عید الفطر کی انوکھی شان اورپیغام

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

اسلام نے عید کا دن جو متعین فرمایا تو کسی شخصی کارنامے ،یا قومی فتح وکامیابی کے دن نہیں بلکہ خود انسانوں کو ایک خاص عمل سے گذارنے کے بعد ،ایک عظیم محنت کے انجام دلوانے کے بعد خوشی کے دن عنایت فرمائے ہیں ۔دنیا کی دیگر قوموں کے خوشی کے ایام صرف تاریخی واقعات پر منا ئے جاتے ہیں ،اور کسی شخصیت کی یاد میں جشن و طرب قائم کیا جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر بیداری اور فکر مندی نہیں پائی جاتی اور انقلابی صفت سے وہ آراستہ نہیں ہوپاتے ۔جب کہ اسلام میں عید الفطر ایک ایسے موقع پر رکھی کہ جس میں مسلمان مہینہ بھر اللہ تعالی کی اطاعت اور فرماں برداری میں ،اور اس کی رضاجوئی کی فکر میں روزہ رکھتے ہیں ،کھانے ،پینے اور دیگر خواہشات سے اپنے آپ کو روکے رکھتے ہیں ،پوراایک مہینہ حکم شریعت کے مطابق گذارتے ہیں ،عبادات کی انجام دہی اور اعمال کی فکروں میں سکون وراحت کو تج کردیتے ہیں اور اپنے تقاضوں کو قربان کرکے ایک عظیم تربیت کے مرحلے سے گذرتے ہیں ،بھوک کو برداشت کرتے ہیں ،پیاس کی بے چینی کو سہہ لیتے ہیں ،اور بہت سارے جائز کاموں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ایک مہینہ کی اس محنت اور قربانی کا صلہ ،مجاہدہ اور اطاعت کا انعام ،عید الفطر کی شکل میں عطا کیا جاتا ہے جس میں مغفرت ہوتی ہے اور انعام سے نوازے جاتے ہیں۔

اسلام میں اگر تاریخی واقعات کو بنیاد بناکر عید کا دن متعین کرنا ہوتا تو اسلام میں اس کی کمی نہیں ،تاریخ ِ اسلام میں بے شمار انقلاب انگیز اور روح پرور واقعات قدم قدم میں ملیں گے،خود نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعاد ت اہل ایمان کے لئے بڑی خوشی و مسرت کا دن ہے ،آپ پرجب غار حرا میں میں وحی کا آغاز ہوا تو بلاشبہ یہ بھی خوشی موقع تھا،اسی طرح ،فتح مکہ ،غزوۂ بدر اور اس کے علاوہ ان گنت واقعات سیر ت رسول ﷺ میں ہیں ،جس میں سے کسی ایک کا بھی انتخاب کرکے اس کو عید منایا جاتا ؟لیکن اسلام نے ان تما م واقعات کے بجائے ایک ایسے موقع پر عید الفطر رکھی جہاں انسان خود اپنے آپ کو عملی محنت کے راستہ سے گذارتا ہے ۔کیوں کہ ایک مہینہ کی محنت کے بعد اور مسلسل قربانیوں کے نتیجہ میں انعام دیا اور اس کا صلہ ملا تو پھر دل میں قدر ہوتی ہے اور بہت اہتما م کے ساتھ بندہ اس کااحترام کرتا ہے ۔بقول مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کہ:عید الفطر اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک میں نہ صرف فرض روزوں کی تکمیل کرتے ہیں بلکہ اس مقدس مہینہ میں ایک تربیتی دور سے گذرکر اپنی روحانیت کو جلابخشتے ہیں ۔۔۔

اس طرح اسلام نے اپنے پیروؤں کے لئے سالانہ عید منانے کے لئے کسی ایسے دن کا انتخاب نہیں کیا جو ماضی کے کسی یادگارواقعے سے وابستہ ہو ،اس کے بجائے مسلمانوں کی عید ایسے واقعات سے وابستہ کی گئی ہے جو مسلمانوں کے حال سے متعلق ہے ،اور جن کی ہر سال تجدید ہوتی ہے ۔(ذکر وفکر:57)یہ در حقیقت عید الفطر کی اہمیت ہے کہ ایک مہینہ کی محنتوں کا اجر دیا جانے اور عبادات و طاعات کا صلہ عطاکرنے کے لئے اس دن کو عید کا دن متعین کیا ۔جس کی قدر ہر روزہ دار جانتا ہے اور اس کادل خود گواہی دے گا کہ عید الفطر کی کیاا ہمیت اس دل میں ہے؟

اسی طرح اسلامی عید کا امتیاز بھی بڑا عجیب ہے ،غیروں کی عیدوں میں جو بد تہذیبی کا مظاہر ہ اور خواہش پرستی کا جو نظارہ پیش کیا جاتا ہے اسلامی عیدیں ان تمام خرافات اور واہیات سے بالکل پاک و صاف اور عجیب وغریب روحانیت ونورانیت والی ہوتی ہیں ۔لوگ خوشی کے موقع پر بے قابو ہوجاتے ہیں ،مسرت کی گھڑیوں میں اخلاق وکردار کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور جائز و ناجائز کی تما م حدوں کو مٹادیتے ہیں لیکن اسلام نے اس اہم اور حساس موقع پر بھی مسلمانوں کی رہبری کی اور بڑی حسین اور مبارک تعلیمات سے نوازا۔عید کے دن بندہ ٔ مومن کو حکم ہے کہ عید کی خوشی کی شروعات کرنے سے پہلے خداکی بارگاہ میں دوگانہ ٔ  شکر ادا کریں ،عید گاہ کو جاتے ہوئے زبانوں پر تسبیح وتہلیل کا ورد ہو ،جاتے ہوئے ایک راستہ اختیا ر کیا جائے اور واپسی میں دوسرے راستے آئے تاکہ اسلام کی عظمت اور شان وشوکت کا مظاہرہ ہو،اجتماعی انداز میں مسلمان نمازادا کرکے اسلام کی اتفاقی اور اتحادی تعلیمات کا نمونہ پیش کریں ۔سادگی اور عاجزی ہر ایک کی ادا اداسے جھلکتی ہے اور بندگی کے احساس میں ہر مسلمان دوڑا دوڑا حکم ِخدا کو پورا کرنے لئے جاتا ہے ،عظمت ِالہی سے اس کا قلب وجگر سرشار ہو، اور رعبدیت کے اظہار کے ساتھ ،اور بندگی کے اعترا ف کے ساتھ گھروں سے نکلے اور ایک ایسی جگہ (عید گاہ میں )نماز عید ادا کرے جہاں مسلمانوں کا غم غفیر جمع ہو ،تاکہ اجتماعیت کی روح اور اتحاد و اتفاق کا دل کش منظر نگا ہوں کو دیکھنے کو ملے اور اسلامی اخوت ومودت کی شان نمایاں ہو۔مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ:دنیا میں جتنے بھی خوشی کے تہوار ہیں ،سب میں خوشی ہوتی ہے ،یعنی اس میں جو فرائض ہوتے ہیں ،روز مرہ کا جو معمول ہوتا ہے وہ بھی معاف ہوجاتا ہے ۔

لیکن اسلام تنہا مذہب ہے کہ اس میں خوشی کے دن کام بڑھا دیاجاتا ہے ،کام ایسا بھاری نہیں ہوتا کہ آدمی کہے کہ کام نہیں ہوتا ،بلکہ کام ایسا مبارک ہوتا ہے ترقی دینے والا ،معقول اور انسانیت اور شرافت کا ہوتا ہے ۔(رمضان اور اس کے تقاضے :157)اسلام نے عید اور خوشی کے موقع پر بھی گراں قدر ہدایات سے نوازا جو دراصل اہل ایمان کے لئے طرہ امتیاز بھی ہے اور ان کے باطن کو بنانے اور سنوارنے کو بے حد معاون بھی ۔کیوں کہ ایسے موقع پر بھی پہلے رب کی مرضی کو پوری کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور خدا کو راضی کرکے سب کو خوش کرنے اور مبارک بادی دینے کی کوشش میں لگتا ہے ۔

عید دن کا خوشی اور مسرت کا دن ضرور ہے لیکن اس میں انسانوں کے لئے پیغام اور سبق ہیں ،خوشی اور غم ہر دو موقع پر خدا کو یاد رکھنا اور اس کی عظمت کے اعتراف سے زبان وقلب کو شاد رکھنے کی اہم ذمہ داری سپرد کی گئی ہے ۔عیددر اصل حصول ِسعادت کا دن ہے ،جہاں سے زندگی کاایک نیا سفر شروع ہوتا ہے ،گناہوں کی آلوددگیوں اور نافرمانیوں کی گندگیوں سے پاکی اور صفا ئی ہوچکی اب دل کو گناہوں سے گرد آلود ہونے بچا نے اور خدا کی مرضی کے مطابق اگلی زندگی کو گذارنے کے عزم وارادہ کا دن ہے ۔نئے کپڑے پہن لینا ،اور خوشبوؤں سے معطر ہوجا ناہی عید کا مقصود نہیں ہے بلکہ پوری زندگی کو حکم ِالہی اور تعلیماتِ نبوی ﷺکے مطابق گذارنے کے لئے تجدید ِوفا کادن عید ہے ۔حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ :کل یوم یمر علیک لم تعصی اللہ فیہ فھو عید۔ہروہ دن جو اس حالت میں گذرگیا کہ جس میں اللہ کی نافرمانی نہ کی ہوتو وہ تیرے لئے عید کا دن ہے ۔حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ:خوبصور ت رنگ برنگ کے کپڑے پہن لینا ،عمدہ اور لذیذ کھانے اڑانا،لذات و شہوات سے لطف اندوز ہونا،عید نہیں بلکہ مسلمانوں کی عید یہ ہے کہ ان کی عبادتوں کے مقبو ل ہونے ،غلطیوں گناہوں کے معاف ہونے اور برائیوں کے نیکیوں میں تبدیل ہوجانے کی علامات ظاہر ہوں ،بلندی ٔدرجات ،بہترین لباس ،عطیات،تحائف اور اعزازات کی بشار ت ہو ،نورِ ایمان سے دل روشن ہوجائے،یقین ومعرفت کی قوت سے دلی سکون حاصل ہو ۔( غنیۃ الطالبین402)

حکیم الاسلام قاری طیب ؒ صاحب فرماتے ہیں کہ:عید کاحاصل ذکر ِالہی ،ذکر ِزبانی ،خدمت ِخلق اللہ ،روح ِاجتماعیات ،دنیا میں رہ کر آخرت کو نہ بھولنا اور زندوں کے ساتھ اموات سے بھی رشتہ جوڑے رکھنا اور ان میں ہر چیز کی روح اور معیار ایمان کو قرار دینا نہ کہ ظاہر داری اور دنیا سازی ،تاکہ خلق اللہ کے ساتھ اللہ سے وابستگی اصل اصول ثابت ہوتی رہے ۔( خطبات حکیم الاسلام :9/156)

بہر حال اللہ والوں نے عید کی حقیقت کو اوراس کو سبق کو مختلف انداز میں بیان کیا ۔سچ بھی ہے کہ عید نیکوں کے لئے انعام ِالہی کا دن اورنا فرمانوں کے لئے اس سے بھی محرومی ہوگی ۔عید کے موقع پر اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد کرکے شکر گذاری بھی ضروری ہے کیوں کہ کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو باوجود چاہنے کے عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہوپاتے،حالات اور مشکلات ،فقر اور تنگدستی صبر وبرداشت کرنے اور غم کے آنسو پی لینے پر مجبور کرتی ہے ۔اس لئے اسلام نے عید کی خو شیوں میں سب کو شامل ہونے اور امیر و غریب کو لطف اندوز ہونے کے لئے صدقہ فطر رکھا ہے اس کی ادائیگی کے ذریعہ ان پریشان حال مسلمانوں کی مدد ہوگی اور وہ بھی عید کی مسرتوں میں شریک ہوں گے ۔ا س لئے ہمیں چاہیے کہ انعام الہی کا یہ دن واقعی ہمارے لئے انعام و اکرام اور عطا وبخشش کا دن ہی ثابت ہو اور ہر طرح کی نافرمانی سے بچنے والے بنیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔