کالی پٹی، ملی قیادت اور نوجوان 

کامران غنی صبا، پٹنہ

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کی داستان طویل ہوتی جا رہی ہے۔ گؤ رکشا کے نام پر قتل و خون کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایک لاش کا ماتم ختم بھی نہیں ہوتا کہ دوسری لاش بچھا دی جاتی ہے۔ اپوزیشن، سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کو تو چھوڑ ہی دیجیے مسلک کے نام پر ”گلا پھاڑ پھاڑ کر“ چیخنے والے ہمارے ”ملی قائدین“ اور بڑی بڑی جماعتوں کے قد آور رہنما تک یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ ملک میں اقلیتوں خاص طور سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کس طرح آواز بلند کی جائے۔ اب تو احتجاج کے نام پر اخباری بیانات بھی نظر نہیں آتے۔

عید سے ٹھیک دو روز پہلے دہلی سے خریداری کر کے لوٹ رہے حافظ جنید اور اس کے دو ساتھیوں کو ہندو دہشت گردوں نے بے دردی سے مارا پیٹا اور لہولہان کیا یہاں تک کہ حافظ جنید کی جان تک لے لی۔ اس واقعہ نے ہر دردمند ہندوستانی شہری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لیکن ہائے افسوس کہ ظلم کی اس انتہا پر بھی ہمارے ملی قائدین اور نام نہاد سیاسی رہنما معمولی سا ایک احتجاجی جلسہ بھی نہیں کرا سکے۔

ملی قیادت کی اس بے حسی سے تنگ آ کر ہندوستانی نوجوانوں نے اپنے طور پر ہی احتجاج کی کوشش کی۔ نوجوانوں کی طرف سے اپیل کی گئی کہ عید کے دن کالی پٹی باندھ کر ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی اور منافرت کے خلاف احتجاج درج کیا جائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ”کالی پٹی“ موضوع گفتگو بن گئی۔ بلاشبہ نوجوانوں نے یہ فیصلہ بغیر کسی لائحہ عمل کے لیا تھا اس لیے اس کے بعض منفی پہلووں پر غور نہیں کیا جا سکا۔ سیاسی شعور رکھنے والے کچھ علمائے کرام اور دانشوران نے اس مہم کے منفی پہلووں کی طرف توجہ بھی دلائی لیکن نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور عید کے دن بے شمار لوگوں نے کالی پٹی باندھ کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔

کالی پٹی باندھ کر احتجاج کرنا یا نہ کرنا بظاہر کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں ہے لیکن اس مہم سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قوم کس قدر اضطراب کا شکار ہے۔ نوجوانوں میں زبردست غم و غصہ ہے۔ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح ”طلاق ثلاثہ“ جیسے اختلافی مسئلہ پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے تمام مکاتب فکر کے علما اور دانشوران کو بہ یک آواز کر دیا گیا تھا اور پورے ملک میں اس کے خلاف تحریکی سطح پر مہم چھڑ دی گئی تھی ویسے ہی بھگوا دہشت گردی کے خلاف ہمارے علمائے کرام اور دانشوران کو ایک پلیٹ فارم پر آ کر فوری طور پر کوئی فیصلہ لینا چاہیے تھا۔لیکن افسوس کہ ہلاکت پر ہلاکتیں ہو رہی ہیں لیکن ہمارے ملی و مذہبی قائدین کوئی متحدہ لائحہ عمل اختیار نہیں کر پا رہے ہیں ۔شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مومن کے جان و مال کی حرمت ”طلاقِ ثلاثہ“ اور ”پرسنل لا“ ہی نہیں بلکہ خانہ کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے:

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ )کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔“(ابن ماجہ)

  ایسی نازک صورتحال میں اگر نوجوانوں کی صحیح طریقے سے رہنمائی نہیں کی گئی تو یقینا وہ اپنے طور پر فیصلہ لینے پر مجبور ہوں گے (جس کی چھوٹی سی مثال کالی پٹی مہم ہے) اور پھر ایسی حالت میں خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوگی جو کسی بھی طرح ملک کے امن و سالمیت کے لیے درست نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی پوسٹس اور تبصرے پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ کس قدر لبریز ہو چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہر مکتبہ فکر کا نوجوان اپنے ہی مکتبہ فکر کے علمائے کرام اور ملی رہنماوں کا شاکی ہے۔”کالی پٹی“ کے معاملہ میں سبھی بڑی ملی جماعتوں نے خود کو اس مہم سے الگ کر لیا تھا اس کے باوجود نوجوانوں نے اپنا احتجاج درج کیا۔ کئی جگہ عید گاہوں اور مساجد میں باضابطہ کالی پٹیاں تقسیم کی گئیں ۔ یہ کالی پٹی صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ ایک اشارہ بھی ہے کہ اگر نوجوانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کی گئی تو وہ اپنے طور پر فیصلہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن بہرحال نوجوانوں کی رگوں میں جذباتیت کا خون دوڑتا ہے وہ انجام کی پروا کیے بغیر کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس لیے دانشوران قوم و ملت کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر کوئی فیصلہ لیں ۔ معصوم ہندوستانی شہریوں کی ہلاکتوں کو ”طلاق ثلاثہ“ اور ”پرسنل لا“ جیسا سنگین مسئلہ سمجھیں ،اس سے قبل کے دیر ہو جائے اور ملک خانہ جنگی کی آگ میں جھلس کر راکھ ہو جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔