کیا کبھی زندگی سانپ کے پھن سے نکلی!

محمد خان مصباح الدین

برما کی تاریخ شروع سے ہی بڑی حیرت انگزیز رہی ہے مختلف سلطنتوں کے زیر اثر رہنے والا یہ ملک ہر دور میں مسلمانوں کیلئے تنگ رہا برما کی کل آبادی چھ کروڑ سے زیادہ ہے آبادی میں 89  فیصد بدھ، 4 فیصد مسلمان (تقریباً ساڑھے 22 لاکھ)، 4 فیصد عیسائی، 1 فیصد ہندو اور 2 فیصد دوسری قومیں آباد ہیں۔ برما کی آزادی کے بعد 30 مارچ 2011 کو نیا دستور قائم ہوا, برما جس کا دوسرا نام میانمار بھی ہے، جنوب مشرقی ایشیا کا ایک اہم اور دنیا کا پچاس واں بڑا ملک ہے جس کی سرحدیں بنگلہ دیش، چین، ہندوستان، تھائی لینڈ اور لائوس تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سمندر، پہاڑ، صحرا، وادیاں برما کے طبعی حالات کو چار چاند لگاتی ہیں۔ یہ ملک اگر خانہ جنگی کا مسلسل شکار نہ ہو تو جنوب مشرقی ایشیا میں سیاحت کے چوٹی کے ممالک میں شمار کیا جائے۔ 30 مارچ 2011سے لیکرآج تک مکمل بدھشٹ کی حکومت اور اقتدار ہے جو گوتم بدھ کو اپنا رہنما اور پیشوا سمجھتے ہیں, بدھ وہی دھرم ہے جسکے قوانین و ضوابط کی بات کیجائے تو یہ اپنے ماننے والوں کو سختی سے اسبات کی تاکید کرتا ہے کہ وہ معصوم پودوں سے لیکر درخت تک,چڑیا سے لیکر شیر تک سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں کیوں کہ یہ ناقابل معافی قانونی و اخلاقی جرم ہے اور ان سب سے  زیادتی کرنے والوں کیلیئے قوانین مقرر کیئے جاتے ہیں اور تو اور کتے,بلی,سور وغیرہ کیلیئے بجٹ تعین کیا جاتا ہے مگر  جب برما میں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی بات آتی ہے تو ان کے سارے اصول و ضوابط دھرے رہ جاتے ہیں اور انسانوں کی شکل میں وحشی بن جاتے ہیں اور اپنے قانون اور مذہب سے پرے ہٹ کر انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں اور ایسے ہتھکنڈے اپنا کر بربریت کا کھیل کھیلتے ہیں کہ روح تک کانپ اٹھتی ہے, برما کا مسلمان اپنی بے بسی کا رونا کس سے روئے ,انہوں نے برسوں کے ظلم وستم کے بعد شاید اب یہی سونچ لیا ہیکہ آگ کے شعلے اور چاقو اور تلواروں کی دھار ہی انکی زندگی کا مقدر ہے , ہمیشہ اور ہر دور میں انہیں اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا یہ لوگ ہمیشہ برما میں حکومتی مظالم سے تنگ آ کر راہ فرار اختیار کرتے رہے تاکہ وہ زندگی کی چند سانسیں اطمینان و سکون سے گزار سکیں۔ لیکن لگتا ہے کہ سکون ان کے نصیب میں نہیں۔ یہ دنیا کی واحد ایسی قومیت ہے کہ جن کے پاس کسی ملک کی شہریت نہیں یعنی کاغذات کے  لحاظ سے یہ دنیا کے انسانوں میں شمار ہی نہیں ہوتے۔ رہنے والے تو یہ برما کے ہیں لیکن برما نے ان کی شہریت 1982ء میں یہ کہہ کر منسوخ کر دی کہ ان کا برما کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت سے ان مسلمانوں پربے پناہ مظالم شروع ہوئے۔ برما کی حکومت نے ان پرپابندی لگائی کہ وہ پختہ مکان نہیں بنا سکتے، دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے، شادی کیلئے رجسٹریشن ضروری ہے جو اس قدر مشکل ہے کہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہ لوگ اب بنگلہ دیش اور برما کی سرحد کے درمیان سمندر کے کنارے دلدلی زمین والے علاقوں میں جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں جہاں انہیں دنیا کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ کبھی انہیں جنگ میں ڈھال کے طور پے استعمال کیا گیا تو کبھی انہیں جانوروں سے بدتر شمار کیا گیا

امریکی تھینک ٹینک ’’واشنگٹن اسٹڈی سینٹر برائے ایشیا‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق برما میں مسلمانوں پر مظالم نئے نہیں بلکہ صدیوں سے مقامی مسلمان آبادی حکومتوں کے مظالم سہتے چلی آرہی ہے، لیکن مسلمان آبادی کے اجتماعی قتلِ عام کا آغاز 1970ء کی دہائی میں اُس وقت ہوا، جب برما اور بنگلہ دیش کے درمیان مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حدود میں دھکیلنے پر ایک تنازع پیدا ہوا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب بنگلہ دیش تازہ تازہ پاکستان سے جدا ہوا تھا اور وہاں پر شیخ مجیب الرحمن کا طوطی بولتا تھا۔بنگلہ دیشی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ برما کے مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، لہٰذا برمی مسلمان تارکینِ وطن واپس اپنے ملک جائیں جبکہ برمی حکومت مسلمانوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ 1992ء میں دونوں ملکوں کے درمیان اقوامِ متحدہ کی وساطت سے ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بنگلہ دیش میں موجود تمام مسلمان مہاجرین کو واپس میانمار منتقل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے وقت بنگلہ دیش میں ڈھائی لاکھ برمی مسلمان پناہ لیے ہوئے تھے۔

برما نے اعتراض کیا کہ ہجرت کرکے بنگلہ دیش آنے والے مہاجرین کے بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے بچے بنگالی شہری ہوں گے جن کا برما سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بہانے کی آڑ میں میانمار حکومت نے 21ہزار بچوں کو بنگالی شہر ی قرار دے کر انہیں ان کے والدین سمیت لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ ہفتے میں صرف ڈیڑھ سو افراد کو برما داخلے کی اجازت دی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ برمی حکومت مسلمانوں کو حیلوں بہانوں سے تنگ کرنا چاہتی ہے اور انہیں بنگلہ دیش ہی میں روکنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برما کی حکومت کے اس غیرمنصفانہ طرزِ عمل پر ڈھاکا نے کئی بار احتجاج بھی کیا لیکن سب بے سود ثابت ہوا۔

جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد واپس روہنگیا چلی گئی تو برما کی حکومت ایک بار پھر طیش میں آئی اور سول اور ملٹری ملیشیا کے ذریعے مسلمانوں کے قتلِ عام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق 2001ء کے بعد سے اب تک برما میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمان نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں خواتین کی سرِ عام اجتماعی عصمت ریزی کی گئی جبکہ 80 ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ برما کی جیلیں، جو ہمیشہ سیاسی قیدیوں سے بھری رہی ہیں، اب برمی مسلمانوں سے اَٹی پڑی ہیں_

برما میں تازہ قتل عام 2013ء کے اوائل میں شرو ع ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ روہنگیا کے لوگوں کا مسلمان ہونا بتایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ برما میں بدھا کے پُرامن پیروکاروں کو بیرونی اشاروں پر مسلمانوں کے قتلِ عام پر اُکسایا جاتاہے۔ بدقسمتی سے مسلمان دانشور اور نام نہاد صحافی برما میں ہونے والے قتلِ عام کو فرقہ وارانہ فسادات کہہ کر اصل بات کو فراموش کر دیتے ہیں۔فرقہ وارانہ فسادات میں دو یا زیادہ متحارب گروپوں کا برابر نقصان ہوتا ہے لیکن پوری دنیا اور بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ برما میں مسلمانوں کی بدھ مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کسی مقام پر کسی بدھ کے قتل کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو، وہ الگ بات ہے۔ لیکن جس منظم طریقے سے مسلمان آبادی کو تہہ و تیغ کیا گیا، وہ کسی فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ نہیں بلکہ منظم ریاستی دہشت گردی ہے۔یہ بات اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ’’ریڈ کراس‘‘ اور ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ بھی اپنی رپورٹس میں ثابت کر چکی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق روہنگیا میں روز مرہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو قتل اور گرفتار کیا جاتا ہے۔ قتلِ عام میں نہ صرف بدھ مذہب کے انتہا پسند شامل ہیں بلکہ فوج، پولیس اور ریاستی ادارے بھی اس جرم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دے رکھا ہے۔مگرافسوس اسبات پے ہیکہ مٹھی بھر نظر آنے والا ملک برما اقوامِ متحدہ کو بھی آنکھ دکھاتا ہے ، روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا جائزہ لینے والی اقوامِ متحدہ کی ٹیم کو ملک میں نہ آنے کی دھمکی بهی دیتا ہے ، مگر اقوامِ متحدہ بے بس نظر آتی ہے ، جب کہ اسی اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں مسلم ممالک عراق و شام ، لیبیا و افغانستان تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں ، اب اقوامِ متحدہ روہنگیائی مسلمانوں کی تباہی کا منظر دیکھنا چاہتی ہے ,برمی بدھشٹوں کا خیال ہے کہ چونکہ مسلمان یہاں غیر قانونی طور پر ہجرت کرکے آئے اس وجہ سے انہیں خود کو ملک کا شہری کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس لئے بار بار مسلمانوں کے خلاف میدان سجایا جاتا ہے تا کہ مسلمان یہاں سے واپس ہجرت کرکے اپنے ملکوں میں چلے جائیں

قارئین کرام!

آج روہنگیائی مسلمانوں کی حالت دیکھ کر انسانیت اپنا چہرہ دامن میں چھپا رہی ہے آپ احساس کیجیئے کہ برما کی فوج اور حکومت کا یہ ظلم جب ہم اور آپ تصویروں اور ویڈیوز کے حوالے سے نہیں دیکھ پا رہے ہیں تو جن پر بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں انکا کیا حشر ہوتا ہوگا وہ اس درد کی شدت کو کیسے برداشت کرتے ہونگے,انکا جرم صرف یہی ہے نا کہ انہوں نے اسبات کی شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں؟ کیا آج ہماری رگوں کا خون پانی ہو گیا ہے کہ ہم ایسے واقعات زوزانہ دیکھتے,پڑھتے اور سنتے ہیں مگر پھر بھی ہمارا ایمان نہیں جاگتا برما کی معصوم بچیاں اپنی آنکھوں میں آنسو کی جگہ خون سمیٹ کر ہماری طرف اس امید سے دیکھ رہی ہیں کہ کوئی آئے گا, بچے دیواروں پے اپنے خون سے لکھ رہے ہیں کہ کیا کوئی محمدبن قاسم نہیں  آئیگا؟کیا کوئی نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی اب ہماری جان اور عزت وناموس کی حفاظت کیلیئے سامنے نہیں آئیگا؟

 ہم تو دعوی کرتے تھے کہ ہم نعرہ تکبیر بول کر آگ کے دریا میں کود جایا کرتے تھے اور آگ کو بھی گلزار کر دیا کرتے تھے, کہاں گئی ساری مردانگی؟ کیا آج ہم اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ ہمارا احساس تک تک اسبات لیے رضامند نہیں کہ ہم اپنا ایمان جگا سکیں میرے بس میں اتنا ہی کہ میں ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکوں اور رب کی بارگاہ میں اپنی ماں بہنوں اور بھائیوں کیلیئے دعا کر سکوں مگر وہ حکمراں جو برسر اقتدار ہیں جو اسبات کی مکمل طاقت اور آزادی رکھتے ہیں کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہو سکیں اور مسلمانوں کے دامن پر اٹھنے والے ہاتھ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکیں لیکن وہ خاموش ہیں کیا انہیں فرشتوں کے نزول کا انتظار ہے یا انکی ہمت جواب دے چکی ہے یا وہ یہ گمان رکھتے ہیں کہ روز قیامت اللہ ان سوال نہیں کریگا یا انکی فکری توازن جواب دے چکی ہے یا انکی غیرت و حمیت کو گھن لگ چکا ہے ایک بات یاد رکھیئے اگر انسان کی غیرت مردہ ہو جائے تو 34 مسلم ممالک کی افواج ہو یا 34 ہزار مسلم ملکوں کی فوجیں ہوں سب بیکار ہیں اور اگر ایمانی غیرت ہو اور رگوں میں دوڑتا خون ایمان والا ہو اور دینی حمیت باقی ہو تو1 ہزار کےمقابلے 313 ہی کافی ہیں اور 1لاکھ کے مقابل 7 ہزار ہی کافی ہیں ہم ظلم کیخلاف جتنی دیر اٹھینگے ہمیں اتنی ہی قربانی دینی پڑیگی,کیا مسلم ممالک اس وقت کا انتطار کر رہے ہیں جب ایسے ظالم لوگ انکے حدود میں داخل ہو کر ایسا ہی کوئی واقعہ دہرائینگے,اور ایسی ملتی جلتی کہانی ہمارے دامن پے لکھنے کی شازش رچینگے۔میں تششدد کی بات نہیں کر رہا بلکہ میں اپنی فکر کا اظہار کر رہا ہوں اور مجھے اسکی اجازت ہے  ہمیں کسی بھی ظالم ملک کے خلاف اسکی ظالم افواج کے خلاف آواز اٹھانے کا پورا حق ہےچاہے وہ  کتناہی سپر پاور کیوں نہ ہو  میرا ضمیر مجھے اسکی پوری آزادی دیتا ہے آج میں برما کے مسلمانوں کی روداد بیان کرکے سارے مسلم ممالک کو یہ بات کہنا چاہونگا  کہ اگر  انکا ضمیر نہیں جاگا اور انہوں نے بدھشٹ دہشت پسندوں کیخلاف کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا تو کل قیامت کے دن رب کریم کی بارگاہ میں مسلم قوم کے عدم تحفظ کا معاملہ پیش ہوگا,اور مسلم حکمرانوں کو سوالات کے دائرے میں پیش کیاجائیگا اور انہیں اسبات کا جواب دینا ہوگا!

              کہاں گزار دی سانسیں جواب مانگے گا

           وہ جب بھی ہم سے ملے گا حساب مانگے گا

قارئین کرام!

 آج میں برما کے حوالے سے یہی بات کہتاہوں کہ اگر ایک ظالم حاکم اور اسکی بھیڑیئے جیسی فوجیں طاقت اور غرور کے نشے میں کمزور اقلیتوں کو بندوق کی نوک پر رکھ کر قتل و خون کی روداد لکھ رہی ہیں تو یاد رکھیئے اگر ایسے انسانوں کو سزا دیکر نہیں روکا گیا تو یہ مت سمجھیئے کہ یہ صرف ایک چھوٹے سے ملک اور اسمیں بسنے والے چند مسلمانوں کا واقعہ ہے بلکہ کل یہی آگ ہمارے دروازے کو بھی چھو کے گزرے گی ۔کیا تب ہمیں ہوش آئیگا جب یہی سلوک ہر نوجوان کے ساتھ ہونے لگے گا۔ اس واقعے کو معمولی مت سمجھیئے اگر ہم نے آواز نہیں اٹھائی تو ایسی طاقتوں کو اور حوصلہ ملے گا اور وہ اپنا کام دوبارہ زندہ دلی اور دلیری سے انجام دینگے۔

شاہ سلمان اور طیب اردگان کا قابل تکریم فیصلہ!

روہنگیائی مسلمانوں پر بڑھتے ظلم و تشدد کے بعد مسلمان حکمرانوں کی عقل ہوش ٹھکانے لگے  ، پاکستان نے جہاں علم احتجاج بلند کیا ، تو وہیں ترکی نے بھی یہ بیان دیا کہ برما کے ظلم کو روکا جائے اور بنگلہ دیش ان کو پناہ دے ، مگر سب سے اہم اور قابل تعریف قدم مملکتِ سعودی عربیہ نے اٹھایا ، سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی مشن کو آگاہ کیا کہ روہنگیائی مسلمانوں کے حقوق کے لئے اقوامِ متحدہ میں بھرپور آواز اٹھائی جائے ، اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ کو سعودی عرب کی جانب سے خط بهی ارسال کر دیا گیا ہے ، سعودی عرب نے تقریباً 5 لاکھ برمی مسلمانوں کو باقائدہ شہریت اور مفت تعلیم اور رہائش کا انتظام کر رکھا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کو شاہ سلمان اور طیب ادگان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور یہ ممکن ہی نہیں تها کہ روہنگیائی مسلمان ظلم کے شکار رہیں اور سعودی عرب  اور ترکی کے فرمانروا خاموش رہیں-شاہ سلمان کی عملی خدمات اور انکی جرات کو سلام اور اسیطرح برما میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی عملی کوششوں پر ہم ان کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔

ﺑﺮﻣﺎ ﮐﮯ ﺭﻭہنگیا ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﭘﺮ ﻋﺎﻟﻢِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺠﺮﻣﺎﻧﮧ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺭﺧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻭﻓﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﻭﮨﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﻧﻨﮕﮯ، ﺑﮭﻮﮐﮯ، ﭘﯿﺎﺳﮯ، ﻻ ﭼﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺑﺲ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﮔﮯ ﺁﺋﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﻣﯿﺪ ﺗﮭﯽ !

نطر بہ نظر!

بعض مبصرین کے خیال میں برما میں مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی میں امریکی سامراج کے معروف خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ وہ برما میں مسلمانوں اور بدھشٹوں کے درمیان فسادات کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور وہ جہاں کہیں رہتے ہیں، مذہبی تعصب کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو قتل کرتے ہیں۔

یہ خفیہ ادارے اپنے من پسند گروپوں پر ڈالر پانی کی طرح بہاتے ہیں اور انہیں مسلسل کشیدگی پیدا کرنے پر اُکساتے رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ عراق میں صدام حسین، لیبیا میں کرنل معمر قذافی اور شام میں صدر بشارالاسد کی ’’ناپسندیدہ‘‘ حکومتوں کے خاتمے کے لیے امریکی ڈالر نے کام دکھایا۔ ان خانہ جنگیوں کا مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا، یہ تو ظاہر ہے، البتہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور اسلام کی امن پسندی کی ساکھ ضروری متاثر ہوئی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔