ڈال دیتا ہے

یہ کس کی سانسوں کو خوشبو گراں گزرتی ہے

یہ کون گملوں میں تیزاب ڈال دیتا ہے

وہ محفلوں میں بھی تنہا سا لگ رہا ہے مجھے

یہاں اکیلے میں میلا سا لگ رہا ہے مجھے

مجھے بلندی سے ادنی سمجھنے والے سن

یہاں سے تو بھی تو چھوٹا سا لگ رہا ہے مجھے

 ڈکٹر لیاقت جعفری

ہائے افسوس کہ کس تیزی سے دنیا بدلی

یہ جوسچ ہے یہ کبھی جھوٹ ہوا کرتا تھا

صندل کے اک پیڑ کو کاٹ گرایا ہے

کلہاڑی کو خوشبودار بنایا ہے

ہواوں میں بکھر جانے سے پہلے

دھواں زندہ تھا مر جانے سے پہلے

برا مارا  مجھے جنگ انا نے

گئی دستار سر جانے سے پہلے

بدن میں روح میں اوسان میں تھا

وہ جب تک تھا ہمارے دھیان میں تھا

محبت خوبصورت موڑ پر تھی

مجھے اب فائدہ نقصان میں تھا

عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے

سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے

مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا

مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے

ہمارے گاوں میں دوچار ہندو درزی تھے

نمازیوں کے لیے  ٹوپیاں بناتے تھے

انا کی جنگ میں دستار کو بچاتے ہوئے

ضمیر مر گیا کردار کو بچاتے ہوئے

حواس لوٹے تو اس نے کسی کا نام لیا

طبیب رو پڑے بیمار کو بچاتے ہوئے

ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر

دیوار مت اٹھائیے رستہ بنائیے

سبزہ بچھاتے جائیے سایہ بنائیے

کیوں کر الجھ رہے ہیں کہ منظر ہے رات کا

سورج نہ بن سکے تو ستارہ بنائیے

گر ہو سکے تو روشنی، خوشبو، ہوا بنیں

دنیا بہت بری ہے تو اچھا بنائیے

خزاں رنگ گلشن نہیں چاہیے

کہ پھولوں کا مدفن نہیں چاہیے

مہکتا نہیں بارشوں میں کبھی

مجھے پکا آنگن نہیں چاہیے

شب کی بے خواب ایک آرزو دیر تک

شہر دل میں پھری کو بہ کو دیر تک

دفعتا اٹھ گئی ہیں نگاہیں مری

آج بیٹھے رہو روبرو دیر تک

تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا

کیف دیتا رہا لفظ  تو دیر تک

میں سرفراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں

میں رہی شعلہ نوا شام کے بازاروں میں

میں محبت کی علامت میں وفا کی تصویر

میں ہی چنوائی گئی قصر کی دیواروں میں

قدر یوسف کی زمانے کو بتائی میں نے

تم تو بیچ آئے اسے مصر کے بازاروں میں

میں ہوں تم ہو اک دنیا ہے توبہ ہے

سارا عالم دیکھ رہا ہے توبہ ہے

سب سے بچ کر تم نے ایک نظر دیکھا

اور یہاں جو دل دھڑکا ہے توبہ ہے

تم نے پکارا نام کسی کا محفل میں

میں نے اپنا نام سنا ہے توبہ ہے

 اقبال اشہر

ہم کو ہمارے صبر کا خوب صلہ دیا گیا

یعنی دوا نہ دی گئی درد بڑھا دیا گیا

ان کی مراد ہے یہی، ختم نہ ہو یہ تیرگی

جس نے ذرا بڑھائی لو اس کو بجھا دیا گیا

اہل ستم کورات پھر دعوت رقص دی گئی

اور برائے روشنی شہر جلا دیا گیا

منکر کربلا ہوئے درد میں مبتلا ہوئے

ہم کو بھی اک یزید کا دور دکھا دیا گیا

اقبال اشہر  نے اپنی مشہور  نظم  ’ اردو‘ بھی سامعین کے بے حد اصرار پر سنائی، اس نظم کے تین بند ملاحظہ ہوں ۔

 اردو ہے مر ا  نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی

میں ’میر‘ کی ہمراز ہوں ، ’غالب‘ کی سہیلی

دکّن کے ’ولی‘ نے مجھے گودی میں کھلایا

’سودا‘ کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا

ہے ’میر‘ کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا

میں ’داغ‘ کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی

اردو ہے مرا نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی

ہے ’ذوق‘ کی عظمت کہ دیے مجھ کو سہارے

’چکبست‘ کی الفت نے مرے خواب سنوارے

’فانی‘ نے سجائے مری پلکوں پہ ستارے

’اکبر‘ نے رچائی مری بے رنگ ہتھیلی

اردو ہے مرا نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ

اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی

اردو ہے مرا نام میں ’خسرو ‘ کی پہیلی

ڈاکٹر راحت اندوری

سفر میں آخری پتھر کے بعد آئے گا

مزہ تو یار دسمبر کے بعد آئے گا

جہاں پہنچ کے سبھی راہ بھول جاتے ہیں

وہ موڑ میل کے پتھر کے بعد آئے گا

جو لوٹتے ہو تو لوٹو مگر یہ دھیان رہے

تمہارا گھر بھی مرے گھر کے بعد آئے گا

اب جو بازار میں رکھے ہو تو حیرت کیا ہے

جو بھی دیکھے گا وہ پوچھے گا کہ قیمت کیا ہے

یہ جو بازار کی مندی ہے گزر جانے دے

پھر پتہ تجھ کو چلے گا مری قیمت کیا ہے

روز ان تازہ قصیدوں کی ضرورت ہی نہیں

آپ تو اتنا بتادیں کہ ضرورت کیا ہے

اپنے حاکم کی فقیری پہ ترس آتا ہے

جو غریبوں سے پسینے کی کمائی مانگے

سارا دن جیل کی دیوار اٹھاتے رہیے

ایسی آزادی کہ ہر شخص رہائی مانگے

اپنے منصف کی ذہانت پہ ہوں قربان کہ جو

قتل بھی ہم ہوں ہمیں سے ہی صفائی مانگے

مراضمیر مرا اعتبار بولتا ہے

مری زبان سے پروردگار بولتا ہے

کچھ اور کام تو جیسے اسے آتا ہی نہیں

مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے

راستہ میں پھر وہی پیروں کا چکر آگیا

جنوری گزرا نہیں تھا اور دسمبرآگیا

یہ شرارت ہے، سیاست ہے کہ ہے سازش کوئی

شاخ پر پھل آئیں ، اس سے پہلے پتھر آگیا

میں تو سمجھا تھا  تماشا ختم ہے اب کے مگر

پھر وہی جن ایک بوتل سے نکل کر آگیا

اپنے دروازے پہ پہلے میں نے خود آواز دی

اور پھر کچھ دیر میں خود ہی نکل کر آ گیا

تبصرے بند ہیں۔