کاش ہم بھی نیتا ہوتے!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

 بہت سارے ادیبوں نے ’’نیتاؤوں ‘‘کواپنے قلم کی جولان گاہ بنایاہے۔میں نے بھی انگلی کٹاکر شہیدوں میں نام لکھوانے کی ایک ناکام سہی کوشش کی ہے۔اگرپسند آجائے توپہلے آزوبازودیکھئے، پھرناخن سے تالیاں بجایئے اوراگردلِ نازک پر گراں گزرے توگزراکرے، میں نے کیاکوئی ٹھیکہ لے رکھاہے کہ جوبھی لکھا جائے، وہ آپ کو پسند ہی آجائے؟

 کچھ لوگوں کاکہناہے کہ’’نیتا‘‘ اصل میں ’’نیوتہ‘‘تھا، جیساکہ ’بہار‘ اصل میں ’وہار‘ اور’بھوپال‘ اصل میں ’بھوج پال‘ تھا؛ لیکن گردشِ ایام اورانقلابِ دہرکی چکی میں پِس کر’بہار‘ اور’بھوپال‘ بن گیا، بالکل اُسی طرح ’نیوتہ‘ بھی ’’نیتا‘‘میں بدل گیا۔

کہتے ہیں کہ نام کا اثرانسان کی شخصیت پربُری طرح پڑتاہے۔ اب لفظ ’نیتا‘کوہی لیجئے کہ اصل میں ’نیوتہ‘ تھااورنیوتہ کے معنی دعوت کے آتے ہیں ۔ نام ہی کا اثر ہے کہ یہ حضرات کھانے پینے میں کسی بنئے سے بھی زیادہ ماہر ہوتے ہیں ۔مرغ مسلم، چکن چلی اورتکا بوٹی تولازمی چیزوں میں سے ہیں ، گویاان کے بغیر عقل شریف کہیں اورچرنے چلے جانے کی دھمکی دینے لگتی ہو۔ مرغ مسلم کے تو اتنے شوقین ہیں کہ خواہ برڈفلوکی ہزارخبریں شائع ہوتی رہیں ، ان کے جہنم سے صدائے ’ھل من مزید‘مسلسل آتی رہتی ہے۔

 یہ تشریح اس وقت ہے، جب کہ ہم ’نیتا‘ کی اصل ’نیوتہ‘ مان کرچلیں ؛لیکن بعض حضرات کو اس سے اختلاف ہے اوران کا اصرارہے کہ ’نیتا‘ اصل میں ’’لیتا‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔زمانہ کی تیز گامی نے’’ل‘‘ کو’’ن‘‘ سے بدل دیاہے۔اوراس میں کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کہ تو’لفظ‘ ہے، جب کہ آج توزمانہ کی تیز گامی نے نہ جانے کتنے مردوں کو عورت اورعورتوں کو مردوں میں تبدیل کردیاہے، جس کا مشاہدہ ہم اپنے سرکی آنکھوں سے کررہے ہیں ۔

بہرکیف! اگرہم ’لیتا‘ کو ہی اصل مان لیں توبھی ہم اِس کا اثرکسی جراثیمی بیکٹریاکی طرح اُن کے اندررچابساپاتے ہیں ؛ چنانچہ اگرکسی کالج یافیکٹری کی منظوری کرانی ہوتوکسی نیتاکا دامن ترکیجئے۔ڈالروں سے بھراہواسوٹ کیس خود پہنچنے سے پہلے بنگلہ میں بھجوادیجئے۔ فروتنی اورعاجزی کا مظہر بن کرکتے کی طرح اُن کے پیچھے دُم ہلاتے رہئے، خواہ یہ دُم نقلی ہی کیوں نہ ہو۔پھرجب منظوری آجائے تواپنی قسمت پر عش عش کرتے ہوئے نازاں وفرحاں اورجیب میں دستخط شدہ چیک رکھ کرلرزاں وترساں نیتاصاحب کی کوٹھی پر آدابِ کورنش بجالایئے، اِن تمام مرحلوں کے بعد ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو ’صدقہ‘ کی رقم بھجواتے رہئے، ورنہ منظوری کی ایسی کی تیسی ہوسکتی ہے۔

 بہرحال! ’نیتا‘ کی اصل ’نیوتہ‘ ہویا’لیتا‘، دونوں صورتوں میں اُنھیں کے تلتلے ہیں ، اسی لئے میرے دوست حکیم چُرّی نے بھی ایک مرتبہ ببانگِ دُہل ’نیتا‘ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ کافی پوچھ تاچھ کے بعدوہ یوں گویا ہوئے: نیتاؤوں کے دونوں ہاتھ میں لڈوہوتے ہیں اورخود اُن کامنھ کڑھائی میں ہوتاہے۔مزید فوائدپرروشنی کی بوچھارکرتے ہوئے کہنے لگے: نیتابننے کے بہت فائدے ہیں ۔ ایک فائدتویہ ہے کہ کبھی پیسوں کے لئے رونا نہیں پڑے گا؛ کیوں کہ رشوت لینے میں ماہر پولیس والے بھی اُس کی جیب میں پڑے رہتے ہیں ۔میں نے چٹکی لیتے ہوئے حکیم صاحب سے پوچھا: جیب توبہت تنگ اورچھوٹی ہوتی ہے، پولیس والا اُس میں کیسے سماجاتاہے؟ بہت ہی متانت کے ساتھ فرمانے لگے: بوتل کے جن کی طرح۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ کہنے لگے: کسی پولیس والے کودھمکی دے دی کہ تمہاراتبادلہ یہاں سے کروائے دیتاہوں ، ورنہ جیب ڈھیلی کرو۔پولیس والا فوراً کسی گاڑی والے کا چالان کاٹ کر پیسے حاضرخدمت کردیتاہے۔

پھردوسرے فائدہ پر فوکس ڈالتے ہوئے گویاہوئے کہ جس وقت چاہواورجیسی چاہو، ویسی لڑکی کوٹھی پر پہنچادی جائے گی۔ بس کسی ہوٹل والے کوتفصیل کے ساتھ فون کردو، کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوگی کہ نیتاصاحب ’’کچھ ‘‘لے بھی رہے ہیں ۔اب تیسرے فائدے پر جذباتی انداز میں ٹارچ ڈالتے ہوئے کہا: نیتا بننے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی کرلو، جیل جانے کی نوبت نہیں آئے گی۔اوراگرخدانخـواستہ کبھی ایسی نوبت آبھی گئی توپورے تزک واحتشام کے ساتھ جاؤگے اورپورے کروفر کے ساتھ شاہانہ انداز میں لوٹوگے۔پھربتایا کہ لالوجی کوچارہ گھوٹالے کے سلسلہ میں ایک مرتبہ جیل جاناپڑگیاتھا، پوری فوجی بٹالین کے جلومیں گئے اورجب وہاں کی ضیافت سے اکتاگئے تودھوم مچاتے ہوئے ہاتھی پر لوٹے۔مودی کے بارے میں بتایا کہ گجرات میں اُس نے خوب خون کی ہولی کھیلی؛ لیکن آج تک عدالت بھی اُس کا ایک بال تک چھیل نہ سکی۔اُس پر مستزاد الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیتے چلے جارہے ہیں ؛ بل کہ پی ایم بن بیٹھے ہیں ۔پھر حکیم صاحب نے ایک عجیب بات بڑے رازدارانہ انداز میں بتائی کہ تقریباً اکثرارکانِ پارلیمنٹ ایسے ہیں ، جن پر کوئی نہ کوئی مقدمہ چل رہاہے۔اُس کے بعد میری طرف تمسخرانہ انداز میں دیکھتے ہوئے کہا: اب بتاؤ ! اگرمیں نے’ نیتا‘ بننے کی خواہش کی توکیا براکیا؟ حکیم چُرّی کی پُرازفوائدباتیں سن کرہم مہربہ لب ہوگئے اورسوچنے لگے کہ کاش! ہم بھی نیتاہوتے!!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔