کالادھن کہاں ہے صاحب ؟

راحت علی صدیقی قاسمی

          آر بی آئی نے اپنی سالانہ رپورٹ پیش کردی ہے ، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ،دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہوگیا اور سب کو علم ہو گیا ، اس کھیل میں کیا فائدہ ہوا اور کیا نقصان ہوا ؟سب کچھ عیاں ہوگیا ۔100لوگوں کی جانوں کا بدلہ، ہزاروں بھوک سے تڑپتے لوگوں کی محنتوں کا صلہ، شادیوں میں دشواریاں جھیلتے افراد کی تکلیف کا بدلہ سب ہندوستانی دیکھ چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے یہ جملے بھی کانوں میں گونج رہے ہیں ،نوٹ بندی میں ہندوستان کندن بن کر نکلے گا ،چند دن کی دشواریوں کو انہوں نے بھٹی سے تشبیہ دی تھی ،ان کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان اس مشکل دور کے بعد کامیابی کے تاریخ رقم کردے گا ، کالادھن حکومت کے قبضہ میں آجائے گا ، اسے غریبوں میں تقسیم کردیا جائے گا ،ہندوستان سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے گا ،خوش حالی ہی خوش حالی ہوگی ،آر بی آئی کی رپورٹ آنے کے بعد ان تمام دعووں کی پول کھل گئی ، وزیر اعظم کی گفتگو بے معنی ہو کر رہ گئی، 8 نومبر کو ہوئے وزیر اعظم کے نوٹ بندی کے اعلان اور اس کے بعد کی سخت ترین گھڑیاں پھر سے آنکھوں کے سامنے آگئیں ، وہ سارے منظر نگاہوں میں تیرنے لگے ، قطاروں میں لگے غریب مزدور کسان اور چند لمحات میں بینک سے رقم وصولتے ہوئے دولت مند افراد سب کچھ حافظہ پر ابھر آیا ، سینکڑوں افراد نے اس طرح کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور تکلیف محسوس کی ، مگر وزیر اعظم انہیں دلاسہ دیتے رہے ، کالا دھن پکڑے جانے کا اعلان کرتے رہے ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ،وزیر اعظم کو جب احساس ہوا ، ان کا منصوبہ ناکام ہورہا ہے ،ان کی تدبیرکارگر ثابت نہیں ہورہی ہے تو انہوں نے ڈیجیٹل انڈیا کا خواب دکھانا شروع کیا۔

8نومبر اور 11نومبر کی تقریر سن کر ہر ذی شعور یہی نتیجہ اخذ کر سکتا ہے، حالاںکہ آج بھی 95فی صد سے زیادہ ہندوستانی کیش میں لین دین کرتے ہیں اور ان کی کیش لیس اسیکم اور ڈیجیٹل انڈیا کے دعوے محض جملے ثابت ہوئے۔ حقیقت سے خالی ، سرکاری محکمے آج تک پوری طرح سے کیش لیس نہیں کئے جاسکے ، اسکول ، کالجز، گاڑیاں ، ریلوے ، ہسپتال ہر جگہ کیش کا رواج ہے ،اگر سرکار واقعتاً کیش کا خاتمہ چاہتی تھی تو خود شروعات کیوں نہیں کی ؟کیوں اس کی سرپرپستی میں چلنے والے محکموں کو پوری طرح کیش لیس نہیں کیا جاسکا ؟ دیہات میں کیمپ لگا کر لوگوں کو اس کے فائدوں سے آشنا کیوں نہیں کرایا گیا ؟ کیا تقریر کافی تھی ؟ غور کیجئے ،ذہن و دماغ کو ٹٹولئے، حقائق ابھر کر سامنے آجائیں گے اور سارا کھیل آپ کی نگاہوں کے سامنے آجائے گا ،عقیدت کا پردہ چاک ہوجائے گا ،حقائق سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت پیدا ہوجائے گی –

          کالے دھن کی آمد بھی محض لطیفہ ثابت ہوئی ،آربی آئی نے اعلان کردیا 98.7فی صد روپیہ بینکوں میں واپس آچکا ہے ،کالے دھن کے نام پر حکومت کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ، غریبوں مفلسوں کو چھلا گیا ،ان کی تکالیف و مصائب کو بڑھایا گیا اور سسٹم پر نکیل نہیں کسی گئی، کیا ملک میں کالا دھن تھا ہی نہیں اور اگر تھا اور یقیناً تھا تو کہاں گیا ؟ چوںکہ ملک کا کثیر طبقہ ٹیکس کی چوری کرتا ہے ، پھر کیوں کالے دھن کے نام پر حکومت کے ہاتھ خالی اور زبان خاموش ہے؟ وزیر اعظم خطیر رقم پکڑے جانے کی امید کر رہے تھے ،مگر 1.3فی صد ہی ملک میں کالا دھن موجود ہے، جس کے کالادھن ہونے کا فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں ہے ، چوںکہ 60لاکھ روپے کا مقدمہ عدالت عالیہ میں جاری ہے ، جو دو بچوں نے اپنے والدین کے لاکر میں پایا اور وہ اسے بدل نہیں سکے تھے ،اس طرح کے اور بہت سے معاملات ہیں ،جہاں لوگ ہزار دو ہزار رکھ کر بھولے ہیں اور وقت گذرنے پر انہوں نے اسے پھینکنا ہی مناسب سمجھا۔ اگر تسلیم کرلیاجائے کہ 1.3فی صد کالادھن تھا تو بھی کیفیت مضحکہ خیز ہے ،سمندر سے سوئیں تلاش کرنے کے لئے سمندر خشک کردینے جیسی کیفیت ہے ، ہزاروں مچھلیاں تکلیف کا شکار پانی کا ضیاع پھر انتہائی کم قیمت سوئیں کی دستیابی، بس یہی نوٹ بندی کی کہانی ہے ،نوٹوں کی چھپائی میں 7965کروڑ کا خرچ ہوا ،جبکہ گذشتہ برس یہ خرچ اس سے آدھا تھا ، نوٹوں کی چھپائی میں نقصان، بینک میں ملازمت کرنے والوں کا دن رات محنت کرنا ، لوگوں کا مجاہدہ سب کچھ رائیگاں ہوگیا ،ملک کو بھی نقصان، شرح نمو میں کمی ہے ، آر بی آئی کی خاموشی بھی بڑا سوال تھی ،پورا ہندوستان سوال کررہا تھا اور نوٹ بندی کے نتائج جاننا چاہتا تھا ،اب آربی آئی نے سالانہ رپورٹ جاری کی ہے تو حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں۔ سوال تو یہ ہے حکومت اب کیا طریقہ اپنائے گی ؟ کیسے ٹیکس چوروں کو پکڑا جائے گا ؟

اس نقصان کی بھرپائی کا کیا طریقہ ہوگا ؟ حالانکہ وزیر خزانہ اب بھی نوٹ بندی کے فوائد گنوارہے ہیں ،جذبات سے کھیلنے کا پرانا پیترا استعمال کررہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں ،کہ نوٹ بندی سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ، ان کے پاس پیسوں کمی آگئی ،ان کے منصوبے ناکام ہوگئے ،حادثات میں کمی واقع ہوئی ہے، کشمیر میں پتھر بازی کم ہوگئی ،نکسلیوں کے حملے کم ہوگئے ،نوٹ بندی کے یہ فائدہ سمجھ سے بالا تر ہیں۔اگر یہ کہا جاتا 20فی صد کالادھن ضبط کرلیا گیا ،اس کی سڑکیں بنائی جائیں گی ،غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا ،ملک کو اتنا فائدہ ہوا ہے ،شرح نمو میں دس فی صد اضافہ ہوا ہے تو جوابات قرین قیاس ہوتے اور یقین ہوتا کہ ملک نے ترقی کی اور نوٹ بندی کے فائدے ہوئے ، مگر جو وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں ،اس کا مفہوم ہر خردمند سمجھ سکتا ہے، بس ذہن و دماغ سے عقیدت کا بھوت اتارنے کی ضرورت ہے اور آنکھوں سے تعصب کی عینک ہٹانا ضروری ہے، سب سمجھ میں آجائے گا ،اس سب کے باوجود عوام اس صورت حال سے بے خبر ہے چوںکہ حکومت اور میڈیا نے اسے مذہبی کھیل میں الجھا دیا ہے ،دن رات مذہبی مسائل پر گفتگو ہور ہی ہے ، جیسے میڈیا نہیں مدرسہ ہے ،طلاق پر گفتگو مباحثے ،فرضی باباؤں کے جرائم اسٹوریاں ،سب کچھ ہے مگر عوام کو ان کے نقصانات سے پوری طرح باخبر نہیں کیا جارہا ہے ۔

بہرحال خبریں آئیں، علم بھی ہوا ہے ، مگر ذہن حقائق سے پوری طرح مطلع نہیںہوئے ،مطمئن نہیں ہوئے، نوٹ بندی کی پوری کہانی آر بی آئی کی رپورٹ نے واضح کردی ہے ،اب وزیر اعظم کے لئے بڑا سوال ہے ،کس طرح وہ ملک کو خسارے سے محفوظ رکھتے ہیں ، کس طرح شرح نمو میں اضافہ کیا جاتا ہے ،کس طرح ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاتا ہے ، ان سب سوالوں کے جواب مستقبل  منصئہ شہود پر لے آئے گا ، فی الحال نوشتۂ دیوار نوٹ بندی کی ناکامی بیان کررہا ہے اور وزیر اعظم کے لئے چیلنج کررہا ہے۔ 2019میں انہیں نئی تدابیر کی دعوت دے رہا ہے اور ذہنوں میں سوال چھوڑ رہا ہے ،کالا دھن کہاں ہے؟ پہلے وزیر اعظم ملک سے باہر موجود کالے دھن کو واپس لانے کے مدعی تھے ،غریبوں کو 15کروڑ دینے کے مدعی تھے ،امت شاہ نے اسے جملہ قرار دیدیا ،اب وہ ہندوستان میں موجود کالا دھن برآمد کرنے کے خواہاں ہوئے ،مگر آر بی آئی کی رپورٹ نے اسے جملہ ثابت کردیا ،آخر کب تک جملے بازی سے ترقی کی جائے گی؟آخر کب تک لوگوں حسین خواب دکھا کر تکلیف میں مبتلا کیا جائے گا؟

ہمارے وزیراعظم کو خیال کرنا چاہئے ،عوام کے پاس وہ طاقت و قوت ہے کہ وہ عام آدمی کو وزیر اعظم بناسکتے ہیں ،تو وزیراعظم کو عام آدمی بھی بنا سکتے ہیں ،ان حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ،عوام کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ،ملک کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے ،منصوبے بنائیے اور ہندوستان کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیجئے ،ورنہ 2019میں حکومت سازی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیجئے، چند غلط فیصلے آپ کی کشتی غرق کرنے کے لئے کافی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔