کاروبار، بینک اور آئی بی سی

    سراج الدین فلاحی

ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں کے امکانات ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بڑے کاروبار میں بڑی پونجی لگتی ہے جن میں ایک بڑی رقم کمپنیاں اور کارپوریٹ گھرانے بینکوں یا مالیاتی اداروں سے لون کی شکل میں لیتے ہیں۔ جب کمپنیاں ڈوبتی یا لِکویڈیشن میں جاتی ہیں تو بینکوں کے ذریعے دیے گیے ان پیسوں کے ڈوبنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ چنانچہ لِکویڈیشن (بینکوں یا کریڈیٹرس کے پیسوں کو لوٹانے کے پیش نظر دیوالیہ ہونے والے کاروبار کے اثاثوں کو بیچنے کا عمل لیکویڈیشن (Liquidation) کہلاتا ہے) کے عمل کو تیز اور بہتر بنانے کے لیے ہماری سرکار نے 2016 میں ایک بل پاس کیا تھا جس کا نام انسالوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ (Insolvency and Bankruptcy Code)  یعنی آئی بی سی تھا۔ جب کوئی کمپنی یا فرد جس نے بینکوں یا کسی مالیاتی اداروں سے لون لیا ہو اور وہ اسے طے شدہ مدت تک لوٹا نہیں پا رہا ہو تو اسے انسالوینٹ (Insolvent) کہتے ہیں اور جب انسالوینسی کسی عدالت سے قانونی طور پر ڈیکلیئر کر دی جاتی ہے تو اسے بینکرپسی (Bankruptcy) کہا جاتا ہے۔ یعنی بینکرپسی بھی ایک طرح کی انسالوینسی ہی ہے بس فرق یہ ہے کہ یہ قانونی طور پر عدالت کے ذریعے ڈیکلیئر کر دی جاتی ہے۔ آئی بی سی کے تحت کمپنیوں اور کاروباریوں کے جو معاملات آتے ہیں انہیں سلجھانے کا کام National Company Law Tribunal-NCLT کرتا ہے۔ بل کا مقصد یہ تھا کہ دیوالیہ ہونے والے کاروبار کا جلد از جلد لکویڈیشن کیا جائے تاکہ بینکوں کے نقصانات قدرے کم ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ لکویڈیشن میں جتنا زیادہ وقت لگتا ہے اثاثے اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں اور بینکوں کا نقصان بڑھتا جاتا ہے۔ لہذا اس عمل میں تیزی لانے کے لیے ایک مناسب اور معقول قانون کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جس کے لیے یہ بل پاس کیا گیا۔ اس قانون کا وعدہ تھا کہ ریزولوشن پروسیس تیز ہو گا، کاروبار کو بچانے کے لیے جو پروموٹر ناقابل ہوں گے انہیں باہر کیا جائے گا اور جلد ان سے ریکوری ہو گی۔ پروسیس میں تیزی لانے کے لیے بعد ازاں اس قانون میں ترمیمات بھی کی گئیں اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ لکویڈیشن کی جو کاروائی پانچ سے چھ سال میں مکمل ہوتی تھی وہ 270 دنوں کے اندر مکمل ہو۔

 

آئی بی سی کو معیشت اور مالیات کی دنیا میں ایک بڑا ریفارم بتایا گیا اور اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ اب بینک اپنے پیسوں کی ریکوری جلد کر سکیں گے اور ہمارا ملک ِایز آف ڈوئینگ بزنس میں تیزی سے آگے کی طرف بڑھے گا۔ لیکن پانچ سال کی ایک طویل مدت گذرنے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ دیوالیہ پن کے معاملات کو نمٹانے کے لیے لائے گیے اس قانون کا خود دیوالیہ نکل گیا۔ آپ صرف 2021 کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ڈوبنے والے کاروباریوں سے صرف چالیس ٖفیصد کی ریکوری ہو سکی ہے۔ یعنی جو سو روپیہ بینکوں نے کارپوریٹ گھرانوں کو قرض دیا تھا اس میں صرف چالیس روپیے واپس آ سکے ہیں اور معاملات کو نمٹانے کی جو 270 دنوں کی مدت دی گئی تھی اس میں بھی 400 دنوں سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ تقریبا پچاس فیصد کاروبار لکویڈیشن میں چلے گیے ہیں یعنی کوڑیوں کے دام بکے ہیں۔ گویا کاروبار ڈوب گیا، مالکان کو نکال دیا گیا اور کوئی بڑی ریکوری نہیں ہو سکی۔ یہ سارا کھیل قانون کے مایا جال میں اس طرح پھنس کر رہ گیا ہے کہ اب ہم چونکا دینے والی کہانیاں روزانہ سنتے ہیں لیکن ہمارے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آتا۔ آئیے اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

ہوتا یوں ہے کہ کارپوریٹ جگت کے بڑے بڑے صنعت کار بینکوں سے لون لے کر کمپنی کھولتے ہیں اور لون کو دوسری فرضی کمپنی میں شفٹ کر دیتےہیں۔ جب بینکوں میں EMI نہیں آتی تو بینک شکایت کرتے ہیں اور انتظامیہ حرکت میں آتی ہے۔ کمپنی یہ کہ کر اپنے آپ کو علیحدہ کر لیتی ہے کہ ہمارا کاروبار تباہ ہو گیا، ہم دیوالیہ ہو گیے لہذا اب ہم لون چکانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اب یہ معاملہ NCLT میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح NCLT میں ہزاروں کمپنیاں آتی ہیں جو کہتی ہیں کہ ہم قرض میں ڈوب چکے ہیں اس لیے  اپنی کمپنی بیچنا چاہتے ہیں۔ NCLT کمپنی کی بولی لگاتی ہے اور کوڑیوں کے دام کمپنی کی نیلامی ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیلامی میں جو کمپنی کا خریدار ہوتا ہے وہ اسی بینک سے لون لے لیتا ہے جس بینک کو پہلے پروموٹر نے چونا لگایا گیا تھا۔ DHFL یعنی دیوان ہاؤسنگ فائنانس لیمیٹڈ کا قصہ آپ نے سنا ہو گا۔ اس کے اوپر تقریبا نوے ہزار کروڑ کا قرض تھا، اس کے مالک کو کمپنی سے باہر کیا گیا اور IBC کے پروسیس میں ڈالا گیا۔ اس کو Piramal گروپ نے صرف 57 ہزار کروڑ میں خرید لیا۔ یعنی 33 ہزار کروڑ کا ہیئر کٹ یا چونا۔ ابھی ویڈیو کان (Videocon) کے لکویڈیشن کا معاملہ کافی چرچے میں ہے۔ یہ وہی ویڈیوکان ہے جس نے انڈیا میں پہلی بار 1986 میں کلر ٹی وی بنایا تھا۔ بعد میں اس نے اے سی، فریج، واشنگ مشین اور بے شمار اشیاء بنائیں۔ اس نے SBI, ICICI, UBI, اور IDBI یعنی مختلف بینکوں سے 46 ہزار کروڑ کا قرض لیا تھا۔ یہ بھی NCLT کے دروازے پر جا پہنچا۔ اس کمپنی کی نیلامی ہوئی اور انل اگروال کی کمپنی Twin Star Technologies نے اسے صرف تین ہزار کروڑ میں خرید لیا۔ یہ وہی انل اگروال ہیں جنہوں نے حکمراں جماعت کو 2019 کے الیکشن میں ایک بہت بڑی فنڈنگ کی تھی۔ چنانچہ ان کو انعام میں یہ مراعات دی گئی۔ روچی سویا (Ruchi Soya) کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا۔ یہ کمپنی 1985 میں قائم ہوئی تھی۔ اس پر بارہ ہزار کروڑ کا قرض ہو گیا۔ اس نے بھی NCLT کے دروازے پر دستک دی۔ NCLT نے اپنا کمال دیکھایا اور رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے اسے صرف 4350 کروڑ میں اچک لیا۔ ان سب میں دلچسپ کہانی Sivasankaran Enterprises کی ہے۔ اس کمپنی پر 4863 کروڑ کا قرض تھا، کوئی لینے نہیں آیا تو اسے لکویڈیشن میں ڈالا گیا۔ جب لکویڈیشن میں ڈالا گیا تو اچانک سیواسنکرن نمودار ہوئے اور بولے اس کمپنی کو میں پانچ سو کروڑ میں خرید لوں گا۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار کہانیاں ہیں بس آپ فراڈ کے صفحات پلٹتے جائیے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ کہانیاں آپ کو ملتی رہیں گی۔ کیونکہ NCLT نے اب تک 914 کمپنیوں کا لکویڈیشن کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان کمپنیوں کے مالکان کی لائف اسٹائل آج بھی اپنے ذاتی چارٹرڈ پلین سے شروع ہو کر فائیو اسٹار ہوٹل پر ختم ہوتی ہے لیکن یہ قانونا دیوالیہ ہیں۔

 

حیرت اور استعجاب کی بات ہے کہ آئی بی سی اور این سی ایل ٹی کے یہ جلیبی نما جوڈیشیل پروسیس جس کا فائدہ کرمنل اٹھا رہے ہیں انہیں کو معیشت اور مالیات کی دنیا میں ایک بڑی اصلاح بتایا جا رہا ہے۔ قابل غور بات صرف یہ نہیں ہے کہ کمپنیاں اتنا بڑا فراڈ کر کے کیسے راہ فرار اختیار کر لیتی ہیں۔ سوچنے کا مقام  یہ بھی ہے کہ جو کمپنیاں انہیں خریدتی ہیں وہ کیسے انہیں بینکوں سے قرض پا لیتی ہیں جنہیں پہلی کمپنی نے چونا لگایا تھا۔ یعنی ایک کمپنی بینکوں سے قرض لے کر ڈوب جاتی ہے اور دوسری کمپنی کو اسے خریدنے کے لیے انہیں بینکوں سے قرض مل جاتا ہے۔ یہ مت بھولیے گا کہ بینکوں میں رکھا یہ پیسہ ہمارا اور آپ کا ہے جنہیں بینک کارپوریٹ گھرانوں پر لٹا رہے ہیں۔

 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔